پاکستان ایٹمی منصوبے کے معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ایک ملاقات

دنیاوی کامیابیوں کو جب شمار کیا جاتا ہے تو کچھ ڈگریوں کا حصول، کچھ عہدوں کا ملنا، کچھ اعزازات اور انعامات کو شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم بعض اعزازات ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر فخر محسوس ہوتا ہے یا کم از کم ان کا احساس، ان کی یاد ایک اندرونی طمانیت کا باعث بنتی ہے۔ چند ماہ قبل ہونے والی ایک ملاقات ایسی ملاقات تھی جس کو زندگی کی کسی بھی بڑی کامیابی کے مترادف کہا جاسکتا ہے۔ وہ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات تھی۔ اس ملاقات کو ممکن بنانے کا سہرا مکمل طور پر محترم جلیس سلاسل صاحب کے سر ہے، اگر ان کا تعاون اور کوشش نہ ہوتی تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی خواہش صرف خواہش ہی رہ جاتی۔
ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا، محترم جلیس سلاسل صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب سے ملنا چاہتی ہیں؟ میرے لیے اس سے زیادہ فخر اور اعزاز کی بات کیا ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوجائے! ملاقات کی تمام تر تفصیلات طے ہونے کے بعد اسلام آباد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کورونا کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اجازت نہیں مل سکتی۔ ان کی کتب ان کا ڈرائیور آکر لے جائے گا۔ اس سلسلے میں جب ڈاکٹر صاحب سے فون پر بات ہوئی اور ان سے ملاقات نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کیا تو بہت سادہ سے انداز میں پوچھا ’’اچھا تم ملنا چاہتی ہو؟ یہ تو ایک اعزاز ہوگا… اچھا… میں گاڑی بھیج دیتا ہوں، آجائو… کہاں ٹھیری ہو؟‘‘
میں نے اپنا شیڈول بتایا تو میری ہی آسانی کے مطابق ملاقات کا وقت طے کرلیا۔
جس دن ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے جانا تھا اُس دن تک اتنی دفعہ ڈاکٹر صاحب سے گفتگو ہوچکی تھی کہ کسی اجنبیت کا احساس باقی نہیں رہا تھا، نہ ہی ایسا کوئی احساس تھا کہ آپ ملک کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے ملاقات کے لیے جارہے ہیں۔ ملاقات سے قبل ہی اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ وہ انتہائی سادہ طبیعت کے انسان ہیں۔
اسلام آباد کے ایک خوبصورت سیکٹر میں واقع درختوں سے گھرے اس بنگلے میں داخل ہوتے وقت ایک خوشگوار احساس ہوا۔ پرانی طرز کے بنے ہوئے اس بنگلے میں داخل ہوتے ہی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو جانوروں سے کس قدر لگائو ہے۔ ڈاکٹر صاحب جس بڑی سی کھڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے اس کے شیشے پر بار بار چندبندر آکر چپک کر کھڑے ہوجاتے۔ شاید کچھ بات بھی کرنا چاہتے تھے۔ بلیاں تو باقاعدہ اپنی خدمت کروارہی تھیں۔ دورانِ گفتگو انہوں نے کئی بار پیکٹ میں رکھا بلیوں کا کھانا اپنے ساتھ رکھی میز پر ڈالا جس کو وہ تیزی سے ختم کرتی اور پھر ان کی جانب دیکھنے لگتی۔ کوّوں اور کبوتروں کے کھانے کی بھی ان کو فکر تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک اور دنیا بسائی ہوئی ہے، تاہم سامنے بڑی سی اسکرین پر ٹی وی بھی چل رہا تھا۔
مئی کی آمد نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی یاد تازہ کردی اور اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کا ذکر نہ کرنا اور ان کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا احسان فراموشی ہوگی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 28 مئی 1998ء کا کارنامہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی جدوجہد کا حاصل تھا۔
اپریل 1936ء میں جنم لینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس منزل کی جانب سفر کا آغاز 1961ء میں برلن روانگی سے ہوتا ہے۔ ہالینڈ کی شہری خاتون ہنی خان سے منگنی کے بعد مزید تعلیم کے لیے ڈاکٹر صاحب ہالینڈ چلے گئے اور وہیں ان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ہالینڈ میں DELFT کی مشہور ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں تعلیم جاری رکھی۔ اپریل 1972ء میں ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد مختلف ممالک سے اچھی پیش کشیں ہوئیں تا ہم انہوں نے ایمسٹرڈیم کی مشہور فرم VMF میں میٹالرجی میں اہم عہدے پر کام کرنا شروع کیا اور ہالینڈ، جرمنی اور انگلستان کے مشترکہ سیکرٹ پروجیکٹ ’’یورینیم کی افزودگی بذریعہ سینٹری فیوج ٹیکنالوجی‘‘ کا حصہ بنے۔ یہ انتہائی جدید اور اہم ٹیکنالوجی تھی۔
پاکستان آنے کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ’’دسمبر 1975ء میں کرسمس کی چھٹیوں میں اپنی بیگم اور دونوں بیٹیوں کے ساتھ پاکستان آیا تھا۔ اس کے دو تین دن بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ منیر احمد خان اور اُن کے ساتھیوں نے ایٹمی پروگرام پر ایک سال میں کتنی پیش رفت کی ہے؟ یہ دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا کہ ایک ناسمجھ، نا تجربہ کار انجینئر کی سربراہی میں آٹھ دس جونیئر لوگ ایک کھنڈر میں ایٹم بم بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب میں نے بھٹو صاحب کو صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے پوچھا: ڈاکٹر صاحب آپ کا کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا ہم 15 جنوری تک واپس چلے جائیں گے۔ بھٹو صاحب نے فوراً کہا :خان صاحب آپ واپس نہ جائیںُ یہ کام آپ کے بغیر نہیں ہوگا۔ میرے لیے یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ میں نے اُن سے کہا کہ ہم چھٹیوں پر آئے ہیں، میری بچیاں وہاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اللہ بھٹو صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے، وہ ضد کرتے رہے۔ وہ 18 مئی 1974ء کے ہندوستان کے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اپنی بیگم سے بات کرکے جواب دوں گا۔ میری توقع کے عین مطابق پہلے تو وہ گھبراگئیں، پھر انہوں نے ایک سیدھا سوال کیا: اگر تم یہاں ٹھیرے تو ملک کے کوئی اہم کام کرسکتے ہو؟ میں نے جواب دیا: حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا۔ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر ہم رُک جاتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ایک فیصلے نے پاکستان کے ناقابلِ تسخیر دفاع کی داغ بیل ڈالی‘‘۔
ڈاکٹر صاحب سے جب اس سے متعلق استفسار کیا تو ان کی مسکراہٹ سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ انہیں اپنے اس فیصلے پر کوئی افسوس یا ملامت نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بڑے کارنامے وہی لوگ انجام دیتے ہیں جو ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر قربان کردیتے ہیں۔ جرمنی کی پُرتعیش زندگی چھوڑ کر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں تین ہزار روپے ماہوار کی نوکری اختیار کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا، یہ تنخواہ بھی 6 ماہ بعد ملی۔
اس کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بے شمار نشیب و فراز آئے۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جوائن کرنے کے بعد سے آج تک ملک سے وفا کے جرم میں اُن کے خلاف بے شمار سازشیں کی گئیں، مشکلات کھڑی کی گئیں جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’داستانِ عزم‘‘ میں کیا ہے۔ یہ رکاوٹیں اور مشکلات بین الاقوامی سطح پر بھی کھڑی کی گئیں اور ان پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے لیے سینٹری فیوج طریقہ کار استعمال کیا جو کہ ایک مشکل ترین ٹیکنالوجی تھی جس کے استعمال کا پاکستان جیسے ملک کے لیے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا آپ پر مغربی ممالک سے ٹیکنالوجی چوری کرنے کا بھی الزام لگایا گیا۔ ڈاکٹر قدیر کا کہنا تھا کہ ’’یورینیم کی افزودگی کا کام ہمارے لیے بڑا چیلنج تھا۔ یہ ایک دشوار اور مہم جُو کام تھا۔ اس میں کامیابی باعثِ فخر اور مسرور کن تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انتہائی ناقدری اور پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں انتہائی تکلیف دہ اور ناروا سلوک کے باوجود ڈاکٹر صاحب کے چہرے اور لہجے کا اطمینان اس بات کی گواہی ہے کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا خلوصِ دل سے کیا، اور شاید کسی صلے کی تمنا کے بغیر کیا۔
مضمون کا اختتام ڈاکٹر صاحب کے الفاظ سے کریں گے:
’’اہلِ پاکستان! آپ ذرا سوچیے کہ اگر میں یورپ میں سب کچھ چھوڑ کر نہ آتا اور سخت مشکل حالات کا مقابلہ کرکے پاکستان کو ایٹمی قوت نہ بناتا تو اہلِ اقتدار کی کیا حیثیت ہوتی؟ میں نے اپنے وطنِ عزیز اور اپنی فوج کو طاقت ور بنانے کے لیے کام کیا اور دن رات ایک کردیے۔ پرویزمشرف نے امریکی صدر بش کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے مجھے اور میرے ساتھیوں کو رسوا کیا اور بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، اور کس طرح میرے اور میرے ساتھیوں کے خلاف سازشیں کیں، پاکستانی قوم سب کچھ جانتی ہے‘‘۔