بجٹ کی تیاری

.آئی ایم ایف کے معاہدوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوچکی ہے

تحریک انصاف کی حکومت اگلے ماہ سالانہ وفاقی مالی میزانیہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے جارہی ہے۔ یہ اس حکومت کا چوتھا وفاقی بجٹ ہوگا۔ دو ضمنی بجٹ شامل کرلیے جائیں تو تحریک انصاف کے پیش کیے گئے بجٹ کی تعداد 6 ہے۔ اس حکومت کے ساتھ عجیب اتفاق ہے کہ ان تین سال میں حکومت ہر بار نیا وزیر خزانہ لاکر بجٹ پیش کرتی رہی ہے۔ گزشتہ بجٹ اسد عمر، حماداظہر اور حفیظ شیخ پیش کرچکے ہیں، اور اب مالی سال 2021-22 ء کے لیے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین بجٹ پیش کریں گے، جن پر آئینی طور پر پابندی ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوں۔ اس مدت کے دو ماہ گزر چکے ہیں اور چار ماہ کی مدت باقی رہ گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہونے تک یہ مدت مزید کم ہوجائے گی، اور اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اگر وہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان کے رکن منتخب نہ ہوئے تو وفاقی وزیر کے عہدے پر رہنے کا آئینی حق اور استحقاق کھو دیں گے، لہٰذا اس سال پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بجٹ کی قسمت کا فیصلہ وزیر خزانہ کی آئینی حیثیت سے مشروط ہے۔
تحریک انصاف کے انتخابی منشور پر اگر نظر دوڑائیں یا اس کے پہلے سو دنوں کے اندر اقدامات اٹھانے کے وعدوں کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے پہلے سو دن 18نومبر2018ء کو مکمل ہوئے اور حکومت نے اپنے پہلے سو دنوں کا پلان چھ ماہ بعد دیا۔ پہلے سو دنوں میں اسے دس لاکھ نوکریاں دینی تھیں، فاٹا کو کے پی کے میں مدغم کرنا تھا، جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ قائم کرنا تھا، گیسٹ ہائوسز کو ہوٹلوں میں تبدیل کرکے سیاحت کو فروغ دینا تھا۔ فاٹا کو کے پی کے میں مدغم کرنے کا بل نوازشریف حکومت تیار کرکے اسمبلی میں پیش کرکے گئی تھی، صرف یہی ایک کام اب تک ہوسکا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر، ایک کروڑ نوکریاں دینے سمیت باقی تمام دعووں کے پہاڑ روئی کے گالے بن کر اڑ چکے ہیں اور حکومت اپنی آئینی مدت کے چوتھے سال میں داخل ہونے جارہی ہے۔ آئینی لحاظ سے پارلیمنٹ کے پاس ابھی دو سال باقی ہیں، تاہم ملک کے سیاسی اور حکومت کے انتظامی حالات بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بھی ماضی سے بہتر نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں کچھ بولیں یا نہ بولیں، پوری قوم تحریک انصاف کے اقتدار کا مزا چکھ چکی ہے۔ تحریک انصاف کا بیانیہ بوجھ سمجھا جارہا ہے، اور اب کوئی یہ بوجھ اپنی کمر پر لادنے کو تیار نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کی وزارتِ خزانہ اِن دنوں بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے، اور بجٹ سے قبل اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں حکومت ملکی معیشت کا ایک نقشہ پیش کرتی ہے۔ موجودہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی تمام تر نالائقی کورونا کے پیچھے چھپی رہی، رہی سہی کسر ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی بے سمت اور بے پیندا سیاسی سرگرمیوں نے نکال دی۔ جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تھا تو میڈیا سمیت اُسے ہر جانب سے حمایت، سرپرستی اور تحفظ میسر تھا، بلکہ میڈیا کو پابند بنایا گیا کہ وہ صرف ترقی دکھائے۔ اس بے مثال حمایت کے باوجود یہ حکومت خود اپنے ہی بوجھ تلے دب چکی ہے۔
اب بجٹ سے قبل معاشی اعدادو شمار دیے جارہے ہیں، جنہیں ملک کے معاشی ماہرین کا غیر جانب دار طبقہ درست تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہا۔ ان تین سال میں مہنگائی کے باعث ملک کی مڈل کلاس تباہ ہوچکی ہے، صرف دوستوں کا ایک کلب ہے جس نے فائدے اٹھائے ہیں، پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں اور دوکروڑ بدترین حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ حکومت کو ورثے میں 5.8 فیصد شرح ترقی ملی تھی جو اب منفی ہوچکی ہے، مگر حکومت3.9 فیصد شرح ترقی دکھا رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے نمائندے نے بھی اس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ عدد اصل سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ حکومت نے اپنے پہلے سال میں اصل 1.9 فیصد کے عدد کو بڑھا چڑھا کر 3.3 فیصد دکھایا تھا، اِس سال پھر وہی کیا۔ ملک میں فی کس آمدن میں 3 فیصد کمی آئی ہے۔ غیر جانب دار معاشی ماہرین حقیقی آمدن میں مزید کمی کا امکان بتارہے ہیں۔ مہنگائی نے متوسط طبقے کے گھروں کے بجٹ کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں، مہنگائی میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے، 110 روپے کلو چینی مل رہی ہے۔ اتنی بلند مہنگائی کی شرح، جہاں صرف خوراک کی قیمتوں میں 14 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔ یہ معاشی حقائق تباہ کن تصور کیے جاتے ہیں۔ کامیاب معیشت میں مہنگائی میں کمی اور روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت اسکول، اسپتال اور انفرااسٹرکچر کے منصوبے بناتی ہے۔ لیکن یہ حکومت تین سال میں کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ بھی نہیں دے سکی۔ تحریک انصاف کی گردان اب تک یہی ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت ریکارڈ خسارے چھوڑکرگئی۔ اب جب کہ معیشت منفی درجوں کو چھو رہی ہے حکومت نے بجٹ سے قبل چھومنتر سے چار فیصد ترقی دکھائی ہے، حالانکہ حکومت کا مالی خسارہ 64 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ حکومت نے ایک کھیل سیکھا ہے کہ پہلے ترقی کے بلند اہداف دکھائے جائیں، پھر ان پر نظرثانی کرلی جائے۔ اس وقت 5 کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ حکومت نے ملک کو اتنا مقروض کردیا ہے کہ آنے والی نسلیں یہ قرض ادا کرتی رہیں گی۔ حکومت نے نااہلی اور بدانتظامی کو چھپانے کے لیے قرض کی رپورٹ میں اہم اعدادوشمار ظاہر نہیں کیے، عوامی قرضہ 44 ٹریلین تک پہنچ گیا ہے، پبلک ڈیٹ اب جی ڈی پی کے 90 فیصد کے برابر ہے۔ حکومت جی ڈی پی کے مشکوک اعدادوشمار بتا رہی ہے، اس کے مقابلے میں آئی ایم ایف کہتا ہے کہ 2فیصد ہے، اور عالمی بینک اسے 1.5فیصد تسلیم کرتا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ خود کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ حکومت نے جو معاشی اعدادو شمار بتائے ہیں ان میں کووڈ اخراجات تو شامل ہی نہیں جن کے متعلق کہا جارہا ہے کہ بارہ کھرب کے امدادی پیکیج میں گھپلے ہوئے ہیں۔ حکومت نے ترقیاتی بجٹ کاٹا ہے، سی پیک منصوبہ متاثر ہورہا ہے، پاکستان کی کرپشن کی رینکنگ بڑھی ہے، ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔