یہ بازی کس نے ہاری ہے؟
غزہ پر وحشیانہ بمباری کاسلسلہ ”تھم“ گیا ہے۔ ہم نے جان کر ختم ہونے کے بجائے ”تھمنا“ لکھا ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب سے 11 دن تک جاری رہنے والی سفاکی کی مہم نئی نہیں تھی۔ کئی دہائیاں گزرگئیں کہ اہلِ غزہ نے امن اور خوشی و خوشحالی کا سورج نہیں دیکھا۔ اس بدنصیب خطہِ ارض کا مطلع ظلم و جبر کے بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے، اور دوردور تک آتش و آہن کی بارش یہاں کے موسم کی پہچان ہے۔ دنیا کے باقی حصوں میں تو بارش صرف آسمان سے ہوتی ہے، لیکن اہلِ غزہ کو آسمان کے ساتھ زمین اور سمندر سے آنے والے آتشیں گولوں کا بھی سامنا ہے۔
قتلِ عام کی حالیہ مہم میں کتنے فلسطینی تہہِ تیغ ہوئے اس کے حقیقی اعداد و شمار تو شاید کبھی نہ مل سکیں، کہ بہت سے خاندان بلند و بالا عمارتوں کے ملبے میں زندہ دفن ہوگئے، جن کی لاشیں تو دور کی بات، ان مظلوموں کا نام و نشان بھی صرف ان کے رب کے علم میں ہے۔ امریکی ایوانِ بالا (سینیٹ) سے اپنے خطاب میں سینیٹر برنی سینڈرز نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے جو تفصیلات بیان کیں ان کے مطابق:
٭ غزہ کے 260 افراد اپنی جان سے گئے جن میں 64 معصوم بچے اور 38 خواتین تھیں۔
٭ساڑھے تین ہزار افراد زخمی ہوئے۔
٭17 شفاخانے مسمار کردیے گئے۔
٭سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ (Desalination) اور آب نوشی کے ذخائر کو تاک تاک کر نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے۔
٭مکانوں کی بربادی سے 72 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔
٭غزہ میں کورونا کی مرکزی لیبارٹری اور جدرین کاری (Vaccination)کے مراکز کو پیوندِ خاک کردیا گیا۔
•٭اسرائیلی بمباروں نے اسکولوں اور مدارس کو چن چن کر نشانہ بنایا، اور چھ لاکھ سے زیادہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔
جناب برنی سینڈرز نے جامعہ کیلی فورنیا، سان فرانسسکو کے ایک مشہور ماہر نفسیات کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بمباری اور گولہ باری کے نتیجے میں پھیلنے والے جس ہیجان کا غزہ کے نونہالوں کو سامنا ہے، دنیا کے دوسرے علاقوں کے بچے ایسی اذیت سے کبھی اور کہیں نہیں گزرے۔
تکلیف دہ اعداد وشمار بیان کرتے ہوئے سینیٹر سینڈرز نے کہا کہ:
٭غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ غزہ میں 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 20لاکھ نفوس آباد ہیں یعنی 5000 افراد فی مربع کلومیٹر۔
٭غزہ کی 48 فیصد آبادی 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جنھیں اسکولوں، دارالمطالعوں، کھیل کے میدانوں اور سماجی سرگرمیوں کے لیے سماعت گاہوں اور تفریحی مراکز کی ضرورت ہے۔
٭اسرائیل اور مصر نے گزشتہ14 سال سے غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے جس کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غزہ کے 48 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ واضح رہے کہ مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے جون 2012ء میں اقتدار سنبھالتے ہی غزہ کی ناکہ بندی ختم کرکے مصر کے صحرائے سینائی میں کھلنے والے رفح گیٹ کا تالا اپنے ہاتھوں سے توڑا تھا، لیکن ایک سال بعد جب جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بابِ رفح بند کرکے ناکہ بندی مزید سخت کردی گئی۔
٭غزہ کی56 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے، جس کا گزارہ اقوام متحدہ کے راشن پر ہے۔
امریکی سینیٹر نے اپنے خطاب میں کہا کہ غربت و معاشی بے بسی کی یہ صورت حال امن کے لیے خطرہ ہے، اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے رفقا کے ساتھ مل کر مئی 2018ء میں صدر ٹرمپ کو ایک خط لکھا جس میں اسرائیلی وزارتِ دفاع کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ برنی سینڈرز کے مطابق اس خفیہ رپورٹ میں وزارتِ دفاع کے حکام نے غزہ کی بگڑتی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اہلِ غزہ، خاص طور سے نوجوانوں کی مایوسی کا ازالہ نہ کیا گیا تو ایک دھماکہ خیز صورت حال پیدا ہوسکتی ہے جس سے سارے علاقے کا امن متاثر ہوگا۔ سینیٹر سینڈرز نے کہا کہ ہم نے اپنے خط میں اُس وقت کے امریکی صدر سے صورت حال کا نوٹس لینے کو کہا تھا، لیکن صدر ٹرمپ نے ہماری گزارشات کو یکسر نظرانداز کرکے اپنے انتہا پسند اسرائیلی دوستوں کی پشتی بانی جاری رکھی، جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔
اپنے خطاب میں سینیٹر سینڈرز نے اسرائیل کے اس مؤقف کو مسترد کردیا کہ غزہ پر بمباری حماس کی راکٹ باری کا ردعمل تھا۔ انھوں نے کہا کہ مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس کے تشدد نے اشتعال کو جنم دیا۔ شہری آبادی پر راکٹ پھینکنا قابلِ مذمت قدم ہے لیکن راکٹ کے جواب میں درجنوں طیاروں کی ٹکڑیوں سے نہتی شہری آبادی پر تباہ کن بمباری کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹر سینڈرز نے حماس کو دہشت گرد اور بدعنوان قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے کرپٹ نیتن یاہو کی غیر مشروط حمایت نے حماس کو اہلِ غزہ کی امیدوں کا مرکز بنادیا جو ایک المیے سے کم نہیں۔
نوٹ: حماس کے بارے میں فاضل امریکی سینیٹر کا تجزیہ متعصب امریکی میڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات پر مشتمل ہے جس سے راقم الحروف متفق نہیں۔
مسلسل گیارہ دن بمباری سے ہونے والے نقصانات کا جو احاطہ سینیٹر سینڈرز نے کیا وہ فوری اور ابتدائی نوعیت کے ہیں۔ والدین و سرپرست شہید ہوجانے سے سیکڑوں بچے بے سہارا ہوگئے۔ علاقے کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ جامعہ اسلامیہ غزہ منہدم کردیا گیا اور درجنوں تجربہ کار اساتذہ، ماہرین اور سائنس دان اس کے ملبے میں دفن ہوگئے۔ یہ جامعہ طب اور سائنس و ٹیکنالوجی کا مرکز تھی۔ جامعہ کو مسمار کرنے سے جب ظالموں کو تشفی نہ ہوئی تو اس کے قریب درسی کتب اور اسٹیشنری کے ایک بازار کو بھی بم مار کر خاکستر کردیا گیا۔ مکانوں کی تباہی سے مالی نقصان کے علاوہ 72000 بے گھر افراد کو جس ذہنی اذیت کا سامنا ہے اس کا قیاس و تصور ناممکن ہے۔ اس سفاکی سے ہلاکت وبربادی کا ازالہ تو شاید ہوجائے کہ وقت کا مرہم غمِ دوراں و غمِ جاناں کے ہر زخم کے لیے اکسیر ہے، اور آزمائش میں ڈالنے والا رحیم وکریم رب صبر دے کر دلوں کو مطمئن کردیتا ہے، لیکن ان انسانیت سوز مظالم نے دلوں میں جو نفرتیں پیدا کردی ہیں وہ شاید قیامت تک نہ ختم ہوں۔
فلسطینیوں کی تباہی کا نوحہ اپنی جگہ، لیکن اسرائیلی ماہرین اور سیاسی حلقے جو تجزیہ کررہے ہیں اُس کے مطابق یہ ایک ناکام فوجی آپریشن تھا۔ قوتِ قاہرہ کے بدترین استعمال کے باوجود اسرائیل اپنے فوجی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ بمباری کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیراعظم کامیابی کا دعویٰ کررہے تھے۔ جنگی جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے انھوں نے غزہ قتلِ عام کو”آپریشن پاسبان دیوارِ (گریہ)“ (Operation Guardian of Walls)کانام دیا۔ میڈیا کے سامنے نام کی وضاحت کی گئی کہ اس کا مفہوم راکٹ حملوں سے ”چادر و چار دیواری“ کا تحفظ ہے۔ لیکن سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جو نغمے گونجتے رہے اُن میں مذہبی رنگ نمایاں تھا، حتیٰ کہ ایک ٹویٹ میں سورۃ الفیل کا عبرانی ترجمہ نقل کرکے تاثر دیا گیا کہ اسرائیلی بمبار دراصل وہ ابابیلیں ہیں جو بیت المقدس پر حملہ آور ابرہہ کے لشکر کو بھُس بنارہی ہیں۔
اس دوران اسرائیل بھر میں جنون کا یہ عالم تھا کہ مذہبی انتہا پسند Religious Zionist Party سے لے کر بائیں بازو کی لیبر اور قوم پرست اسرائیل مادرِ وطن پارٹی تک سب کے سب ”غزہ کو کچل دو“ کا راگ الاپ رہے تھے۔ ہر روز شام کو بمباری سے ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوتی بلند و بالا عمارتوں کی ویڈیو دکھا کر نیتن یاہو قوم سے دادِ شجاعت وصول کرتے نظر آئے۔ جنگ بندی سے ایک دن پہلے انھوں نے بہت رعونت سے کہا کہ دشمن کی مکمل تباہی تک بمباری کا سلسلہ نہیں رکے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ غزہ پر قبضے کے لیے بری فوج کی پیش قدمی بھی خارج ازمکان نہیں۔
قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ اس وقت اسرائیل میں حکومت سازی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی بنا پر صدر نے بی بی (نیتن یاہو) کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ سرتوڑ کوششوں اور سنہرے وعدوں کے باوجود موصوف مطلوبہ 61 ارکان جمع نہ کرسکے، چنانچہ یہ شمع قائدِ حزبِ اختلاف یار لیپڈ (Yair Lapid)کے آگے رکھ دی گئی اور انھوں نے ”بے ایمان بی بی سے جان چھڑائو“ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ساری حزب اختلاف کو اپنے گرد جمع کرلیا، لیکن جنگ نے پانسہ پلٹ دیا اور ”قومی مفاد“ کے نام پر سب لوگ ”یار“ کو چھوڑ کر بی بی کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ اس یوٹرن کا بنیادی محرک یہ خوف تھا کہ جنگی جنون کے سبب اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارہ بن جانے والے بی بی کی مخالفت سیاسی عاقبت کے لیے اچھی نہیں۔
لیکن جنگ بندی کے بعد صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ حزبِ اختلاف سے پہلے حکومت کے انتہاپسند اور قوم پرست اتحادیوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں کہ غزہ فتح کرنے کے دعوے دار بی بی، غیر مشروط جنگ بندی پر کیوں تیار ہوئے؟ وہ تو بڑھک مارتے پھر رہے تھے کہ اہلِ غزہ راکٹ باری روکیں، اس کے بعد اسرائیل جنگ بندی کے بارے میں ”غور“ کرے گا۔
یار لیپڈ نے بی بی پر تنقید کا پہلا پتھر پھینکا۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ”اسرائیلی شہریوں نے راکٹ باری کی بھاری قیمت ادا کی جس کے جواب میں حاصل کیا ہوا؟ بی بی نے غیر مشروط جنگ بندی قبول کرکے شکست کا اعتراف کرلیا۔ بی بی کی داستانِ ناکامی میرن سے غزہ اور Temple Mount (القدس شریف) سے لُد تک پھیلی ہوئی ہے۔ کسی نئی ہزیمت و شرمندگی سے پہلے انھیں ہماری جان چھوڑ دینی چاہیے۔“
میرن کا قصہ یہ ہے کہ 30 اپریل کو میرن کے مقام پر ایک مذہبی تقریب میں بھگدڑ سے 45 افراد کچل کر ہلاک ہوئے اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق مذہبی جوش و خروش کے ہونکے میں وزیراعظم کے حکم پر انتظامیہ نے یہاں گنجائش سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو آنے کی اجازت دے دی جو اس حادثے کا سبب بنی۔ اسی طرح تل ابیب کے مضافاتی علاقے لُد میں بی بی کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے عرب آبادی پر حملہ کیا۔ اس دوران ضعیف عربوں پر بہیمانہ تشدد کی جو بصری مشمولات(video clips))سامنے آئیں اُس پر وزیراعظم سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
یارلیپڈ کے مصرعِ طرح کی دیر تھی کہ اس قافیے اور ردیف پر مشاعرہ شروع ہوگیا۔ قدامت پسند امیدِ نو پارٹی کے گیدون سعر، مذہبی زائنسٹ پارٹی کے سربراہ Bezalel Smotrich، جماعت کے سینئر رہنما اتمار بن گِور، قوم پرست مادر وطن پارٹی کے لائبرمین، لیبر پارٹی کی سربراہ محترمہ مشیلی، بائیں بازو کی میرٹس (Meretz) پارٹی کے تامر زینڈبرگ… سبھی اس آپریشن کو غیر مؤثر و غیر ضروری قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ اسرائیل نے حماس کی شرائط پر جنگ بندی قبول کی ہے جس سے ”دہشت گردوں“ کے ہاتھ مضبوط ہوئے۔
دائیں بازو کی یمینہ پارٹی کے سربراہ نفتالی بینیٹ جو حزبِ اختلاف کو چھوڑ کر سب سے پہلے بی بی سے جاملے تھے، ایک طویل سجدئہ سہو سے سر اٹھاکر گویا ہوئے کہ اب بی بی کا جانا ٹھیر گیا ہے۔ ان کی جماعت حکومت سازی کے لیے یارلیپڈ سے مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرے گی، کہ وزیراعظم نے ہمیں سخت مایوس کیا ہے۔
غزہ سے متصل شہر سدیروت کے رئیسِ شہر (Mayor) ایلن ڈیوڈ جنگ بندی پر سخت غصے میں ہیں۔ سدیروت راکٹ حملوں کا نشانہ بنا تھا اور سارا شہر دو ہفتہ اس حد تک مفلوج رہا کہ بلدیہ کچرا بھی نہ اٹھاسکی اور بدترین تعفن کی وجہ سے شہریوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا۔ میئر نے کہا کہ غیر مشروط جنگ بندی پر آمادگی سے ایسا لگ رہا ہے کہ حماس ناقابلِ تسخیر ہے یا بی بی ان دہشت گردوں کو شکست نہیں دینا چاہتے۔
سیاست دانوں کے ساتھ سیاسی و عسکری تجزیہ نگار بھی گیارہ روزہ آپریشن کو اسرائیل کی شکست قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے قدیم ترین اور سب سے بڑے اخبار Haaretz نے ’’آپریشن گارڈین آف دی والز‘‘ کو اسرائیل کی ناکام ترین اور بے معنی مہم جوئی قرار دیا۔ اپنے اداریے میں اخبار نے لکھا کہ بی بی سمجھتے تھے کہ غزہ میں تباہی، بربادی اور موت پھیلا کر وہ اسرائیلیوں کے ہیرو بن جائیں گے، لیکن یہ ہدف بھی حاصل نہ ہوسکا۔ غزہ آپریشن اہلِ غزہ اور اسرائیل دونوں کے لیے تباہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اپنے اداریے میں فاضل مدیر نے کہا کہ نام نہاد ’’آپریشن گارڈین آف دی والز‘‘سے اسرائیلی فوج کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اداریے میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
٭گیارہ دن تک چوبیس گھنٹے بمباری کے باوجود حماس کی سرنگیں تباہ کرنے میں ناکامی سے اسرائیلی فوج کی تزویراتی (Strategic)کمزوری طشت ازبام ہوگئی۔
٭بی بی دعویٰ کررہے ہیں کہ بمباری میں حماس کے نامی گرامی کمانڈر مارے گئے، لیکن اس سے دشمن کی صلاحیت میں ذرہ برابر فرق نہ آیا۔ جنگ بندی سے چند لمحے پہلے تک راکٹ پھینکے جاتے رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بمباری سے نہ تو حماس کا عصبی مرکز (کمان اور کنٹرول سسٹم) تباہ ہوا، نہ ان کی راکٹ برسانے کی صلاحیت محدود ہوئی۔
٭اس تصادم سے اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس بار حماس نے جب ایک ساتھ بہت بڑی تعداد میں راکٹ داغے تو بہت سے ”پٹاخے“ آئرن ڈوم کو غُچّہ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ اسرائیل میں دور دور تک جتنی بڑی تعداد میں راکٹ اِس بار گرے ہیں، اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
٭حماس نے انتہائی مہارت سے مرکزی بندرگاہ اشدود کو متعدد بار نشانہ بناکر اسے 10 دن تک مفلوج رکھا۔ لائیڈ اف لندن نے اشدود کی طرف محوِ سفر جہازوں کے لیے بیمے کے جو نئے پریمیم نافذ کیے ہیں وہ آبنائے باب المندب اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والے جہازوں کی شرح سے زیادہ ہیں۔
٭دوسری طرف لُد میں تل ابیب کے مرکزی بن گوریان ایئرپورٹ پر بھی راکٹ پھینکے گئے، جس کی وجہ سے یہ ہوائی اڈہ بارہ دن معطل رہا۔
٭شہریوں کی ہلاکتوں پر ساری دنیا مضطرب ہے اور اسرائیل کو ہر جگہ تنقید کا سامنا ہے۔
٭اسرائیل کے طول و عرض میں عربوں اور یہودیوں کے تعلقات پہلے بھی قابلِ رشک نہیں تھے اور اب بقائے باہمی کی صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔
دفاعی صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہوئے تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ حالیہ لڑائی سے سبق سیکھتے ہوئے حماس نے غزہ کو ریت کی بوری میں تبدیل کردیا ہے جس پر بمباری سے حملہ آور کو جھنجھلاہٹ کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ بمباری سے بے پناہ شہری نقصان تو ہوا لیکن حماس کی عسکری صلاحیت کم یا محدود کرنے میں اسرائیلی فوج ناکام رہی۔
بی بی کے شیطانی شوقِ کشور کشائی کا تجزیہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ممتاز تجزیہ نگار ایلن پنکس (Alon Pinkas) کہتے ہیں کہ عسکری ناکامی کے ساتھ غزہ مہم جوئی سے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ترقی پسند خواتین رہنمائوں اور سینیٹر برنی سینڈرز کی ”اسرائیل مخالف“ تقریر کے بعد بھی ”سب اچھا ہے“ کی گِردان کو حماقت کی حد تک سادہ لوحی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ قیام اسرائیل کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب امریکی کانگریس میں اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی بات کی جارہی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری کا کوئی امکان نہیں لیکن بارش کے اس پہلے قطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
……………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔