دعوتِ دین اور حکمت و موعظہ حسنہ

حکمت یہ ہے کہ آپ جب کام کرنے اٹھیں تو اپنی تحریک کے نقطہ نظر سے جائزہ لے کر دیکھیں کہ آپ کن حالات میں کام کررہے ہیں۔ تحریک کے نقطہ نظر سے جائزہ لینے کا مطلب اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ آپ جو کام کرنے اٹھے ہیں اس کام کے لحاظ سے اس وقت کون سی چیز اس مقصد کے لیے معاون ہے اور کون سی چیز مانع ہے؟ آپ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کریں پھر جو چیزیں مانع ہیں ان کا اس پہلو سے جائزہ لیں کہ ان کی وسعت کیا ہے، یہ کس پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں، ان کے پیچھے کون سی قوتیں کام کررہی ہیں، ان کا اپنا پس منظر کیا ہے، کہاں سے یہ آرہی ہیں اور ان کا مقابلہ کس طریقے سے کیا جاسکتا ہے؟
ایک آدمی جو حکیم ہو وہ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرے گا کہ میں کس زمانے میں اور کن حالات میں کام کررہا ہوں۔ حکمت و دانش مندی کے ساتھ کام کرنے والا دین کی دعوت لے کر اٹھے گا تو اس چیز کو کبھی نظرانداز نہیں کرے گا کہ کتنا کچھ مسالہ اس کے گرد و پیش میں موجود ہے، جو اس کام کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ یہ دیکھے گا کہ جس سوسائٹی میں وہ کام کرنے چلا ہے وہ اسلام کو ماننے والی ہے یا اس کی مخالف ہے؟ چنانچہ ایک آدمی اسلام کی سخت مخالف اور دشمن سوسائٹی میں ہوگا تو وہ کوئی اور طریقہ کار اختیار کرے گا، جبکہ دوسرا آدمی جو اسلام کی منکر سوسائٹی میں ہو مگر وہ سوسائٹی دشمنی میں سرگرم نہ ہو تو وہ وہاں کوئی اور طریقہ کار اختیار کرے گا۔ اسی طرح جب ایک آدمی ایسی سوسائٹی میں ہو جس میں اسلام کو ماننے والوں کی کثیر تعداد پہلے سے موجود ہو تو لازماً وہ وہاں دین کا کام کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرے گا، اور ان میں سے ہر طریق کار میں دین ہی کا مفاد اور حکمت موجود ہوگی۔ سخت نادان ہوگا وہ آدمی جو ایک ہی نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور ہر سوسائٹی میں اسی کو تقسیم کرنا شروع کردے۔ حکیم پہلے سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ میں جس سوسائٹی میں کام کررہا ہوں، اس کے اندر کتنا مواد موجود ہے جو اس کی مطلوبہ تعمیر میں کام کرسکتا ہے۔ اب اس کی کوشش یہ ہوگی کہ جتنا موجود ہے وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ گویا اس کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ وہ اس سرمائے کی حفاظت کرے۔
حکمت و بصیرت کیوں ضروری ہے: ایسے آدمی کو عاقل و دانا قرار دینا بہت مشکل ہے جو مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی بداخلاقیوں کو دیکھ کر، یا ان میں تساہل کو محسوس کرکے پہلے تو یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ سوسائٹی اسلام سے منحرف ہوچکی ہے، اور پھر اس احساس کے نتیجے میں وہ اس طرح کام کا آغاز کرے جیسے وہ کفار کے درمیان کام کررہا ہے، حالانکہ جو چیز ہمارے پاس واقعی موجود ہے اور اسلام کے لیے سازگار ہے ہمارا کام یہ ہے کہ اُس کو ضائع نہ ہونے دیں اور کوشش کریں کہ یہ اور زیادہ مددگار بنے۔ دور پھینکنے کے بجائے اس کو قریب لانے کی کوشش کریں، جو چیزیں اس کو بگاڑنے والی ہیں اُن کی مزاحمت کریں تاکہ یہ مزید نہ بگڑے۔ ہم ہمیشہ اس بات کو اپنے سامنے رکھیں کہ جیسا کچھ بھی اور جتنا کچھ بھی لوگوں میں جذبہ موجود ہے، وہ اسلام کے حق میں کام آئے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک حکیم اپنے کام کا آغاز کیسے کرتا ہے اور اس کام کے لیے بصیرت و حکمت کی ضرورت کیوں ہے۔
اسی طرح دین کا کام کرنے والے کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سی قوتیں ہیں جو یہاں اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں، ان کے پیچھے محرکات کون سے ہیں، ان کے افکار کا ماخذ کیا ہے، ان کا فلسفہ کیا ہے، وہ بنیادیں کیا ہیں جن پر یہ قوتیں کام کرنے اٹھی ہیں۔ ان ساری چیزوں کا جائزہ لے کر وہ دیکھے گا کہ کیسے ان سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے اور کیوں کر ان کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص جو کسی پہلوان سے کُشتی لڑنے جارہا ہو وہ پہلے یہ دیکھے گا کہ یہ پہلوان کتنا طاقت ور ہے، اس کا وزن کیا ہے، اس کے معروف دائو پیچ کون کون سے ہیں، اس کے سابقہ مقابلوں کا کیا نقشہ ہے، اس کے مقابلے میں مجھے کتنی تیاری کرنی چاہیے اور کتنی طاقت فراہم کرنی چاہیے؟ ظاہر ہے کہ وہ ان سارے پہلوئوں کا جائزہ لے کر مقابلے کے لیے آگے بڑھے گا۔ دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگائے بغیر اکھاڑے میں اترنے والا آپ سے آپ پچھڑے گا۔
اس کے ساتھ حکمت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ لائن آف ایکشن (Line of Action) ایسی اختیار کی جائے جس میں زیادہ سے زیادہ موجود مواد استعمال ہوسکے، اور جو موجود مواد کو زیادہ سے زیادہ مددگار بنانے کے لیے موزوں ہو۔ مزاحم طاقتوں کا مقابلہ کرنے میں وہ زیادہ سے زیادہ طاقت فراہم کرے اور ایسا لائحہ عمل اختیار کرے کہ مزاحم طاقتوں کا زور زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد ٹوٹ سکے۔
میرے نزدیک مختصراً حکمت کا مفہوم یہی کچھ ہے۔
موعظہ حسنہ اور اقامت ِدین: دوسری چیز موعظت حسنہ ہے۔ یوں تو اس کے کئی پہلو ہیں لیکن دو چیزیں خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔
پہلی چیز یہ ہے کہ نصیحت اور دعوت وتبلیغ میں ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو دوسرے شخص کے اندر ضد پیدا نہ کرے، اس میں کد اور غصہ پیدا نہ کرے۔ آپ لوگوں سے ہمیشہ اس طرح اپیل کریں کہ اگر ان کی فطرت میں ذرہ برابر بھی بھلائی موجود ہو تو وہ متاثر ہوں، اور اگر ان کے اندر کوئی کجی اور ٹیڑھ ہو تو اس کو اور زیادہ کام کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس معاملے میں ایک مرتبہ امام ابوحنیفہؒ نے ایک بڑی دلچسپ مثال بیان فرمائی کہ ہم جب مناظرے کرتے تھے تو یہ سمجھتے ہوئے کرتے تھے کہ جیسے ایک آدمی کے کندھے پر ایک پرندہ بیٹھا ہوا ہے اور اسے اس حد تک احتیاط سے کام لینا ہے کہ کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جو یہ پرندہ اڑ جائے۔ ہمیں تو اس پرندے کو پکڑنا تھا۔ اس لیے ہم اتنی احتیاط کے ساتھ مناظرے کرتے تھے۔
اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جتنا کچھ ایمان ایک آدمی میں موجود ہو، مناظرے کا مقصود اس کو بڑھانا ہو، نہ کہ جتنا کچھ موجود ہو وہ بھی ختم ہوجائے۔ انہوں نے کہاکہ تم لوگ ایسی بے دردی سے مناظرے کرتے ہو کہ جتنا کچھ ایک آدمی دین سے دور ہے تمہارے مناظرے کی بدولت اس سے بھی زیادہ دور چلا جاتا ہے۔
تو موعظہ حسنہ یہ ہے کہ آپ دعوت و تبلیغ کا ایسا طریقہ اختیار کریں جو دوسروں کو زیادہ سے زیادہ اپیل کرے۔ ان کے اندر ضد پیدا نہ کرے اور ان کو حق سے اور زیادہ دور نہ پھینک دے۔ زبان اور طرزِ بیان ایسی ہونی چاہیے کہ آپ کو لوگوں سے قریب کرے اور ان کو آپ سے مانوس کردے، نہ کہ ان کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت اور غصے کے جذبات پیدا کردے۔
دوسری ضروری چیز موعظہ حسنہ کے لیے یہ ہے کہ آپ کسی شخص کو نصیحت کرنے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرنے سے پہلے یہ جانیں کہ اس کی گمراہی کی پشت پر کیا چیز ہے۔ اس کی گمراہی کے اسباب کیا ہیں۔ پھر اُس کو اس کے مطابق سمجھائیں۔ اگر وہ ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہے تو آپ اُس کی ذہنی الجھنیں رفع کرنے کی کوشش کریں، اور معقول دلائل کے ساتھ اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔ اگر کوئی شخص کسی جذباتی بگاڑ میں مبتلا ہے تو اسے سمجھانے میں ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے اُس کے جذبات میں اگر دین سے انحراف کی کوئی چیز ہو تو وہ پلٹ کر دین کی طرف مائل کرنے والی بن جائے۔
اسی سلسلے میں ایک بات اور بھی نگاہ میں رکھیے، جو آدمی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے اٹھتا ہے، اُس کو دنیا میں طرح طرح کے آدمیوں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اُس کو موافقین ہی نہیں ملتے، مخالفین بھی ملتے ہیں۔ مخالفین میں بعض لوگ نہایت بدزبان اور بدمزاج ہوتے ہیں۔ بعض لوگ آپ کو شکست دینے کے لیے ایسے Tactics استعمال کرتے ہیں کہ اگر آپ جوابی کارروائی پر اتر آئیں تو اپنے مقصد اور مدعا سے دور ہٹتے چلے جائیں گے۔ جس آدمی کو بھی دعوت و تبلیغ کا کام کرنا ہو اُس کے اندر بے انتہا صبر و تحمل ہونا چاہیے، اور یہ چیز کہیں جاکر بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ سخت سے سخت باتوں کو بھی آپ برداشت کریں اور ٹال دیں۔ جو شخص آپ کو الجھانے کی کوشش کرے اُس کو ایک مرتبہ آپ معقول طریقے سے سمجھائیں، لیکن جب آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ شخص محض الجھانا چاہتا ہے تو اُس کو سلام کرکے علیحدہ ہوجائیں۔ اپنا وقت ایسے افراد پر بالکل ضائع نہ کریں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی راستے سے گزر رہے ہیں اور دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہیں اور ہر جھاڑی آپ کے دامن سے الجھ رہی ہے۔ اب اگر آپ نے ایک ایک جھاڑی سے خود ہی الجھنا شروع کردیا تو راستہ طے نہیں کرسکیں گے۔ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دامن کو کسی کانٹے سے بچانے کی فکر کیجیے، لیکن جب دیکھیں کہ نہیں چھوڑتا تو دامن پھاڑ کر کانٹے کے حوالے کیجیے کہ تُو اس سے دل بہلا، میں آگے چلا۔ کام کرنا ہے تو یہ راستہ آپ کو اختیار کرنا پڑے گا۔
(تفہیمات، حصہ چہارم)