قبلۂ اوّل لہو لہو ہے۔ امتِ مسلمہ کے حکمراں مصلحت کی چادر میں ہیں، جبکہ عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں اور سراپا احتجاج ہیں، اور پوری امت کے ساتھ، اسلامی تحریکوں کے ساتھ کراچی تاریخی طور پر جڑا ہوا ہے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی کے تحت شارع فیصل پر ہونے والا عظیم الشان اور تاریخی ’’فلسطین مارچ‘‘ اتحادِ امت کا بھرپور مظہر بنا۔ مارچ کے لاکھوں شرکاء نے… جن میں مرد و خواتین، بچے، بزرگ، نوجوانوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد شامل تھے… امریکی و یہودی سازشوں و کوششوں، قبلہ اوّل کی بے حرمتی اور فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد سے بھرپور اظہار ِ یکجہتی کیا۔ کراچی کی شارع فیصل اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ نعرۂ تکبیر اللہ اکبر، رہبر و رہنما مصطفیٰؐ مصطفیٰؐ، خاتم الانبیا مصطفیٰ ؐ مصطفیٰؐ، لبیک لبیک اللھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے فضاگونج رہی تھی۔ شارع فیصل پر دونوں طرف مارچ کے شرکاء موجود تھے۔ ایک ٹریک مردوں کے لیے اور دوسرا ٹریک خواتین کے لیے مختص تھا۔ فلسطینیوں سے یکجتی کے لیے ان کے درد کو اپنا درد سمجھتے اور محسوس کرتے ہوئے سخت گرمی میں خواتین کے ساتھ چھوٹے اور ننھے منے بچے بھی بڑی تعداد میں شریک رہے۔ نظم و ضبط ایسا کہ جس کی مثال کم ہی ایسے جلسوں میں ملتی ہے۔ مارچ کے شرکاء شہر بھر سے جلوسوں اور ریلیوں کی شکل میں بسوں، ویگنوں، سوزوکیوں، ٹرکوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں پرشارع فیصل پہنچے۔ نرسری مین بس اسٹاپ پر بالائی گزرگاہ پر اسٹیج بنایا گیا تھا، اس پر ایک بڑا بینر لگا تھا جس پر ’’لبیک یا اقصیٰ۔ القدس کا تحفظ ہمارا ایمان ہے ‘‘، ’’FREE PALESTINE‘‘تحریر تھا اور دونوں جانب فلسطین کے جھنڈے لگائے گئے تھے، جبکہ اسٹیج پر قومی پرچم، فلسطین کے جھنڈے اور جماعت اسلامی کے جھنڈے بھی لگائے گئے تھے۔ مارچ میں شریک نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر لبیک یا اقصیٰ تحریر تھا اور مسجد اقصیٰ کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس طرح سیکورٹی پر مامور نوجوانوں نے کالے رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ مارچ میں مردو خواتین کے گھڑ سوار دستے نے بھی شرکت کی، جنہوں نے فلسطینی رومال باندھے ہوئے تھے۔ یہ گھڑ سوار دستہ کلفٹن سے روانہ ہوکر شارع فیصل پہنچا۔ دستے کی آمد پر اسٹیج سے اس کا خیر مقدم کیا گیا۔
مارچ کا باقاعدہ آغاز قاری منصور کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ انہوں نے سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا، جس کے بعد سلمان طارق نے نعتِ رسول مقبول ؐ پیش کی، اور حذیفہ مجاہد اور نعمان شاہ نے ترانہ پیش کیا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی آمد پر ڈاکٹر اسامہ رضی نے پُرجوش نعروں سے ان کا استقبال کیا اور شرکاء نے نعروں کا بھرپور جواب دیا۔
اتوار کے روز شارع فیصل پرمنعقد ہونے والے عظیم الشان اور تاریخی ’’فلسطین مارچ‘‘ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے پُرجوش خطاب میں کہاکہ آج عظیم الشان اور تاریخی ’’فلسطین مارچ‘‘ کے لاکھوں شرکاء کا مطالبہ ہے کہ عالم اسلام کے وہ ممالک جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے وہ اپنا فیصلہ واپس لیں، غزہ کی بحالی کے لیے عالمی فنڈ قائم کیا جائے، عالم اسلام کے تمام ممالک مل کر ایک مشترکہ فوج قبلہ اوّل کی حفاظت کے لیے فلسطین میں داخل کریں، کیونکہ جب بھارت کی افواج سری نگر میں داخل ہوسکتی ہیں اور اسرائیلی افواج مسجد اقصیٰ میں داخل ہوسکتی ہیں تو مسلم ممالک کی افواج فلسطین میں قبلہ اول کی حفاظت کے لیے کیوں داخل نہیں ہوسکتیں! اگر آج ملک میں کوئی غیرت مند حکمران ہوتا تو اسرائیل اور بھارت کے خلاف دوٹوک اور جرأت مندانہ مؤقف اختیارکرتے ہوئے ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان کرتا۔ حکومت بھارت سے خفیہ مذاکرات کررہی ہے، اگر حکمرانوں نے کشمیر پر کوئی سودے بازی کی تو اسلام آباد میں ان کا گھیراؤ کریں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ جب تک زندہ ہیں قبلۂ اول مسجد اقصیٰ اور پاکستان کی شہ رگ کشمیرکی آزادی کی جنگ جاری رکھیں گے۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ آج کا مارچ جہاد اور جدوجہد کا مارچ ہے۔ فلسطین، کشمیر کی آزادی کا مارچ ہے۔ ہم فلسطینی قیادت کو پیغام دے رہے ہیں کہ ان کے شہداء ہمارے شہداء ہیں، اور ہم ان کے شہداء کے خون کا بدلہ لیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے حکمران بھی ہمارے ساتھ شریک ہوتے۔ ہم نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے رابطہ کیا اور کہاکہ عالم اسلام کے ملکوں کا اجلاس بلایا جائے، OICکی سطح پر اورعالمی سطح پر امت کے اتحاد کا پیغام دیں اور اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان کریں۔OIC نے جو قراردادِ مذمت پاس کی ہے اس سے فلسطین آزاد نہیں ہوسکتا۔ مذمتی قراردادیں اور بیانات سے نہیں جہاد کا راستہ اختیار کرنے سے فلسطین اور قبلۂ اول آزاد ہوں گے۔ فتح و نصرت اور سرخروئی صرف جہاد کے راستے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ اسرائیل سے لڑائی صرف عربوں کی نہیں پورے عالم اسلام کی لڑائی ہے، اور ہم اس میں شریک رہیں گے۔ امریکہ، برطانیہ سے امن کی بھیک مانگنا بے غیرتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج عظیم الشان لبیک یااقصیٰ مارچ میں کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن، ان کی پوری ٹیم اور کراچی کے نوجوانوں، بزرگوں، بہنوں، بیٹیوں اور پورے اہلِ کراچی کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کی بڑی فضیلت بیان کی ہے، یہ ہمارے ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے۔ پوری امت مسجد اقصیٰ قبلہ اول کی بے حرمتی کسی صورت قبول نہیں کرسکتی۔ آج کے مارچ سے عالمی سطح پر ایک مثبت پیغام گیا ہے، آج دنیا بھر میں پوری امت القدس کی آزادی تک یہودیوں سے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتی ہے۔ ہم نے اسرائیل کی بمباری کے دوران فلسطین کے خالد مشعل اور اسماعیل ہنیہ سے رابطہ کیا تو ان کے جذبوں اور حوصلوں کو بلند پایا۔ نوجوان، بچے، بزرگ، خواتین جہاد میں مصروف ہیں۔ وہاں مائیں اپنے بیٹوں کو جہاد کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اسرائیل ان کوکبھی بھی شکست نہیں دے سکتا۔ اسرائیلی فوج نے نماز کے دوران مسجد اقصیٰ پر حملہ کیا، لوگوں پر تشدد کیا، سیکڑوں کو شہید کیا، لیکن ان کے حوصلوں اور جذبوں کو سرد نہیں کرسکی۔ فلسطینی مسلمان بے سر و سامانی کے عالم میں قبلہ اوّل کے تحفظ کی جنگ لڑرہے ہیں، ان کے اندر جذبۂ جہاد موجود ہے، اور اس جذبے کو کوئی ایٹم بم بھی شکست نہیں دے سکتا۔ اسرائیل پورے خطے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے حکمرانوں نے کشمیر بھارت کے حوالے کردیا، اب اس حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے! حکومت نے انڈیا کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کیے ہوئے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈالنا چاہتی ہے۔ لیکن بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو قبول نہیں کیا جائے گا، ایسے مذاکرات جن میں کشمیری شریک نہ ہوں کسی صورت تسلیم نہیں کیے جائیں گے، ہم کسی صورت میں مقبوضہ کشمیر سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے حکمرانوں کو اہلِ فلسطین کی جدوجہد سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بیت المقدس ایک روز ضرور اسرائیل سے آزاد ہوگا اور اسرائیل قبرستان بنے گا۔
فلسطین مارچ کے شرکاء سے حماس کے سربراہ وسابق وزیراعظم فلسطین اسماعیل ہنیہ نے بھی ویڈیولنک کے ذریعے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہاکہ آج میں اس عظیم الشان ’’فلسطین مارچ‘‘ کے انعقاد پر اسلامیانِ پاکستان، اہل کراچی اور جماعت اسلامی کے قائدین اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اہلِ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کرنے، مسجد اقصیٰ پر گولہ باری، اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت اور مظلوم ونہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے خلاف آواز اٹھانے پر اظہار تشکر پیش کرتا ہوں۔ اسماعیل ہنیہ کا مزید کہنا تھا کہ اپنے مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح کی نصرت و تائید کرنے والے مسلمان بھائیو! میں آپ سب کو فلسطین کی مبارک سرزمین سے اس کے سرحدی جوانوں اور ان کی جرات مندانہ مدافعت کی طرف سے سلامِ فخر پیش کرتا ہوں، جن کے ہراول دستے میں شہید عزالدین قسام ہے، اور ان تمام جم غفیر کو سلام جو سرزمینِ پاکستان سے قوت، حق و آزادی کی صدا بلند کیے ہوئے ہیں اور بیت المقدس کی نصرت اور مسجد اقصیٰ اور غزہ، اور وہاں پر ہونے والے بابرکت جہاد کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ میں آپ کے ساتھ یہ فتح و نصرت بانٹتا ہوں اور آپ ہمارے ساتھ اس فتح و کامرانی میں شریک و شامل ہیں، اور میدانِ جنگ میں ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں میں بھی جو کہ فلسطین کے اندر و باہر پیش آئیں، آپ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ پاکستان حکومتی سطح پر مسئلہ فلسطین پر اپنے مؤقف کو آگے بڑھاتا رہے گا۔ پاکستان حق کے ساتھ ہے، فلسطین کے ساتھ ہے۔
مارچ سے امیرجماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کا حکم ہے کہ مسلمانوں کو جہاد اور قتال کے لیے تیارکیا جائے۔ آج فلسطین میں جو ظلم ہورہا ہے وہ تاریخ کا بدترین ظلم ہے۔ عالمی طاقتیں اور سامراجی قوتیں امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل کی حمایت کررہی ہیں، لیکن حماس کے مجاہدین اور فلسطینی عوام جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار ہوکر اسرائیل کا مقابلہ کررہے ہیں، وہ اسرائیل کی غلامی اور قبضے کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، آج اہلِ کراچی نے بھی ثابت کردیا ہے کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، اور اگر ضرورت پڑی تو جہاد کے لیے فلسطین جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ عالم اسلام کے وہ حکمران جو اسرائیل سے دوستی کررہے ہیں وہ امت کے مفادات کے خلاف اقدامات کررہے ہیں۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے جو میزبان بھی تھے، اپنے خطاب میںکہا کہ اسرائیل نے فلسطین پر درندگی اور سفاکی کا مظاہرہ کیا، میڈیا ہاؤسز پر حملے کیے، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو شہید کیا تو امت کے عوام نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا، اس کے بعد حکمرانوں نے اپنی زبان کھولی۔ قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے جہاد کرنا پوری امت پر فرض ہے۔ آج عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف واضح اور جرأت مندانہ مؤقف اختیار کریں اور اسرائیل کو روکیں۔ امریکہ نے دنیا بھرمیں دہشت گردی کی، ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکے اور آج اسرائیل کی حمایت کررہا ہے۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی جانب سے راست اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ بیت المقدس پوری امت کے ایمان اور عقیدے کامعاملہ ہے، اس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیائے کرام ؑ کی امامت کروائی۔ آج فلسطینی نوجوان اور بچے پتھروں سے قبلہ اوّل کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو بے گھر کرنے اور سیکڑوں کو شہید کرنے کے بعد جنگ بندی تو ہوگئی لیکن اسرائیل کے مظالم بند نہیں ہوئے۔ جنگ بندی اصل میں حماس کی فتح ہے اور آخری فتح بھی اہلِ فلسطین کی ہی ہوگی۔ ہم نے فلسطینی قیادت سے رابطہ کیا، ہم نے کہاکہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھی کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ہیں۔ آج فلسطین مارچ کے لاکھوں شرکاء اعلان کرتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے دیں گے اور کشمیر کا سودا نہیں کرنے دیں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حماس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے حکمران عالمی سطح پر اقدامات کریں۔
مارچ سے نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، اقلیتی برادری کے رہنما یونس سوہن ایڈووکیٹ، شیعہ علماء کونسل کے علامہ غلام محمد کراروی، مجلس وحدت المسلمین کے علامہ صادق جعفری،کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی ایڈووکیٹ ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
کراچی کا فلسطین مارچ اپنی نوعیت کا منفرد مارچ تھا جس میں جماعت اسلامی منارٹی ونگ کراچی کے صدر یونس سوہن کی قیادت میں مسیحی برادری نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وہاں اس دوران فلسطین فنڈ بھی جمع کیا گیا۔ مارچ میں سراج الحق،اسد اللہ بھٹو،ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی،محمد حسین محنتی،محمد اصغر،ڈاکٹر اسامہ رضی سمیت اسٹیج پر موجود تمام قائدین نے بھی فلسطینی رومال باندھے ہوئے تھے۔ بعض لوگ فلسطین کا طویل پرچم لے کر شریک ہوئے، جب کہ خواتین کے حصے میں بھی ایک طویل فلسطینی پرچم لگایا گیا تھا۔ مارچ کے اختتام پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی لبیک یااقصیٰ اور لبیک یاغزہ کے پُرجوش نعرے لگائے اور فلسطین فنڈ میں دل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کی۔سراج الحق نے مغرب کے تمام باضمیر عوام اور قوتوں کی جانب سے حماس اور فلسطینیوں کا ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا۔
ویسے تو پوری دنیا میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے احتجا ج ہورہا ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل رہے، لیکن کراچی مارچ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایک بہت بڑا مارچ تھا جس کی مثال شہر کی حالیہ تاریخ میں نہیںملتی۔