”گرینڈ ایونیو ہائوسنگ سوسائٹی کیس“ نیب کی تاریخ کا سب سے بڑا پلی بارگین

ملزمان سے 2 ارب 25 کروڑ روپے وصول کیے جائیں گے

جرائم پیشہ طبقے کا یہ پرانا فارمولہ تھا کہ ’’رشوت لے کر پکڑا گیا، رشوت دے کر چھوٹ جا‘‘۔ مگر ماضی کا یہ فارمولہ نظام کی خرابی کی نشاندہی کرتا تھا اور جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے قانون کی بے بسی کا عکاس تھا، تاہم بھلا ہو ہمارے قومی احتساب بیورو کا، جس نے اس فارمولے کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی ہے، جس کے بعد قانون آپ کو یہ اجازت دیتا ہے کہ فرض کیجیے آپ ایک ارب روپے کی بدعنوانی کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، تو ایک درخواست کے ذریعے آپ قومی احتساب بیورو کے حکام کو یہ پیشکش کرسکتے ہیں کہ جناب میں نے جو ایک ارب روپے کی بدعنوانی یا خوردبرد کی ہے میں اس کا اعتراف کرتے ہوئے ان ایک ارب روپے میں سے ایک کروڑ یا پانچ کروڑ یا کم و بیش حالات کے مطابق جو مناسب ہوں، نیب کے ذریعے قومی خزانے میں واپس جمع کرانے پر تیار اور آمادہ ہوں بشرطیکہ اس کے بعد مجھے بری اور بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا جائے۔ نیب یعنی قومی احتساب بیورو کے اعلیٰ افسران اس پیشکش پر غور اور ملزم سے مذاکرات کے ذریعے خوردبرد شدہ رقم میں سے ایک حصہ ملزم سے وصول کرنے پر آمادگی کی دستاویز تیار کرکے احتساب عدالت کے روبرو سارا معاملہ پیش کردیں گے، جہاں سے منظوری کے بعد ملزم یہ رقم طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق قسطوں میں ادائیگی کا معاہدہ نیب سے کرکے رہا ہوجائے گا۔ پہلے تو ملزم کوئی سرکاری افسر ہوتا تھا تو رہائی اور بریت کے بعد اپنی ملازمت پر بھی بحال ہوجاتا تھا تاکہ ازسرِنو بدعنوانی کا دھندا شروع کرکے ’’نیب‘‘ کو بروقت قسطوں کی ادائیگی کا انتظام و انصرام کرسکے، تاہم اب شنید ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کی مداخلت اور اظہارِ برہمی کے بعد ملزم کی دوبارہ اُس کے عہدے پر باعزت بحالی کا سلسلہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے، البتہ بدعنوانی یا رشوت کے ذریعے وصول شدہ رقم کا ایک حصہ ادا کرکے پاک بازی کی سند حاصل کرنے کی قانونی سہولت نیب کی جانب سے اب بھی دستیاب ہے۔
قومی احتساب بیورو کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال اکثر اپنے ادارے کی اعلیٰ مثالی کارکردگی کا ذکر کرتے رہتے ہیں، جمعہ 7 مئی کو انہوں نے نیب ہیڈ کوارٹرز میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ میگا کرپشن مقدمات اور بڑی مچھلیوں کے خلاف وائٹ کالر کرائمز کو منطقی انجام تک پہنچانا ہماری اوّلین ترجیح ہے، موجودہ انتظامیہ کے دور یعنی 2018ء سے 2020ء تک کے تین برس میں 490 ارب کی لوٹی ہوئی رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی گئی۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ نیب ’’احتساب… سب کے لیے‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے۔ ایک جانب جناب جسٹس (ر) جاوید اقبال چیئرمین قومی احتساب بیورو کے یہ عزائم ہیں اور دوسری جانب اُن کے ادارے کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے والے اربابِ نظر کی رائے یہ ہے کہ رشوت خوری اور بدعنوانی میں نیب کی کارروائیوں کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ نیب بہت سے سیاسی رہنمائوں اور انتظامی افسران کی گرفتاریوں کے باوجود کسی ایک بھی قابلِ ذکر شخص کو پھانسی پر لٹکوانے، عمر قید دلوانے، یا چند برس پسِ دیوارِ زنداں بھجوانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔
نیب کے دعووں اور ناقدین کے تجزیوں میں اس تضاد کا عقدہ گزشتہ جمعہ ہی کچھ اس طرح کھلا کہ ہم دونوں ہی کو سچا تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے، اور راز ان دونوں کے سچا ہونے کا ’’پلی بارگین‘‘ کی صورت میں سامنے آیا، جس کا یہ کمال ہے کہ چیئرمین نیب 490 ارب کی خطیر رقم بھی بدعنوان عناصر سے وصول کرنے کے دعوے میں سچے اور کامیاب قرار پائے ہیں، جب کہ دوسری جانب چھوٹے بڑے تمام بدعنوان عناصر جیل جانے یا سزا پانے سے بھی محفوظ و مامون ہیں اور بدعنوانی بھی ختم ہونے کے بجائے خوب پھل پھول رہی ہے۔ لاٹھی چل تو رہی ہے مگر اس طرح کہ سانپ مر رہا ہے نہ لاٹھی ٹوٹ رہی ہے۔
قومی احتساب بیورو کا تازہ کارنامہ یہ ہے کہ اس نے 1999ء میں اپنے وجود میں آنے سے لے کر آج تک کی تاریخ کی سب سے بڑی ’’پلی بارگین‘‘ کرڈالی ہے اور گرینڈ ایونیو ہائوسنگ سوسائٹی کیس میں ریاض احمد چوہان اور دیگر ملزمان سے 2 ارب 25کروڑ روپے وصول کرنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ گزشتہ برس جنوری میں گرینڈ ایونیو ہائوسنگ سوسائٹی کے خلاف شکایات موصول ہونے پر قومی احتساب بیورو لاہور نے ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا، جسے ستمبر 2020ء میں باقاعدہ تحقیقات کے مرحلے میں داخل کردیا گیا، جس کے دوران تقریباً دوہزار ایک سو پچاس شکایات سامنے آئیں۔ ملزمان نے نیب کو پلی بارگین کی پیشکش کی جسے قبول کرکے نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل کی صدارت میں ریجنل بورڈ کا اجلاس 5 مئی کو منعقد ہوا۔ مرکزی ملزم ریاض احمد چوہان اور دیگر ملزمان کی پیشکش کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد بورڈ نے اس کو منظور کرنے کا فیصلہ سنایا۔ ملزمان سے 2 ارب 25 کروڑ روپے کی قسطوں میں ادائیگی کا معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ احتساب عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے 7 مئی کو اس کی توثیق کردی۔ اس طرح نیب اپنے قیام سے اب تک کی تاریخ کی سب سے بڑی وصولی کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ نیب حکام کے مطابق اس معاہدے کے نتیجے میں سوسائٹی کے 2150 متاثرین کو ریلیف مل سکے گا۔ ’’پلی بارگین‘‘ پر عمل درآمد کی پہلی قسط کے طور پر ملزمان سے 75 کروڑ 53 لاکھ روپے کی رقم بحق سرکار وصول کرلی گئی ہے، تاہم نیب حکام نے یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ملزمان کی بدعنوانی کی مجموعی مالیت کتنے ارب کی تھی جس میں سے وہ 2 ارب 25 کروڑ ادا کرکے جاں بخشی کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ ملزمان سے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ان کی لاہور میں بعض قیمتی جائدادیں حکومت کے پاس بطور رہن رہیں گی جن میں فیروز پور روڈ پر ’وسٹاکیش اینڈ کیری‘، ڈی ایچ اے لاہور فیز 8 میں تین اپارٹمنٹ، اسی فیز میں ڈی ٹاور میں واقع 68 اپارٹمنٹس اور موضع شہزادہ ماڈل ٹائون میں 52 کنال اراضی شامل ہیں۔