سندھ کے مختلف اضلاع میں حکومتِ سندھ کی جانب سے مبینہ طور پر سرکاری اور غیر سرکاری زمینیں بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض کے حوالے کیے جانے کے خلاف سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بڑی شدت سے جاری ہے، اور عوامی سطح پر بھی اس بارے میں سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اہلِ سندھ میں مذکورہ حوالے سے جو حد درجہ شدید احساسِ عدم تحفظ جنم لے رہا ہے کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر کالم نگار محمد خان ابڑو نے بروز اتوار 23 مئی 2021ء کو اس موضوع پر اپنے زیرنظر کالم میں بڑے مؤثر انداز میں خامہ فرسائی کی ہے، جس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
……٭٭٭……
’’مائی کولاچی پل سے گزرتے وقت نیچے چھے قبروں پر نظر پڑتے ہی جس طرح سے اپنے بھائیوں کا پلاند (بدلہ) لینے والے مورڑومیر بحر (مورڑونامی معذور ماہی گیر، جس نے ایک تاریخی/ تمثیلی سندھی زبان کی کہانی کے مطابق اپنے بھائیوں کو ہلاک کرنے والے مگرمچھ سے انتقام لینے کے لیے ایک آہنی پنجرہ بناکر قاتل مگرمچھ کو اُس میں قید اور پھر ہلاک کرکے بدلہ لیا تھا، مترجم) کا اَن دیکھا عکس ذہن میں در آتا ہے، اسی طرح سے سندھ کی زمینیں ہڑپ کرنے والی بحریہ کی عفریت کا ذکرآتے ہی فوراً ماما فیضو گبول نامی اُس بوڑھے جواں مرد کی یاد آجاتی ہے جس نے بحریہ کے مالک کو بلینک چیک واپس کرتے ہوئے کہا تھا ’’ملک ریاض زمین تو ماں ہوتی ہے، کوئی اپنی ماں کو بھی بیچتا ہے کیا؟‘‘
یہ پانچ چھے برس پرانی بات ہے، سپر ہائی وے کے قریب بحریہ ٹائون نامی ایک اسکیم کی شروعات ہوئی۔ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پورے پاکستان کے بلڈرز میں ٹائیکون کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اُن کا ترقی کرنے کا طریقہ اتنا عجیب قسم کا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی بلڈر اس حوالے سے موصوف کا مقابلہ کرسکے۔
انہوں نے کراچی میں بیک وقت چھے سات منصوبے شروع کیے جن پر کاغذی کام تو 2010ء سے جاری تھا لیکن زمین کی لیز اور اس کے نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں انہیں وقت لگ گیا۔ سب سے پہلے عبداللہ شاہ غازی کے قریب ’’بحریہ ٹائون ملینیم مال‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی، جو دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے بنتا گیا۔ کراچی کے علاقے بدر کمرشل میں رہنے کی وجہ سے مَیں آتے جاتے اکثر اس مال کی بلڈنگ کو اونچا ہوتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ابھی اس کا کام جاری تھا کہ خبر پڑی کہ بحریہ ٹائون کے نام سے کوئی اسکیم آرہی ہے جو سپرہائی وے سے لگ بھگ 50 کلومیٹر حیدرآباد کی طرف ہوگی۔ ملک ریاض کراچی سے پہلے لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں بہت بڑی ہائوسنگ اسکیمیں مکمل کرچکے تھے۔
ملک ریاض کے لیے مشہور ہے کہ وہ اپنی کنسٹرکشن کمپنی میں پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران بطور ملازم رکھتے ہیں۔ ان کی کمپنی میں میجر، کرنل اور بریگیڈیئر کی سطح تک کے ریٹائرڈ افسران کو ملازم رکھنے کی باتیں بھی زبان زدِ عام ہیں جنہیں وہ پُرکشش تنخواہیں دیتے ہیں۔ نتیجے میں وہ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اپنے تعلقات اور طاقتیں بھی بحریہ کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ بدر کمرشل آتے جاتے ہوئے میرے سامنے بحریہ ٹاور ملینیم مال کی مذکورہ بلڈنگ ساتویں، آٹھویں فلور تک جاپہنچی تو انہوں نے اسی زیرتعمیر بلڈنگ کی دکانوں میں اپنے دفاتر قائم کرکے بحریہ ٹائون کی اسکیم کے آغاز کا بھی اعلان کر ڈالا۔
اُس وقت سپر ہائی وے پر صرف روڈ کے قریب ایک دیوار اور ایک گیٹ لگایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ وہ جگہ ہے جس کی بکنگ کی جارہی ہے۔ پھر کیا تھا… لوگوں کا ایک ہجوم قطار بنائے وہاں پر کھڑا ہوا دکھائی دینے لگا۔ بکنگ فارم لینے کے لیے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب ٹاور پر لائن میں کھڑے افراد گویا بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے پیسے لینے کے لیے طویل قطاریں بنائے تیز دھوپ میںانتظار کیا کرتے تھے۔ خبر ملی کہ بحریہ ٹائون کے فارم کی فیس پانچ سو یا ہزار روپے ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد اس کے ساتھ 10 ہزار (تقریباً) روپے کا پے آرڈر بناکر جمع کرانا پڑتا تھا، اور بتایا جاتا تھا کہ اس عمل کے بعد بحریہ ٹائون کی طرف سے قرعہ اندازی کی جائے گی اور جس خوش نصیب کا بھی نام نکلے گا اُس کا یہی فارم لاکھوں روپے میں فروخت ہوگا۔ لوگوں کے لیے بحریہ ٹائون کا یہ فارم گویا فارم نہیں بلکہ ایک لاٹری کے مترادف تھا۔ پھر تو ہر روز ہی ہزاروں افراد صبح کو بہ وقت نمازِ فجر آکر لائن میں کھڑے ہوجایا کرتے تھے، اور جو اِن میں سے فارم کے حصول میں کامیاب ہوجاتے تھے وہ بعدازاں اپنے اس فارم کو بیچا بھی کرتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے چھوٹے اسٹیٹ ایجنٹس اور بروکرز کے تو گویا ایک طرح سے وارے نیارے ہوگئے۔ ہر روز شام کے وقت یہ فارم بدر کمرشل میں بکا کرتے تھے اور سیکڑوں ایجنٹ وہاں پہنچا کرتے تھے، اور خرید و فروخت کا یہ کام ساری رات ہی چلا کرتا تھا۔ پھر یہ سلسلہ لگ بھگ ایک سال تک جاری رہا، لیکن اُس وقت تک بحریہ ٹائون کا کوئی بھی ترقیاقی کام شروع نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ سندھ میں زرداری صاحب کے ساتھ ان (ملک ریاض) کی ساجھے داری ہے، لیکن پنجاب میں زرداری صاحب کی مدد کے بغیر ان کی مکمل کردہ بہت ساری اسکیموں اور پراجیکٹس کو دیکھ کر یہ اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ طاقتور حلقوں سے قریبی تعلقات کی وجہ سے کہیں بھی کوئی اسکیم شروع کرنا ان کے لیے کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہرگز نہیں رہا ہوگا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سندھ میں انہیں جو زمین ملی وہ سندھ سرکار نے کم قیمت پر انہیں الاٹ کی ہے۔ لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ زمینیں جو گزشتہ 15 برس سے ملک ریاض کو الاٹ کی گئیں اُن کی کورٹس نے لیز ختم کرکے نئی الاٹ منٹ پر پابندی عائد کردی تھی تو پھر سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کی زمین کی سستی الاٹ منٹ جو حکومتِ سندھ نے کی، آخر کیوں ریگولرائز کیا؟ کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے ملک ریاض کو قانونی راستہ مہیا کرکے دینا تھا اس لیے سپریم کورٹ نے اس امر کا جائزہ لیے بغیر ہی کہ بحریہ ٹائون نے جس زمین کی بکنگ کرکے لاکھوں افراد سے اربوں روپے وصول کیے ہیں کیا وہ زمین سرزمین پر موجود ہے بھی یا نہیں؟ کسی بھی قسم کی ویری فکیشن کیے بغیر ہی سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو ساری زمین 475 ارب روپے کی وصولی کے بدلے میں دینے کا حکم دے کر گویا ایک طرح سے بالواسطہ طور پر ملک ریاض کے پراجیکٹ میں کی جانے والی ساری بے ضابطگیوں کو قانونی شکل دے ڈالی۔ اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے طے شدہ رقم دینے کے بعد اب ملک ریاض کی مرضی ہے کہ وہ جو جی میں آئے، کریں۔ انہیں کوئی بھی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معزز عدالت نے بغیر کسی کی جانب سے فریاد/درخواست کے، مذکورہ کیس کا ازخود نوٹس لے کر کیس چلایا اور ملک ریاض کے لیے آنے والے وقت میں پیش آنے والی تمام امکانی مشکلات کو حل کرکے موصوف کو ایک طرح سے کلین چٹ مہیا کردی۔
تین چار سال پیشتر سندھ میں کئی قوم پرست جماعتوں اور چھوٹے چھوٹے گروپوں نے احتجاج کرکے سپر ہائی وے کو بھی بند کیا اور بحریہ ٹائون کے گیٹ کے قریب دھرنا بھی دیا، جس کے بعد بحریہ ٹائون اور اس کی اسکیم متنازع بن گئی اور بحریہ ٹائون میں سرمایہ کاری کرنے والے انویسٹرز اور عام الاٹیز بھی گھبرا گئے، جس کی وجہ سے بحریہ ٹائون کے دام دھڑام سے نیچے گر گئے۔ انویسٹ منٹ کرنے والے حلقے اور لوگ پریشان ہوگئے۔ لیکن کچھ وقت احتجاج جاری رہنے کے بعد بالآخر اس کی شدت ماند پڑ گئی اور جدوجہد کا سلسلہ بھی تھم سا گیا۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ ملک ریاض کے خلاف اٹھنے والی یہ احتجاجی تحریک اچانک سے ہی کیوں ختم ہوگئی تھی؟ لیکن اس حوالے سے متعدد سوالات ضرور جنم لیتے رہے ہیں، کیونکہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ کے جزائر پر وفاقی حکومت کے قبضے کے خلاف حکومتِ سندھ کے واضح مؤقف (اور یہ واضح مؤقف سندھ کے قوم پرست حلقوں کے بعد سامنے آیا) کے بعد اس بارے میں چلائی گئی احتجاجی تحریک ماند پڑ گئی تھی، لیکن یہ امر تاحال عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ بحریہ ٹائون کے خلاف کیے جانے والے احتجاج کے وقت حکومتِ سندھ نے ایسا کوئی بھی بیان نہیں دیا تھا جس سے یہ اندازہ قائم کیا جاتا کہ بحریہ ٹائون کو غیر قانونی قرار دے کر اس کی اسکیم یا پروجیکٹس کو بند کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی سارے احتجاج کا سلسلہ اچانک ہی جس طرح بغیر کسی نتیجے کے حصول کے یکسر ختم ہوگیا تھا، اس کی بنا پر بہرحال بہت سارے سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔ کوہستان (ضلع جام شورو، حیدرآباد) کے سردار ملک اسد سکندر اور ان کے راج (ماتحت علاقے) کے برفت، خاصخیلی، گبول، جوکھیو، بروہی وغیرہ قبائل اور ان کے گوٹھ شامل ہیں، کے باشندوں کو ان کی زمینیں دینے کے عوض انہیں جائز معاوضہ لے کر دینے کے لیے ملک اسد سکندر نے مضبوط اسٹینڈ لیا اور اپنی پارٹی کی قیادت کے سامنے کھڑے ہوگئے، جس کے نتیجے میں انہیں خاصی تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن بالآخر انہوں نے نہ صرف اپنے راج کی زمینوں کے افراد کو معاوضے دلائے بلکہ ان کی ہم نوائی بھی کی۔ باقی رہا ماما فیض محمد گبول جس کی زمین بحریہ ٹائون کے ساتھ سپرہائی وے پر واقع ہے، اس زمین کے حصول کے لیے پہلے تو حسبِ روایت ملک ریاض نے سرکاری مشینری کا استعمال کیا، لیکن بہت سارے حربے اور دائو پیچ آزمانے کے بعد بھی ماما فیض محمد گبول نے اپنی زمین فروخت نہیں کی اور ملک ریاض کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اگرچہ ملک ریاض کے ’’چاہنے والے‘‘ یہ دلیل بھی پیش کرتے رہے ہیں کہ ماما فیضو گبول کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے یہ زمین آج بھی گبولوں کی ملکیت ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک ریاض نے کسی کی زمین پربھی آج تک زبردستی قبضہ نہیں کیا ہے، لیکن ہم اس بات کا تعین وقت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا؟ تاہم یہ امر امکان سے باہر کسی صورت بھی دکھائی نہیں دیتا کہ کچھ حلقوں کا کردار ایسے امور میں متضاد اور مشکوک ضرور رہا ہے۔ اسے بدقسمتی ہی گردانا جائے گا کہ ہمارے ہاں سندھ میں سیاست کی کشتی میں سوار اکثریتی افراد کا کردار اس نوع کا رہا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعت ہی سیاست سے بیزار ہوگئی ہے۔ جو بھی زیادتیاں ہورہی ہیں ان کی ذمہ داری صرف انہی چہروں پر عائد نہیں ہوتی جو سامنے اسکرین پر نظر آتے ہیں، بلکہ پس پردہ بھی ایسے چھپے ہوئے چہرے ہیں جو بہ ظاہر دکھائی تو نہیں دیتے لیکن ان کا کردار دراصل حد درجہ اہم ہوتا ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں براجمان منصفین کی مہربانیاں اور غیر مرئی طاقتور قوتوں سمیت وہ سارے حلقے جن کا عام لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق یا لین دین نہیں ہوتا، وہ ذمہ دار ہیں اصل میں ان تمام تر ناانصافیوں کے، جو عام افراد کے ساتھ روا رکھی جارہی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس وقت بحریہ ٹائون نامی لگ بھگ کراچی جتنا نیا شہر زیر تعمیر ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے حامل اس نئے شہر کے لاکھوں افراد کو بھی نظرانداز کرنا اب کسی کے بس میں نہیں۔ اس لیے اس وقت ہمارے لیے حقیقت پسند بننا بے حد اہم ہے۔ نہ صرف بحریہ ٹائون بلکہ بحریہ ٹائون سے باہر بھی سندھ ہی کی سرزمین ہے، جس پر بات کرنا شجر ممنوعہ بنا ہوا ہے۔ کراچی تا حیدرآباد سپر ہائی وے کے دونوں طرف فروخت شدہ لاکھوں ایکڑ زمین جس پر مختلف پروجیکٹ اور ہائوسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں، اب ان پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے برعکس اس بارے میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی جارہی ہیں۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ کیا یہ زمینیں سندھ کی نہیں ہیں؟‘‘