موسمی آفتیں یہ مشکل ہوگا(دوسرا باب )

اس باب کا عنوان دیکھ کر پریشان مت ہونا۔ مجھے امید ہے کہ تم پر یہ واضح ہوچکا ہوگا کہ میں پُریقین ہوں کہ ہم ضرور ’’صفر کاربن‘‘ تک کا سفر طے کرلیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ واضح کرسکوں کہ میں ایسا کیوں محسوس کرتا ہوں۔
مگر یہ بات بالکل صاف ہوجانی چاہیے کہ ’موسمی تبدیلی‘ جیسا مسئلہ بغیر اخلاص کے حل نہ ہوگا۔ اس راہ کی ضرورتوں کو سمجھنا ہوگا۔ رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ ذہن میں اس خیال کے ساتھ کہ ہم حل تلاش کرلیں گے، ہم وہ راستے تیزی سے اختیار کریں گے جو ساری توانائی کو قدرتی ایندھن سے پاک کردیں گے۔ پہلے اُن سب سے بڑی رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں، جن کا ہمیں سامنا ہے۔
قدرتی ایندھن پانی کی طرح ہے
میں آنجہانی لکھاری ڈیوڈ فوسٹرویلس کا مداح ہوں (اِن دنوں اُن کا ضخیم ناول Infinite Jestبھی پڑھ رہا ہوں)۔ سن 2005ء میں Kenyon Collegeکی تقریب میں ویلس نے اپنی مشہور افتتاحی تقریر کی تھی اور اس کا آغاز اس کہانی سے کیا تھا: ’’دوجوان مچھلیاں ساتھ ساتھ سفر کررہی تھیں، راستے میں ایک سینئرمچھلی سے اُن کی ملاقات ہوگئی، جو مخالف سمت میں جارہی تھی۔ اُس نے انھیں دیکھ کر ہیلو ہائے کیا اور پوچھا ’پانی کیسا ہے؟‘ اُن دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور تعجب سے پوچھا ’یہ پانی کس بلا کا نام ہے؟‘ ویلس آگے وضاحت کرتا ہے کہ سب سے واضح اور اہم ترین حقیقت اکثر وہ ہوتی ہے کہ جسے دیکھنا سب سے مشکل اور جس پر بات کرنا سب سے دشوار ہوتا ہے۔‘‘
قدرتی ایندھن بھی ایسے پانی کی مانند ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں مگر اُس کا شعور نہیں رکھتے۔ اسے سمجھنے کے لیے روزمرہ کی ضرورتوں اور اشیاء پرنظر کرنے کی ضرورت ہوگی۔
کیا آج صبح تم نے دانت برش کیے تھے؟ یہ برش پلاسٹک سے بنایا جاتا ہے، جسے پیٹرولیم سے تیار کیا جاتا ہے۔ ناشتے میں جو ٹوسٹ اور دلیہ تم کھاتے ہو، اُس کی پیداوار میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ انہیں ٹریکٹر کے ذریعے بویا جاتا ہے، جوفولاد سے بنا ہوتا ہے، اورفولاد کی تیاری میں کاربن کا اخراج ہوتا ہے، ٹریکٹر خود بھی گیسولین سے چلتا ہے۔ اگر تم دوپہر کے کھانے میں برگر کھاتے ہو، جیسا کہ میری عادت ہے، اس میں شامل گوشت کی تیاری میں بھی گیس استعمال ہوتی ہے، اور جس جانور کا گوشت ہم استعمال کرتے ہیں، اُس کے فُضلے میں میتھین شامل ہوتی ہے، جسے ہم بہت سے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ جو کپڑا تم پہنتے ہو، کپاس سے تیار ہوتا ہے، اور اس کی پیداوار میں بھی کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ پولسٹر جو ایتھی لین سے تیارہوتا ہے، یہ پیٹرولیم سے ہی برآمد ہوتی ہے۔ اگر تم نے ٹشو پیپر استعمال کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہیں بہت سے درخت کاٹے گئے ہیں، اور دھواں خارج ہوا ہے۔
اگر تم کسی اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہائش پذیر ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہرجانب سے سیمنٹ میں گھرے ہوئے ہو۔ اگر لکڑی سے بنے کسی مکان میں رہتے ہو، توظاہر ہے اس کے لیے جنگل کاٹے گئے ہوں گے، یہ کام گیس سے چلنے والی مشین نے کیا ہوگا، جوفولاد اور پلاسٹک سے بنائی گئی ہے۔ اگر تمہارے گھر اور دفتر میں گرمی یا ٹھنڈک کے لیے ائیر کنڈیشننگ کی جارہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ بہت سی توانائی ان کاموں پر صرف ہورہی ہے۔ اگر تم کسی پلاسٹک یا دھات کی کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہو، اس کا مطلب مزید کاربن کا اخراج ہوا۔
یوں ٹوتھ برش سے عمارتی سامان تک سب کچھ کہیں اور سے ٹرک، ریل، یا جہاز پرمنتقل کیا گیا ہے۔ یہ سب قدرتی ایندھن پر ہی چلتے ہیں، اور کاربن خارج کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، قدرتی ایندھن ہرطرف ہے، ہم اس میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ صرف تیل کی مثال لیجیے: ساری دنیا ایک دن میں چار ارب گیلن استعمال کرتی ہے۔ جب آپ کوئی پیداوار اس عظیم مقدار میں استعمال کرتے ہیں، تو راتوں رات اسے ترک نہیں کرسکتے۔
ایک اور وجہ ہے کہ قدرتی ایندھن کا استعمال ہر جگہ نظر آتا ہے۔ یہ وجہ سستی توانائی ہے۔ جیسا کہ تیل سافٹ ڈرنک (امریکہ، یورپ میں) سے بھی سستا ہے۔ جب میں نے یہ بات پہلی بار سنی تواپنے کانوں پر یقین نہ آیا، مگر یہ سچ ہے۔ ایک بیرل 42گیلن تیل پر مشتمل ہوتا ہے، تادم تحریر فی بیرل تیل 42 ڈالر تھا، یعنی فی بیرل ایک ڈالرہوا۔ جبکہ Costcoآٹھ لیٹر سوڈا 6 ڈالر میں بیچتا ہے، یعنی 2.85فی گیلن۔ خواہ تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آبھی جائے، نتیجہ قریب قریب یہی رہے گا۔ دنیا بھر کے لوگ روزانہ چار ارب گیلن وہ پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں جو ایک ڈائیٹ کوک سے بھی سستی ہے۔
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ قدرتی ایندھن سستا ہے۔ یہ بہت بڑی مقدار میں دستیاب ہے اور آسانی سے ہرجگہ مل جاتا ہے۔ ہم نے دنیا بھر میں بڑی بڑی صنعتیں قائم کی ہیں جوتیل تلاش کرتی ہیں، اُسے صاف کرکے قابلِ استعمال بناتی ہیں، اور ہر جگہ مہیا کرتی ہیں۔ یہ نئی نئی ایجادات بھی کرتی رہتی ہیں تاکہ قدرتی ایندھن کی کم سے کم توانائی زیادہ سے زیادہ استعمال میں لائی جاسکے۔ اس طرح قدرتی ایندھن کی قیمتیں اس کے نقصانات اوجھل کردیتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کا خیال ہی سراسیمہ کردینے والا ہے۔ مگر بالکل بے بسی محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس پہلے ہی صاف ستھری توانائی اور اسے ازسرنو استعمال کرنے کے کئی ذرائع موجود ہیں۔ ہم حل کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ اہم کام یہ ہوگا کہ کسی طور صاف ستھری توانائی سستی اور قابلِ رسائی بنائی جاسکے، تاکہ یہ جدید ٹیکنالوجی سے قدم ملاکر آگے بڑھ سکے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔ (جاری ہے)