امریکی محکمہ دفاع ’’پینٹاگون‘‘ کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکی موجودگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کے لیے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ دعویٰ اس خطے انڈوپیسیفک سے متعلقہ امور کے امریکی نائب وزیر دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے امریکی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ کے دوران کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے پاکستان کا کردار بہت اہم ہے، اس لیے امریکہ پاکستان سے مذاکرات جاری رکھے گا جس نے ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ہمیں اپنی فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔
اس نہایت اہم اور حساس معاملے کی بازگشت پاکستانی مجلس شوریٰ کے ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں بھی سنائی دی۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے اس ضمن میں حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے اس معاملے پر ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اگر زمینی اور فضائی حدود تک امریکہ کو افغانستان کے لیے رسائی دی ہے تو اس کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ پاکستان کی خودمختاری اور مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں؟ ایوانِ بالا میں اس معاملے پر بحث کے دوران سینیٹر مشاہد حسین سید نے امریکہ کو زمینی اور فضائی اڈے فراہم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ یہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے تنظیمی اجلاس کے دوران اس معاملے میں پاکستان کے عوام کے حقیقی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستانی قوم امریکہ کو اپنی فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ پاکستان پرائی جنگ اپنے کندھوں پر لادنے کی بھاری قیمت پہلے ہی ادا کرچکا ہے، حکومت نے پرویزمشرف کی پالیسی اپناکر اپنے تبدیلی کے نعرے کو خود دفن کر یا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں حکومت سے فوری وضاحت کا مطالبہ بھی کیا۔
دوسری جانب پاکستان نے امریکی محکمہ دفاع کے حکام کے دعوے کو مسترد کردیا ہے اور دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کا کوئی فوجی یا فضائی اڈہ موجود نہیںُ اور اس سے متعلق تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین فضائی اور زمینی کمیونی کیشن کا معاہدہ 2001ء سے ہے، کوئی نیا سمجھوتا نہیں کیا گیا۔
اللہ کرے، ہمارے دفتر خارجہ کی وضاحت سچ اور حقیقت پر مبنی ہو، کیونکہ وطنِ عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے ابتدائی ایام ہی سے ہماری زمینی اور فضائی حدود امریکہ کے استعمال میں رہی ہیں، لیکن یہ بات ہمیشہ عوام سے چھپائی جاتی رہی ہے، تاہم وقت گزر جانے اور حالات بدل جانے کے بعد اس کا اعتراف کرلیا جاتا ہے کہ امریکہ ہماری رضامندی سے ایسا کرتا رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ نے اپنا مفاد نکل جانے کے بعد پاکستان سے آنکھیں پھیرنے میں کبھی دیر نہیں کی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بارہا امریکہ کی عائد کردہ معاشی و دفاعی پابندیوں تک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب جب کہ امریکہ افغانستان میں بیس برس طویل جنگ میں شکست کھانے اور ہزیمت اٹھانے کے بعد وہاں سے اپنی فوجیں واپس لے جارہا ہے تو اُسے پاکستان کی مدد کی شدید ضرورت ہے جس کے بغیر اُس کا بحفاظت انخلا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ اب پاکستان کی کلیدی حیثیت کو بھی تسلیم کررہا ہے اور پاکستان کے کردار کا بھی معترف ہے۔ تاہم اس نازک مرحلے پر پاکستان کو انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی فضا اور زمین آزاد اور خودمختار مسلمان ہمسایہ ملک افغانستان کے خلاف استعمال کیے جانے کے نتیجے میں امریکہ تو اپنی مسلح افواج بحفاظت نکال لے جائے گا مگر ہم دوبارہ آگ و خون کے کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ماضی میں پاکستانی سرزمین پر امریکی سرگرمیوں کے شدید نقاد رہے ہیں، اس لیے اُن سے یہی توقع ہے کہ وہ اپنی حکومت میں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مگر خدشہ یہ بھی تو ہے کہ کیا خبر وہ کب ’’یوٹرن‘‘ لے لیں…!!!