پروفیسر محمد اکرم طاہر ایک زندہ دل اور علم و ادب کا دھنی انسان

پروفیسر محمد اکرم طاہر (صدر الخدمت فائونڈیشن ضلع اوکاڑہ) 11 اپریل 2021ء کو کورونا کے ہاتھوں حیاتِ مستعار تمام کرکے دارِِفانی سے دارِ بقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
اکرم طاہر صاحب کو پہلی بار غالباً96۔1995ء میں اسلامی جمعیت طلبہ ضلع اوکاڑہ کی تربیت گاہ میں درسِ قرآن دیتے دیکھا۔ میں اُس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کا رفیق تھا۔ اُن دنوں جمعیت کے ذمہ داران اور مدرسین باریش ہوا کرتے تھے لیکن اکرم طاہر صاحب بے ریش تھے (بہت سال بعد سفرِ حجاز کے دوران انھوں نے داڑھی رکھ لی)۔ مجھے بہت عجیب لگا کہ ایک بے ریش درسِ قرآن دے رہا ہے! لیکن درس قرآن بہت عمدہ اور مؤثر تھا جیسے موضوع کا حق تھا۔
بعدازاں میں جمعیت کا رکن بنا اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا تو ایک سیشن میں ’’بزمِ پیغام‘‘ ضلع اوکاڑہ کی ذمہ داری لگی۔ شاہین کیمپ میں شرکت کے لیے اکرم طاہر صاحب کے بچوں کو لے جانا تھا۔ صدر بزمِ پیغام اوکاڑہ شہر برادرم عبیداللہ انور نے مجھے کہاکہ اگر آپ ساتھ چلیں تو ہم اکرم طاہر صاحب کے بچوں کو اپنے ساتھ شاہین کیمپ میں لے جانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ گیا اور اکرم طاہر صاحب کو منا لیا کہ اپنے بیٹے اویس اکرم کو شاہین کیمپ میں بھیجیں۔ اویس بھائی شاہین کیمپ میں گئے اور غالباً پورے شاہین کیمپ میں انگریزی تقریر میں اوّل آئے۔
راقم بی اے میں پہنچا تو جمعیت نے طے کیا کہ میرا داخلہ گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں کروانا ہے، مگر داخلہ نہ ہوسکا تو مجھے اسلامی جمعیت طلبہ اوکاڑہ کا ناظم بنادیا گیا، اور کالج میں اکرم طاہر صاحب کی انگریزی کی کلاس پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ پھر اکرم طاہر صاحب کی اکیڈمی میں بھی انگریزی پڑھنے کے لیے جانے لگا۔ وہ بہت اچھے اور قابل استاد تھے۔ طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنا، مطالعے کے لیے ابھارنا اور ان میں تقریر کے لیے شوق پیدا کرنا (بالخصوص انگریزی میں) ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ اس دوران اُن سے تنظیمی امور کے سلسلے میں ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وہ مجھے کلاس میں بھی ’’ناظم صاحب‘‘ ہی کہتے تھے۔
2009ء میں، مَیں نے ان کا سفرنامہ حج و عمرہ ’’پھر نظر میں پھول مہکے‘‘ مکتبہ معارف اسلامی پر دیکھا تو خرید لیا۔ پڑھا، لطف اٹھایا اور دورانِ مطالعہ کچھ پروف اور کمپوزنگ کی غلطیاں نوٹ کیں۔ فون کرکے ان کے گھر کا پتا لیا اور اپنے تاثرات پر مشتمل خط لکھ دیا جس میں صفحہ وار غلطیوں کا گوشوارہ بنادیا۔
چند دن بعد وہ منصورہ آئے، ملاقات ہوئی بہت خوش ہوئے۔ تپاک سے گلے لگایا اور شکریہ ادا کیا کہ آپ نے کتاب خرید کر توجہ سے پڑھی اور پھر غلطیوں کی نشان دہی بھی کی۔ یہ تھا اکرم طاہر صاحب سے قریبی تعارف کا نقطۂ آغاز۔ اس کے بعد اکرم طاہر صاحب جب بھی منصورہ آتے تو مجھ سے بھی ملتے، گپ شپ ہوتی، کتابوں کی باتیں بھی ہوتیں اور کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کے لیے لازمی تجویز کرتے۔
جب وہ اپنی سیرت کی کتاب’’محمد رسول اللہؐ : مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ‘‘ پر کام کررہے تھے، اکثر منصورہ آتے، ادارہ معارفِ اسلامی میں جاتے۔ حافظ ادریس صاحب اور ظفر حجازی صاحب سے ملتے۔ جب کتاب چھپ کر آنے میں چند دن رہ گئے تو مجھ سے کہا: ’’فیاض، سب سے پہلی کتاب تمہیں خریدنی ہے‘‘۔ اور واقعی میں نے خریدی بھی۔
اکرم طاہر صاحب کو کتابوں سے عشق تھا۔ جب بھی لاہور آتے، ہزاروں روپے مالیت کی کتابیں خرید کر لے جاتے۔ کئی دفعہ ان کے ساتھ اردو بازار گیا۔ سیرتِ رسولؐ سے تو ان کو عشق تھا، سیرتِ رسولؐ کی جو کتاب بھی دیکھتے، چوم کر آنکھوں سے لگاتے۔ ایک بار میں ان کے گھر اوکاڑہ گیا، میرے ساتھ میرے دوست معین احمد وٹو بھی تھے۔ کتابوں کا ذکر چھڑا تو کہنے لگے: یار فیاض! ایک کتاب ڈھونڈنے میں میری مدد کرو۔ میری وہ کتاب کوئی لے گیا اور اب واپس نہیں کررہا۔ میں نے پوچھا کہ سر کون سی؟ تو بتایا: ’’دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘، ملتان سے چھپی ہے اور ستار طاہر نے لکھی ہے۔ اگر مل جائے تو دو خرید لو، خود بھی پڑھو۔ میں نے ہامی بھرلی۔ بہت کوشش کی، ملتان میں بھی دوستوں کو کہا، لیکن کتاب نہ مل سکی۔ بعدازاں یہ کتاب ایک دوست وقاص احمد نے پی ڈی ایف فارمیٹ میں دی۔ میں نے فوراً اکرم طاہر صاحب کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دی۔ اب یہی کتاب بک کارنر جہلم والوں نے بہت اعلیٰ معیار پر چھاپی ہے۔ اکرم طاہر صاحب کو خوش خبری دینے کے لیے فون کیا تو پتا چلا کہ وہ کورونا کا شکار ہوکرگھر میں قرنطینہ میں ہیں۔ دل بیٹھ سا گیا اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ ان کو جلد از جلد شفا نصیب فرمائے۔ اسی دوران ان سے چار، پانچ بار موبائل پر بات ہوئی ، بلکہ اکرم طاہر صاحب کی کتاب سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قرنطینہ میں آکسیجن لگی ہوئی ہے اور وہ کتابیں منگوا رہے ہیں۔ سابق وائس چانسلر سرگودھا یونی ورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد اکر م چودھری کی کتاب’’قرآن ایک مسلسل معجزہ‘‘کثیر تعداد میں منگوائی۔ خود بات نہیں کرسکتے تھے تو اپنی مسز (آنٹی) کے ذریعے مجھ سے معلومات لیںکہ کتابیں آپ تک پہنچ گئیں اور مجھ تک کیسے پہنچائیں گے وغیرہ۔
اکرم طاہر صاحب ’’افکارِ معلم‘‘ کے لیے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی تحریر بھیجا کرتے تھے، وہ پروفیسر رضوان الحق (سابق مدیر ’’افکارمعلم‘‘) سے ملابھی کرتے۔ دوبار مجھے بھی اپنے ساتھ ان کے گھر لے گئے۔ فروری 2019ء کے شمارے میں مولانا مودودیؒ کی تقریر ’’مسئلہ کشمیر اور اس کا حل‘‘ چھپوانا چاہتے تھے، لیکن وہ کہیں سے مل نہیں رہی تھی۔ مجھے کہا: فیاض! تم منصورہ میں ہو، ڈھونڈو۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ اس بات کا انھیں بہت افسوس ہوا کہ منصورہ سے بھی مولانا کا پمفلٹ نہ مل سکا۔
2020ء آیا تو پھر ان کی خواہش مچل اٹھی، مجھ سے کہا پھر تلاش کرو۔ بہت کوشش کی، آخر ڈاکٹر اختر حسین عزمی صاحب سے مل گیا۔ چار سیٹ فوٹو کاپی کروائے۔ اکرم طاہر صاحب بہت خوش ہوئے۔ فروری کے ’’افکار ِمعلم‘‘ میں وہ مضمون چھپ گیا۔
اپنی سیرت کی کتاب ’’محمدرسول اللہؐ: مستشرقین کے خیالات کا تجزیہ‘‘کا انگریزی ترجمہ “Prophet Muhammad And West” کے عنوان سے خود ہی کیا۔ اس سلسلے میں کئی بار لاہور آئے۔ ادارہ معارفِ اسلامی میں ظفر حجازی صاحب سے ملاقاتیں کیں۔ جب کتاب مکمل کمپوز ہوگئی تو اس کے اشاریے کا مسئلہ درپیش ہوا کہ کس سے بنوایا جائے۔ مجھ سے مشورہ مانگا، میں نے اردو بازار کے کچھ اداروں کے نام بتائے تو کہنے لگے کہ میں وہ کتاب اوکاڑہ سے ہی چھپوانا چاہتا ہوں۔ اگر ہم اردو بازار والوں کو اشاریے کا کہیں گے تو وہ مطالبہ کریں گے کہ کتاب بھی ہم سے چھپوائو۔ اس لیے کوئی اور بندہ ڈھونڈیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے توسط سے ڈاکٹر ساجد نظامی صاحب نے اشاریہ بنادیا۔ اکرم طاہر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کتاب کی تیار ی میں آپ سب لوگ بھی حصہ دار ہوگئے۔
اکرم طاہرصاحب میں حسِِ مزاح بہت خوب تھی۔ آپ ان کی مجلس میں بیٹھ کر بور نہیں ہوسکتے تھے۔ صرف ایک ہی واقعے پر اکتفا کرتا ہوں:
اکرم طاہر صاحب منصورہ آئے۔ منصورہ جب بھی آتے رات ہوجاتی تو وہ میرے پاس رک جاتے۔ ہم غالباً عشائیے کے لیے باہر گئے۔ عشاء کی جماعت سے رہ گئے تو واپس آکر نماز پڑھنا تھی۔ ہم تین افراد تھے: اکرم طاہر صاحب، میں اور اسامہ ہاشمی۔ میں نے جماعت کروانے کے لیے اکرم طاہر صاحب کو یہ کہہ کر آگے کردیا کہ آپ کی عمر زیادہ، علم زیادہ، تجربہ زیادہ ہے، لہٰذا آپ آگے ہوں۔ کہنے لگے: میرے گناہ بھی زیادہ ہیں۔
اکرم طاہر صاحب بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ ان کے پاس جائیں اور بغیر کھانے کے واپس آجائیں۔ نومبر 2020ء میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب ’’یومِ اقبال‘‘ کے پروگرام کے لیے گورنمنٹ کالج ساہیوال گئے۔ جب پروگرام ترتیب پارہا تھا تو انھوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میرے لیے تو یہ سعادت تھی۔ میں نے جب اکرم طاہر صاحب کو اطلاع کی کہ ہم ساہیوال سے واپسی پر اوکاڑہ آئیں گے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا۔ ساہیوال میں ہی تھے کہ ان کے فون آنا شروع ہوگئے کہ کب تک آئیں گے، کھانا میرے ساتھ ہی کھائیں۔ لیکن کھانے کا انتظام ساہیوال میں ہی تھا، اس لیے میں نے کہا کہ سر! صرف چائے پئیں گے۔ جب ہم ان کے گھر پہنچے تو اکرم طاہر صاحب بہت خوش تھے، اتنے خوش کہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے میز پر مچھلی، شامی کباب، سموسے، فروٹ کیک، بسکٹ، نمکو اور جانے کیا کیا کچھ سجا رکھا تھا۔ بہت تکلفات کے ساتھ چائے پلائی اور بہت شکریہ ادا کیا کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے ان کے گھر کو رونق بخشی۔
اکرم طاہر صاحب سے آخری ملاقات ڈاکٹر لیاقت علی کوثر صاحب کے جنازے میں 10 فروری کو ہوئی۔ جنازے کے بعد انھوں نے حسبِ معمول کھانے کی دعوت دی تو میں نے کہا کہ ہم ڈاکٹر صاحب کے گائوں بھی جارہے ہیں، اگر کھانا ہوا تو آپ کو بتادوں گا۔ انھوں نے تاکید کی کہ لازمی آئیے گا۔ لیکن ہم نہ جاسکے، اس لیے کہ میں محترم امیرِ صوبہ کے ساتھ تھا اور انھوں نے کوٹ رادھا کشن میں ایک پروگرام میں پہنچنا تھا۔ جب ہم نہ پہنچے تو اکرم طاہر صاحب کا فون آیاکہ آپ آئے نہیں، میں نے وجہ بتائی تو کہنے لگے کہ یار کچھ وقت نکال کے آجاتے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ آج ہونے والی ملاقات آخری ثابت ہوگی، ورنہ میں ضرور جاتا اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتا۔
10فروری کو جس جگہ انھوں نے کھانے کی دعوت دی تھی، 12اپریل کو اسی جگہ میں اُن کا جنازہ پڑھ رہا تھا۔ جنازے کے بعد وہ منظر میری چشمِ تصور میں گھوم گیا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ اب یہ آواز ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئی ۔ یقیناً اکرم طاہر صاحب رب کی جنتوں میں مکین ہوں گے اور اس کی مہمان نوازیوں سے مستفید ہورہے ہوں گے۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں (اقبال)