اسرائیل اور حماس کے درمیان گیارہ روزہ جنگ کا بالآخر خاتمہ ہوگیا۔ اس جنگ میں فریقین کی جنگی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ اسرائیل ہر طرح کے خطرناک جنگی اسلحہ سے لیس، جب کہ حماس کے لوگ تقریباً نہتّے۔ جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف ہونے والی ہلاکتوں کے تناسب میں بھی خاصا فرق رہا۔ چنانچہ اسرائیل کی طرف صرف 12 شہری ہلاک ہوئے، جب کہ غزّہ (فلسطین) میں ہلاکتوں کی تعداد 243 بتائی گئی ہے، جن میں 66 بچے ہیں۔ اسرائیل کی اندھا دھند بمباری کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور املاک کا نقصان ہوا ہے، چنانچہ سیکڑوں رہائشی عمارتیں، اسکول، اسپتال اور پناہ گزیں کیمپ اس کے بموں کا نشانہ بنے ہیں۔ لیکن جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ خود اسرائیل کو غیر مشروط طور پر جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا، جب کہ حماس نے اُس وقت تک اس کے لیے آمادگی ظاہر نہ کی جب تک اس کی شرائط نہیں مان لی گئیں۔ اس سے حماس کی برتری ظاہر ہوتی ہے اور اس چیز کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ فتح اور کام یابی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دینا ناگزیر ہے۔
اسرائیل حماس حالیہ جنگ کے نتیجے میں اہل فلسطین کو بہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگار آئندہ بہت دنوں تک ان کا تجزیہ کرتے رہیں گے۔ مثال کے طور پر قضیۂ فلسطین پسِ پشت چلا گیا تھا، اس جنگ کے نتیجے میں وہ پھر ابھر گیا ہے۔ عالمی سطح پر فلسطین کے حمایتی ممالک میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام ممالک میں اسرائیل کے خلاف اور اہلِ فلسطین کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اپنی درندگی، حیوانیت اور دہشت گردی کے سبب اقوامِ عالم میں مبغوض ٹھیرا ہے اور اس کے خلاف بین الاقوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ڈپلومیسی پوری دنیا میں کم زور ہوئی ہے۔ اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے کا مفروضہ غلط ٹھیرا ہے، اور حماس کو ایک قابلِ لحاظ طاقت تسلیم کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی اقتصادیات پر کاری ضرب لگی ہے، اس لیے کہ حماس کے راکٹوں کو روکنے کے لیے اسرائیل کے آئرن ڈومس سے فائر کیے جانے والے راکٹس کی قیمت کا اندازہ کروڑوں ڈالر میں لگایا گیا ہے۔ اس طرح متعدد پہلوؤں سے اہلِ فلسطین کو اسرائیل پر سیاسی ، عسکری اور نفسیاتی برتری حاصل ہوئی ہے۔
حالیہ جنگ نے یہود کے بارے میں قرآن مجید کے اس بیان کی تصدیق کردی ہے کہ وہ زندگی کے بڑے حریص اور موت سے بہت زیادہ خوف زدہ رہنے والے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے: ”اِن سے کہو: اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اس خیال میں سچے ہو۔ یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کماکر انہوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے (کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں)۔ اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے، حتیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے، حالاں کہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دُور نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے ۔“ ( البقرۃ:94 _ 96)
چنانچہ حماس کی طرف سے جیسے ہی راکٹ داغے جاتے تھے، پورے اسرائیل میں سائرن بج اٹھتے تھے اور یہودی آبادی کی غالب اکثریت بُنکروں میں جاچھپتی تھی۔ روز روز کی اس صورت حال سے اسرائیلیوں پر کتنے گہرے منفی نفسیاتی اثرات پڑے ہیں اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جب کہ اسرائیل کے بموں سے غزہ کی کوئی رہائشی عمارت زمیں بوس ہوتی تھی تو اس کے مکین ملبے پر بیٹھ کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اور فتح کا نشان بناتے تھے۔
عصر حاضر میں ”وطنیت“ کی بنیادیں اتنی گہری کردی گئی ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے فلسطینی بھائیوں کی کچھ مدد کرنی چاہی تو بھی نہیں کرسکے۔ اس موقع پر انھوں نے ان کے حق میں دعائیں کی ہیں اور زبان و قلم اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ مسلم ممالک کچھ کرسکتے تھے، لیکن وہ بھی مذمتی قراردادوں سے آگے نہیں بڑھ سکے، لیکن غزہ کے مجاہدوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے امّت کی لاج رکھ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔ ان کی جدوجہد سے ثابت ہوگیا کہ فتح و کامرانی صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں حاصل ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے قربانیاں ناگزیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کام یابی۔ اور وہ دُوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبیؐ! اہلِ ایمان کو اِس کی بشارت دے دو۔“ (الصف : 10_13)