شمس الدین خالد ایڈووکیٹ

کراچی یونیورسٹی کی انجمن طلبہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا منتخب صدر

شمس الدین خالد ایڈووکیٹ سے میری پہلی ملاقات 1968ء کے آخر میں ریڈیو پاکستان نیوز روم کراچی کے اردو یونٹ میں ہوئی تھی، جہاں وہ جزوقتی طور پر اردو خبروں کے مترجم کے طور پر کام کررہے تھے۔ خاکسار اُس وقت ایم بی اے کررہا تھا اور تیسرے سیمسٹر میں تھا اور بھائی کے انتقال کی وجہ سے مالی طور پر بہت مسائل کا شکار تھا۔ میرے ایک اچھے دوست عالمگیر حفیظ مرحوم جو IBA میں میرے ہم جماعت بھی تھے، مجھے فوری طور پر مالی سہارا دینے کے لیے اپنے والد عبدالحفیظ خاں کے پاس لے گئے جو اُس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر نیوز تھے، اور اُن سے اصرار کیا کہ میرے یہ دوست ایم بی اے کررہے ہیں اور انتہائی مالی مشکلات کا شکار ہیں، انہیں جز وقتی طور پر اردو نیوز میں بطور مترجم رکھ لیں۔ عالمگیر حفیظ کے اصرار پر اُن کے والد نے مجھے ریڈیو پاکستان کے شعبۂ اردو نیوز میں رکھوادیا۔ اُس وقت وہاں کے سپروائزر جناب ادریس صدیقی تھے۔ شمس الدین خالد ایم اے انگلش کرچکے تھے اور ایل ایل بی بھی کررہے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ جسارت کے چیف رپورٹر ہوگئے تھے اور ایل ایل بی کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے وکیل عبادت یار خاں کے ساتھ وکالت کرنے لگے تھے۔ ریڈیو پاکستان میں شمس الدین خالد نے مجھے نقشبندی صاحب، شجیع صاحب، نجم الحسنین اور دیگر احباب سے ملوایا۔
وہ ریڈیو کی ڈیوٹی کے بعد اکثر مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کے گھر جو ریڈیو پاکستان کے نزدیک سعید منزل پر ہی واقع تھا، جایا کرتے تھے اور مجھے بھی لے جاتے تھے، جہاں میں ان کی گفتگو سے مستفید ہوتا تھا۔ شمس الدین خالد نے مجھے جمعیت الفلاح سے بھی متعارف کرایا اور میں ان کے ساتھ فلاحی ادبی نشست میں ہفتے کے ہفتے شریک ہونے لگا۔ اُس وقت ڈاکٹر امیر حسن صدیقی جمعیت الفلاح کے بانی صدر اور شمس الدین خالد سیکریٹری تھے۔ وہ ’وائس آف اسلام‘ کے مدیر تھے جو جمعیت الفلاح کے ماہانہ جریدے کے طور پر نکلتا تھا۔ ڈاکٹر امیر حسن صاحب ہفتے میں ایک دن جناح اسپتال کے جنرل وارڈ جایا کرتے تھے اور اپنے ہمراہ مریضوں کے لیے پھل اور ان کی ضروریات کی اشیاء بھی لے کر جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ شمس الدین خالد اور جمعیت الفلاح کے دوسرے چند اراکین باقاعدہ جاتے تھے اور خاکسار بھی ان کے ساتھ اس نیک کام میں شریک ہوتا تھا۔ یومِ شوکتِ اسلام کے جلوس میں نمازِ ظہر ہم نے میاں طفیل محمد کی اقتدا میں ادا کی اور نشتر پارک سے ٹاور تک اس عظیم الشان جلوس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔
خاکسار کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ شمس الدین خالد اور معراج الدین خاں نے مجھے نہ صرف جماعت کے قریب کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا بلکہ مجھے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بھی عادت ڈلوائی۔
شمس الدین خالد صاحب کو جمعیت الفلاح کی طرف سے امریکہ کے مطالعاتی دورے پر بھی بھیجا گیا تھا۔ اس دورے کے جملہ اخراجات ایک امریکی مسلم تنظیم نے برداشت کیے تھے۔ خالد صاحب نے کئی شہروں میں جماعت کے اراکین اور ہمدردوں سے ملاقاتیں کیں اور جلسوں میں تقریریں بھی کیں۔ مرحوم عبادت یار خاں کے ساتھ کئی سال تک بطور وکیل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پیش ہوتے رہے۔ انہوں نے اپنا دفتر صدر میں فرید چیمبرز میں قائم کیا ہوا تھا۔ فاران کلب کے لیے بھی شمس الدین خالد صاحب کی خدمات لائقِ ستائش ہیں۔ فاران کلب کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے بطور سیکریٹری دن رات کام کیا اور اپنی انتھک محنت اور صلاحیت سے اس کے تشخص کو اجاگر کیا۔
خالد صاحب کی خوش دامن، ام زبیر صاحبہ جماعت اسلامی خواتین کی قیمہ تھیں جو کئی کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں اور بہترین تحریکی کارکن تھیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے خالد صاحب الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے ان کی یادداشت بہت متاثر ہوگئی تھی اور وکالت کا فریضہ بھی انجام نہیں دے پارہے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ ان کا انتقال رمضان کی ستائیسویں مبارک شب مورخہ 9 مئی 2021ء کی رات کو ہوا۔