انسانی تاریخ میں مزاحمت کا پیغمبرانہ ماڈل

دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر نے دو کام کیے۔ ایک یہ کہ اس نے بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیلات کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے کے باطل کی نشاندہی کی اور اسے چیلنج کیا۔ باطل کو چینلج کرنے کا عمل دراصل باطل کی مزاحمت تھی۔ یہ مزاحمت فکری سطح پر بھی تھی اور عملی سطح پر بھی۔ اس مزاحمت کا خاص پہلو یہ تھا کہ یہ مزاحمت مشروط نہیں تھی، بلکہ غیر مشروط تھی۔ چنانچہ مزاحمت کرنے والوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے پاس ریاست نہیں ہے، ہم مزاحمت نہیں کرسکتے ۔ ہمارے پاس فوج نہیں ہے، ہم مزاحمت نہیں کرسکتے۔ ہمارے پاس مال و اسباب نہیں ہیں اس لیے ہمارے لیے مزاحمت مشکل ہے۔ باطل کی مزاحمت شہادتِ حق کا فریضہ ہے، اسے ہر حال میں انجام دینا ہے۔ اقبال نے کہا ہے کہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لاالٰہ الا اللہ
انسان کے پاس قوت و شوکت ہو تو بھی، اور نہ ہو تو بھی اسے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام صرف ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ سرمایہ تھا، نہ عہدہ تھا، نہ منصب تھا، نہ قوم تھی۔ یہاں تک کہ ان کے پاس ایک جماعت تک نہ تھی۔ مگر انہیں حکم ہوا کہ نمرود کے پاس جائیں اور اُسے اُس کی گمراہی پر آگاہ کریں اور حق کی طرف بلائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ حکم ملا تو آپؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے مجھے نمرود کے مقابلے کے قابل بنایا جائے۔ نمرود بادشاہ ہے، مجھے بھی بادشاہت عطا کی جائے۔ نمرود فوج رکھتا ہے، مجھے بھی ایک فوج مہیا کی جائے۔ نمرود کے ساتھ قوم ہے، مجھے بھی فرماں بردار قوم سے نوازا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تنِ تنہا نمرود کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ اس صف آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نمرود نے آپؑ کو زندہ جلا ڈالنے کی سازش کی، اور اللہ رب العالمین ایک معجزے کے ذریعے آپؑ کو نہ بچاتا تو نمرود نے آپؑ کو فنا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ جائیے اور فرعون کو اُس کے باطل پر مطلع کیجیے اور اُسے حق کی طرف بلائیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی صرف ایک فرد تھے۔ البتہ حضرت ہارون علیہ السلام کو ان کا مددگار بنادیا گیا تھا۔ لیکن دو انسان، صرف دو انسان ہی ہوتے ہیں۔ وہ ریاست، فوج اور ایک قوم کے مقابلے کے قابل نہ تھے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی شہادتِ حق کا فرض دل و جان سے ادا کیا۔ یہاں تک کہ حق و باطل کی کشمکش میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ باطل نے حق کو فنا کردینے کا منصوبہ بنایا، اور اگر اللہ تعالیٰ ایک معجزے کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نہ بچاتا تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو غرق کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انبیا کی سنت کے مطابق ایک جانب یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے۔ دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر اور شرک کی قوتوں کو للکارا۔ حالانکہ آپؐ کے پاس بھی نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی قوم تھی، نہ مال و اسباب کا اہتمام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور مٹھی بھر اہلِ ایمان تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل کو فکری اور عملی دونوں سطحوں پر چیلنج کیا۔ پھر وہ مرحلہ آیا جسے جنگِ بدر کہا جاتا ہے۔ جنگِ بدر ایک ہولناک عسکری عدم توازن کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ تھی۔ ایک جانب صرف 313 افراد تھے، ان کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ ان میں سے اکثر کے پاس تلوار اور ڈھال نہ تھی، نیزے بھی نہ تھے۔ دوسری طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرار تھا، اس لشکر کے پاس گھوڑوں اور اونٹوں کی فراوانی تھی۔ ہر شخص کے پاس تلوار اور ڈھال تھی، نیزے تھے۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت کے عدم توازن پر کوئی شکوہ نہ کیا۔ آپؐ بس ساری رات عبادت میں مصروف رہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کی مدد اور فتح کی بشارت دی گئی۔ باطل کی مزاحمت کا یہ پیغمبرانہ ماڈل ایک مثالی نمونہ ہے۔ اس نمونے میں شہادتِ حق کے سوا کچھ اہم نہیں۔ اس نمونے میں انسان شہادتِ حق کا فرض ادا کرکے انسان بنتا ہے، اور شہادتِ حق کا فرض ادا کرکے زندگی، زندگی بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کے اس ماڈل نے ہمیشہ تاریخ کے دھارے کا رخ بدلا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس ماڈل کا پیغام یہ ہے کہ باطل کی مزاحمت میں ہی وقار ہے۔ باطل کی مزاحمت میں ہی سلامتی ہے۔ باطل کی مزاحمت ہی حسن ہے۔ باطل کی مزاحمت ہی میں جمال ہے اور باطل کی مزاحمت ہی میں کمال ہے۔
اسلامی تاریخ میں مجددوں کے مزاحمتی ماڈل پر پیغمبرانہ ماڈل کے گہرے اثر کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ ایک فرد ہی تھے۔ ان کے پاس بھی نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی۔ ان کے پاس بھی فوج تھی نہ دولت کی طاقت تھی۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے بادشاہِ وقت جہانگیر کو چیلنج کیا۔ انہوں نے جہانگیر سے کہا کہ تمہارے دربار میں وہ طریقے رائج ہیں جو خلافِ اسلام ہیں، تمہیں یہ طریقے بدلنے ہوں گے، تمہیں دربار میں سجدۂ تعظیمی کو موقوف کرنا ہوگا کیونکہ مسلمان کا سر صرف خدا کے سامنے جھکتا ہے۔ تم نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحہ پر جو پابندی عاید کی ہے اسے ختم کرنا ہوگا، کیونکہ تم نے اسلام کے ایک حلال کو حرام قرار دیا ہوا ہے۔ جہانگیر کو بالآخر حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ مولانا مودودیؒ بھی مجددِ وقت تھے۔ انہوں نے بھی پیغمبروں کی سنت کے مطابق ایک جانب یہ بتایا کہ حق کیا ہے اور اس کی تفصیل کیا ہے، دوسری جانب انہوں نے اپنے زمانے کے دو باطل نظاموں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ سوشلزم بھی باطل ہے اور جدید مغربی تہذیب اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام بھی باطل ہے۔ انہوں نے فکری اور عملی طور پر ان دونوں نظاموں کی مزاحمت کی۔ مولانا نے فرمایا کہ اسلام اتنی بڑی انقلابی قوت ہے کہ اگر باطل اس کے بنیادی تصورات کو سمجھ لے تو وہ خود ہی مسلمانوں سے لڑنے کے لیے آجائے گا۔
اسلامی تاریخ کی دو حرکتیں ہیں۔ ایک مرکز جو حرکت، اور دوسری مرکز گریز حرکت۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے ’’مرکز جو‘‘ حرکت کے زیر اثر کوئی عمل اختیار کیا انہوںنے مزاحمت کی راہ اختیار کی اور تاریخ کے دھارے کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ محمد بن قاسم صرف 17 ہزار فوجیوں کے ساتھ سندھ آئے تھے۔ ان کے سامنے راجا داہر ایک لاکھ کا لشکرِ جرار لیے کھڑا تھا، مگر محمد بن قاسم اور ان کے لشکر کی مزاحمتی روح پوری طرح بیدار تھی، چنانچہ 17 ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دے کر جنوبی ایشیا میں اسلام کی غیر معمولی پیش قدمی کا راستہ ہموار کردیا۔ بابر صرف آٹھ ہزار فوجیوں کے ساتھ ہندوستان آیا تھا، اور اُسے بھی ایک لاکھ کے لشکر سے نبردآزما ہونا پڑا، مگر بابر کا مزاحمتی جوش ایک لاکھ کی قوت پر غالب آگیا اور تاریخ بدل کر رہ گئی۔
ٹیپو سلطان برصغیر میں مسلمانوں کی مزاحمت کی ایک داستان ہے۔ ٹیپو کی اہمیت یہ ہے کہ جب تک انگریزوں نے ٹیپو کو شہید نہیں کیا اُس وقت تک انہوں نے برصغیر کو اپنا نہیں سمجھا۔ جس دن ٹیپو شہید ہوا اُس دن انگریزوں کو معلوم ہوگیا کہ اب ہندوستان ان کا ہے۔ بلاشبہ ٹیپو کامیاب نہیں ہوا، کامیاب ہوجاتا تو تاریخ بدل کر رہ جاتی۔ مگر ٹیپو کی مزاحمت نے برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمت کے شعور اور مزاحمت کے جوش دونوں کو زندہ رکھا۔ سراج الدولہ کی مزاحمت بھی تاریخ کا حصہ ہے، اور سراج الدولہ نے بھی انگریزوں سے ٹکر لے کر مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی بھی ناکام ہوگئی، مگر اس جنگِ آزادی نے بتایا کہ مسلمان مزاحمت کے لیے ریاست، حکومت اور باضابطہ فوج کے محتاج نہیں ہیں۔ ٹیپو، سراج الدولہ اور 1857ء کی جنگِ آزادی نہ ہوتی تو برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان کا مطالبہ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ مزاحمت چونکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ڈی این اے میں تھی اس لیے مسلمان پاکستان کے لیے انگریز سلطنت اور ہندو اکثریت کے سامنے صف آرا ہوگئے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اجتماعی ڈی این اے میں مزاحمت نہ ہوتی تو اکبر الٰہ آبادی کی شاعری خلق ہوتی نہ اقبال کا معجزہ ہنر سامنے آتا، اور نہ محمد علی جناح قائداعظم بن کر ابھرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ عظیم تہذیب اور عظیم تاریخ ہی بڑی شخصیات پیدا کرتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کی مزاحمتی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان انگریزوں کے خلاف جو جنگ میدانِ جنگ میں ہار گئے تھے، اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اقبال نے اس داستان کو آگے بڑھایا اور مسلمانوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بازیافت پوری طرح ممکن ہے۔ قائداعظم نے اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی قوت سے ناممکن کو ’’ممکن‘‘ بنا دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مزاحمت نہ ہوتی تو پاکستان نہ ہوتا۔ مزاحمت کرنے والے کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ زندگی کیسی ہے۔ وہ ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ زندگی کیسی ہونی چاہیے۔ مزاحمت خواب سے شروع ہوتی ہے، خواب میں آگے بڑھتی ہے اور خواب کو حقیقت بنا کر ختم ہوجاتی ہے۔ مزاحمت کے برعکس رویہ باطل اور طاقت ور کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا ہے۔ برصغیر میں اس رویّے کی ایک بہت بڑی مثال سرسید ہیں۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا تو پسپائی کی انتہا کردی۔ انہوں نے قرآن کا انکار کردیا، حدیث کا انکار کردیا، فقہ کی پوری روایت کو مسترد کردیا، مسلمانوں کے ہزار سالہ علمِ تفسیر پر خطِ تنسیخ پھیر دیا، اجماع کے اصول پر تھوک دیا۔ انہیں عربی، فارسی اور اردو زہر لگنے لگیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ سیکھنی ہے تو انگریزی سیکھو، فرانسیسی پڑھو۔ یہاں تک کہ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی عنایت قرار دے دیا۔ سرسید کی نفسیات پوری مسلم دنیا کے حکمرانوں میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔ ان میں سے کوئی امریکہ کا غلام ہے، کوئی یورپ کو آقا بنائے ہوئے ہے، کوئی روس کو خدا سمجھتا ہے، ا ور کوئی بھارت اور اسرائیل سے خوفزدہ ہے۔
دیکھا جائے تو 20 ویں صدی میں مسلمانوں کی مزاحمتی روح نے ایک جانب پاکستان کی صورت میں اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ریاست خلق کی، دوسری جانب اس مزاحمت نے افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دی، تیسری جانب اس مزاحمت نے فلسطین میں حماس کو ایک ریاست بنا کر کھڑا کیا ہوا ہے، چوتھی جانب کشمیر کے نہتے عوام بھارت کے سامنے کھڑے ہیں۔ افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین اور امریکہ کی شکست کو دیکھا جائے تو اس شکست پر غزوۂ بدر کا سایہ ہے۔ قوموں، ملّتوں اور امتوں کی تاریخ وہی کچھ آشکار کرتی ہے جو ان کے باطن میں موجود ہوتا ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کی مزاحمت بھی اسلامی تاریخ ہی کا تسلسل ہے۔ مزاحمت کے پیغمبرانہ ماڈل میں مزاحمت کوئی ’’حکمتِ عملی‘‘ نہیں، بلکہ ایک ’’اسلوبِ حیات‘‘ ہے۔ مسلمان اپنے باطن میں نفسِ امّارہ کی مزاحمت کرتا ہے، خارج میں شیطان اور باطل پرستوں کی مزاحمت کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال اس کے لیے مزاحمت کو اسلوب ِحیات بنا دیتی ہے۔
مزاحمت کے پیغمبرانہ ماڈل کا دنیا میں نہ کوئی ثانی تھا، نہ ہے، نہ ہو گا۔ لیکن مزاحمت اتنی اہم چیز ہے کہ مزاحمت کے غیر مذہبی ماڈل نے بھی دنیا میں انقلابات برپا کیے ہیں۔ روس کا انقلاب مارکس اور لینن کی مزاحمت کا حاصل تھا۔ چین کا انقلاب مائو کی مزاحمت کا نتیجہ تھا۔ مزاحمت نہ ہوتی تو روس اور چین میں ایک نئی دنیا کا ظہور نہ ہوتا۔ روس کبھی روس نہ بنتا، اور چین دنیا میں کوئی قابلِ ذکر طاقت نہ ہوتا۔ مزاحمت کے غیر مذہبی ماڈل میں کرشمہ ہے اور مذہبی ماڈل میں معجزہ۔