اہلِ فلسطین کا عزم

غیب کا علم تو صرف خالقِ کائنات کو ہے، لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گزشتہ 100 برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ اِن شا اللہ آئندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ 1948ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈامائر نے سرزمینِ حجاز کی جانب رخ کرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہمیں اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم امت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کیا ہے کہ ’’مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقیناً بکھرے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلہ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(حالات جسے بھی تباہ کن ہوں) میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انہیں تکالیف پہنچتی رہیں گی، حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا، اور وہ اسی حال میں ہوں گے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا ’’یارسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔
(جماعت اسلامی کے شعبہ امورِ خارجہ کے سابق سربراہ عبدالغفار عزیز کی 2017ء میں عالمی ترجمان القرآن میں شائع شدہ ایک تحریر)