’’وبائی ایام میں بھڑکنے والی خونیں جھگڑوں کی آگ‘‘

قبائلی جھگڑے سندھ کی خوب صورتی اور رعنائی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں

صوبہ سندھ میں قبائلی تنازعات کی وجہ سے ہر روز ہی بے گناہ انسانی جانوں کا اتلاف معمولاتِ زندگی کا ایک بدنما حصہ بن گیا ہے۔ بروز پیر 7 1مئی 2021ء کو کالم نگار ساجد چانڈیو نے اسی حوالے سے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر جو خامہ فرسائی بڑے دردمندانہ انداز میں کی ہے، اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’آج جہاں کورونا کے وبائی دنوں میں زندگی میں کوئی تحرّک نہیں ہے، ساری دنیا کورونا کے وبائی مرض کا سامنا کرنے میں مصروف ہے، وہاں سندھ میں خونیں لڑائیوں میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے، جس کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں تین برادریوں چاچڑ، سبزوئی اور جاگیرانی کے مابین جاری دیرینہ تنازعے میں 3 بھائیوں سمیت 9 افراد کی ہلاکتیں ہیں۔ اس دیرینہ قبائلی جھگڑے کی وجہ ایک بھیڑ کی چوری کو گردانا جاتا ہے، جس کے باعث اس سے پہلے بھی بہت ساری قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کی جان سے کھیلنا اور قیمتی زندگیوں کا اتلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی ایک سوالیہ نشان ہے، بلکہ اس طرح سے سندھ کی شناخت کو بھی ایک طرح سے بھیانک بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ اہلِ سندھ تو قرنوں سے اپنے سرمائے کو خوب صورت رِیتوں، رسموں کے ذریعے سے ایک جداگانہ شناخت کی صورت میں اجاگر کیے ہوئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے عدم برداشت کی وجہ سے اب یہ سرمایہ ہم سے بتدریج رخصت ہوتا جارہا ہے۔ سماج میں جب توڑ پھوڑ شروع ہوتی ہے تو وہ اخلاقی اقدار کے خاتمے اور عدم برداشت اپنی انتہا پر پہنچ جانے سے ہوا کرتی ہے۔ ’’برداشت اور درگزر‘‘ جو اہلِ سندھ کا اثاثہ تھا، اب یہ اثاثہ ہمارے ہاں نایاب ہوتا چلا جارہا ہے، اور ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر بڑے بڑے جھگڑوں اور لڑائیوں کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں۔ سندھ کے قبائلی جھگڑوں کی موجودہ شناخت تو براعظم افریقہ کی خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھنے والے علاقوں سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور خوف ناک روپ دھار چکی ہے۔ یہ غلط اور خطرناک شناخت بالآخر ہمیں کس انتہا تک لے جائے گی؟ اس حقیقت کو سمجھنا کوئی اتنا زیادہ مشکل بھی نہیں ہے۔ یہ قطعی نہیں ہے کہ اس طرح کی شناخت سندھ کو اپنے فطری سماجی مزاج کی وجہ سے ملی ہے، بلکہ یہ سب کچھ اپنے صدیوں کے سرمائے اور قیمتی اقدار سے انحراف کرکے اجنبی سماجی رویوں کو اپنانے کا خمیازہ ہے، اور اس پر مستزاد انتظامیہ کی نااہلی بھی ہے جس کی بنا پر ہم موجودہ حالات سے دوچار ہیں۔
اپنے ہی لوگوں سے پلاند (بدلہ یا انتقام لینا) کا کلچر سندھ کے کسی بھی دور میں نہیں رہا ہے۔ جرگائی بھوتار، رئیس، سردار، چیف سردار جو آج اس طرح کے ہونے والے خونیں جھگڑوں کی بنیاد اور وجہ ہیں اور سندھ کے اندر مختلف برادریوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں کے بھی ذمہ دار ہیں، اور دراصل یہی جرگائی بھوتار (وڈیرے) ہیں جو اصل میں اپنے سوا کسی کے بھی خیرخواہ نہیں ہیں۔ دورانِ فیصلہ جرگائی بھوتار یہ نہیں سوچتے کہ جھگڑوں کا خاتمہ کس طرح سے ممکن ہے؟ وہ مکمل حل ڈھونڈے بغیر ہی وقتی اور عارضی طور پر خونیں تنازعات کے فیصلے صادر فرماکر فریقین کو باہم گلے ملواکر اپنے تئیں یہ تصور کرلیتے ہیں کہ دیرینہ حریف اب باہم شیروشکر ہوگئے ہیں۔ لیکن شاید یہ وقفہ عارضی ہی ہوا کرتا ہے، اور فریقین میں دبی انتقام کی آگ موقع ملتے ہی دوبارہ بھڑک اٹھتی ہے۔
سندھ کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قبائلی جھگڑے ایک طرح سے سندھ کی سانسوں کو روکنے کے مترادف ہیں۔ یہ وحشت کی انتہا نہیں تو آخر کیا ہے کہ پانی کی باری، کھیت سے فصل توڑنے، کتے کو پتھر مارنے، بچے کو تھپڑ مارنے یا ڈانٹنے، یا معمولی چوری چکاری جیسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ ایک دوسرے پر ہتھیاروں کے منہ کھول دینے میں قطعی دیر نہیں کرتے، اور اس کے نتیجے میں ایک ہی مقام پر 9، 9 افراد کو بلاوجہ ہی موت کے گھاٹ اتار دینے میں کسی کو کوئی جھجک، شرم یا حیا دامن گیر نہیں ہوپاتی!
مرشد لطیفؒ، سچل سائیں کی دھرتی پر نفرت، جارحیت اور بدامنی نے قبضہ کرلیا ہے۔ بھائی، بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ بے گناہوں کا خون ارزاں، بہت ارزاں ہوگیا ہے۔ پیروں، فقیروں اور صوفیہ کی یہ سرزمین آج قبائلی دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہی ہے اُس کی وجہ سے اقتصادی اور معاشی تباہی و بربادی کے ماسوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آسکا ہے۔ متحارب قبائل کے علاقے نوگو ایریاز میں تبدیل ہوچکے ہیں، اور فریقین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر آدم بو، آدم بو پکارتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں، اور بے نتیجہ، بے ثمر لڑائیاں لڑنے والے فریقین صرف اپنی اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں، جسے جہاں موقع ملتا ہے وہ بے گناہ افراد کو مہلک ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے سے قطعی نہیں گھبراتا۔ مطلب یہ ہے کہ مکمل طور پر وحشی بن کر ایک دوسرے پر بلادریغ ہتھیاروں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔ سندھ میں نامعلوم کتنے قبائل بلاسبب ہی ایک دوسرے کے ساتھ خونیں تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنا سرمایہ اور سرمایۂ حیات ضائع کرتے چلے جارہے ہیں۔ آج سندھ میں کوئی بھی علاقہ، گوٹھ، بستی، قصبہ ایسا نہیں ہے جسے ہم بلاتردد پُرامن اور پُرسکون قرار دے سکیں۔ سندھ کا وڈیرہ، رئیس، بھوتار کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ سندھ سے قبائلی خوں ریزی کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر فریقین اور دشمن باہم شیروشکر بن گئے تو پھر ان کی عزت کون کرے گا؟ اور ان کے دربار میں حاضری کون دیا کرے گا؟
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سندھ میں ’’جرگوں‘‘ پر عدالتی پابندی عائد ہے، لیکن اس کے باوجود سرِعام جرگوں کا انعقاد کرکے ’خون کے بدلے خون‘ انداز کے فیصلے سنا دیئے جاتے ہیں۔ غیر سنجیدہ انداز میں خون کے فیصلوں کا سنایا جانا بھی قبائلی خونیں جھگڑوں میں اضافے کی اہم وجہ ہے۔ فریقین میں انتقام کی آگ انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، اور وہ انتقام کی آگ بجھانے کے لیے فیصلے کے بعد بھی لڑنے والے فریق کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے جھگڑے میں شدت اور حدت آجاتی ہے۔
سندھ نے دو تین دہائیوں کے اندر جس قبائلی کرودھ، نفرت کو بھگتا ہے، شاید ہی اتنا نقصان بیرونی حملہ آوروں یا حقوق کی پامالی کے باعث اسے کبھی پہنچا ہو۔ متحارب قبائل کے علاقوں میں تعلیم تباہ ہوچکی ہے، ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں ہتھیار دکھائی دیتا ہے، اور متاثرہ علاقوں میں ہتھیار کی زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
سماج کے اندر کسی ایک فرد کا رویہ صرف متعلقہ فرد تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کی مشترکہ نفسیات کی چین کے لیے ایک کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بعینہٖ ایک فرد کا نقصان سارے معاشرے کا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔ سندھ میں بڑھتی ہوئی خونیں لڑائیاں محض فرد، برادری یا قبیلے کا نقصان نہیں ہے، بلکہ یہ سارے سماج کا ایک مشترکہ نقصان ہے، جس کا ادراک سماج کے تمام حلقوں کو ہونا چاہیے۔ قبائلی جھگڑے سندھ کی خوب صورتی اور رعنائی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔‘‘