کھانا کھاتے ہی پیٹ میں درد، پھر پوٹی۔
دودھ پینے کے بعد بے چین رہتی یے۔
ناف کے اردگرد پیٹ میں درد۔
کھانا کھاتے ہی ڈکاریں۔
پیٹ میں اتنا شدید درد کہ چیخیں نکل گئیں۔
آپ کلینک میں ہوں یا ایمرجنسی روم میں، روز آپ کو اس طرح کے سوالات کا سامنا اور پھر پیٹ کے درد کی وجوہات تلاش کرنی پڑتی ہیں۔
یہ درد اگر اچانک اور شدید ہو تو بعض اوقات میڈیکل سے زیادہ سرجیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
درد کی شدت، درد کی ٹائمنگ اور درد کی جگہ…اس کے ساتھ ساتھ درد کو بڑھانے اور درد کو کم کرنے میں کیا چیز مدد کرتی ہے یا اضافہ کرتی ہے یہ بہت اہم بات ہے۔
نومولود بچہ اگر ایک مخصوص انداز میں مخصوص اوقات میں ہی روتا ہے اور ابھی اس کی عمر پندرہ دن سے تین ماہ کے درمیان ہے… لڑکا ہے تو دودھ بھی پی رہا ہے اور پیشاب اور پوٹی بھی ٹھیک ہے، بظاہر کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا تو شاید اس طرح کا بچہ نیوبورن کولک (Colic) میں مبتلا ہے۔ بہت ساری ترکیبوں اور ٹوٹکوں کے باوجود، ڈاکٹروں کو بارہا دکھا لینے کے باوجود درد کا شاید کوئی علاج نہ مل پائے اور نئی ادویہ جیسے پروبائیوٹک کے استعمال کے باوجود تین ماہ کی عمر کے قریب خودبخود یکایک ایک دن بالکل ٹھیک ہوجائے۔
ابھی آپ نے اس کو نیا نیا کھانا کھلانا شروع کیا تھا، ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھایا بھی تھا کہ نرم غذا، ایک وقت میں ایک غذا اور چاول سے شروع کریں۔ کوئی بھی نئی غذا چار پانچ روز کے استعمال کے بعد تبدیل کردیں۔ مگر دادی کا اصرار تھا کہ ”کوئی انوکھا لاڈلا ہے تمہارا! ہم نے تو اپنے بچوں کو پہلے دن ہی انڈے کی زردی چٹائی تھی“۔ ”اب زردی چٹائی تو رات بھر روتا رہا اور صبح ڈاکٹر صاحبہ کی ڈانٹ بھی سننے کو ملی۔ اب کس کی سنوں آخر میں!“ ماں روہانسی سی ہوگئی۔
پیٹ میں درد بچوں کی بڑی عام سی شکایت ہے۔ کلینک میں تقریباً 10 فیصد بچے اسی وجہ سے آتے ہیں۔
درد ایک احساس کا نام ہے اور مختلف بچوں میں اس احساس کی شدت مختلف ہوسکتی ہے، اور پیٹ کے مختلف حصوں میں کسی تبدیلی یا کیمیکل ٹرانسمیٹر کے بیلنس آؤٹ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے احساس ہوسکتے ہیں۔
اس کو اس طرح سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جسم کے مختلف حصوں کو مختلف قسم کے محسوسات عطا فرمائے ہیں۔ جسم کی جلد بہت زیادہ حساس ہے، اس میں وہ Receptors موجود ہیں جو موسم کی تبدیلی کو بھی فوراً محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح پیٹ کے مختلف حصوں اور اعضا پر مختلف قسم کے مخصوص ریسیپٹر اور کیمیائی مرکبات کا کنٹرول ہے جو ان حصوں/ اعضا میں ہونے والے عمل، تبدیلی، یا کھنچاؤ کو مختلف انداز میں دماغ تک سگنل کرتے ہیں اور بچہ درد کا مختلف طریقوں سے اظہار کرتا ہے۔
پیٹ میں موجود اعضا مثلاً جگر، آنتیں، پتہ، مثانہ وغیرہ کے درد، ان اعضا میں کھنچاؤ (Stretch) جو کسی وجہ سے ہوتا ہے اور بچہ اس کو بہت اچھے طریقے سے مخصوص جگہ پر بتا نہیں پاتا۔
دوسری جانب اگر ان اعضاء سے متصل/ جڑی ہوئی پیٹ کی جھلی (Peritoneum) پر سوزش، ورم یا انفیکشن ہو، تو بہت شارپ/ تیز چبھتا ہوا درد بچہ مخصوص جگہ پر بتاتا ہے، اور ہلنے جلنے پر بھی تکلیف میں اضافہ محسوس کرتا ہے۔
تیسری جانب جسم کے دوسرے حصوں کا درد یا پیٹ سے متصل حصوں کی بیماری کا درد بعض اوقات ان حساس اعصاب کے کامن ہونے کی وجہ سے کہیں اور محسوس ہوتا ہے، جیسے نمونیا کی وجہ سے پیٹ اور سینے کے درمیان پردے پر ورم، اس کا درد پیٹ میں محسوس ہونا، یا لبلبہ (Pancreas) کی سوجن کا درد پیچھے، دونوں کاندھوں کے درمیان پیٹھ میں محسوس ہونا وغیرہ۔ اس قسم کے درد کو ریفرڈ پین (Refered Pain) کہتے ہیں، اور بعض اوقات جب ڈاکٹر اس قسم کے درد کے لیے کوئی مخصوص ٹیسٹ لکھتا ہے تو مریض کنفیوژن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ”ڈاکٹر صاحب! بچے کے پیٹ میں درد ہے اور آپ سینے کا ایکسرے کروا رہے ہیں! الٹرا ساؤنڈ کریں، پیسے بنانے کا دھندا عروج پر ہے بھائی۔“
کوئی بھی علاج مکمل معلومات، معائنے اور ضروری لیبارٹری ٹیسٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ڈاکٹر ہسٹری لے اور والدین اپنے بچے سے متعلق سارے سوالات کے جواب سوچ سمجھ کر دیں، کچھ نہ چھپائیں۔ مثلاً خاندانی ہسٹری، کھانے پینے کی ہسٹری، پوٹی کرنے کے اوقات، قبض، پوٹی اور اس میں ہونے والی تبدیلی، پوٹی کے کلر سے لے کر اس کی بدبو وغیرہ، اس میں چکناہٹ سے لے کر پانی کی مقدار وغیرہ وغیرہ۔
پیٹ کا معائنہ بہت ضروری ہے، مثلاً پیٹ پھولا ہوا تو نہیں؟ بہت سخت، ہاتھ لگاتے ہی بچے کو تکلیف کا احساس، یا پیٹ میں کوئی سخت مادہ (Mass)، پیٹ میں سیدھی جانب کوئی ابھار جیسے کہ ساسج ٹائپ کی آنت وغیرہ۔
ڈائیگنوسٹک ٹیسٹ عام طور پر ہسٹری اور کلینکل ججمنٹ کے بعد ہی کیے جاتے ہیں، اور الل ٹپ یا بغیر سوچے سمجھے نہیں ہوسکتے۔
خون کے سادہ ٹیسٹ سے لے کر الٹرا ساؤنڈ، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، بیریم کے ٹیسٹ یا پھر اینڈواسکوپی اور کلونواسکوپی وغیرہ وغیرہ۔
پیٹ کے درد کو اگر دو بڑے گروپ میں تقسیم کردیں تو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پیٹ کے وہ درد جن کی کوئی وجہ سمجھ میں آ جائے۔ جسم میں درد کی کوئی پیتھالوجی موجود ہے۔
دوسری طرف وہ درد جن کی بظاہر تمام تر معائنوں اور لیب ورک اپ کے باوجود کوئی وجہ نہیں، جن کو فنکشنل پیٹ کا درد (Functional Abdominal Pain) کہا جاتا ہے، یعنی بچہ درد تو محسوس کررہا ہے مگر تمام تر بہترین (باقی صفحہ 41پر)
کوششوں کے باوجود کوئی پیتھالوجیکل وجہ نہیں ہے۔ بچوں میں زیادہ تر درد فنکشنل درد ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
شروع میں ہم نے پیٹ کے کچھ ایسے درد کا ذکر کیا جو بہت اچانک اور شدید ہوتے ہیں۔ ان میں دو بہت ہی عام ہیں جن کا ذکر کرلیتے ہیں
ایک اپینڈکس کا درد، اور دوسرا آنت کا آنت پر چڑھ جانا (Intussusception)۔ ان دونوں میں فوری سرجیکل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک بہت کام کی بات… اگر بچے کو پیٹ کا درد صرف دن میں ہوتا ہے اور درد کی وجہ سے کبھی رات میں اس کی آنکھ نہیں کھلی، تو اس کو عام طور پر فنکشنل درد ہی تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے ہسٹری بہت توجہ چاہتی ہے۔
بچوں میں پیٹ کا درد والدین کی توجہ چاہتا ہے، کیونکہ آپ کو نہیں پتا کہ وہ درد کیوں ہے، وہ کیا علامات ہیں جن کو سیریس لینا چاہیے اگر بچہ درد کی شکایت مسلسل کررہا ہے اور ہفتوں سے کررہا ہے۔ پیٹ کے درد کے ساتھ درج ذیل علامات موجود ہیں:
1۔ بچے کا وزن مسلسل کم ہورہا ہے۔
2۔ اس کا قد بڑھ نہیں رہا۔
3 ۔مسلسل اور بار بار الٹیاں۔
4۔ پاخانے میں خون کا آنا۔
5 ۔بغیر وجہ کے مسلسل بخار۔
6۔ پیٹ کے سیدھے حصے میں اوپر اور نچلے حصے میں درد۔
7۔ فیملی میں پیٹ کے امراض۔
8۔ مسلسل ڈائریا۔
9۔ فیملی میں نفسیاتی بیماری۔
10۔ پیٹ کا درد اور خون کے مختلف ٹیسٹ میں خرابی، مثلاً خراب جگر کے ٹیسٹ، بڑھا ہوا ESR وغیرہ وغیرہ۔
تو جناب ِوالا !نومولود بچے سے لے کر بڑے بچوں یعنی پندرہ سولہ سال کے بچے، بچیوں میں اگر پیٹ کا درد ہے اور وہ اس بارے میں( نیوبورن اور اطفال کے سوا) اگر آپ کو بتا رہے ہیں تو ان کے درد کی تشخیص بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔ کہیںلاپروائی میں ہم کسی بڑی مشکل کا شکار نہ ہو جائیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین