بیورو کریسی چاہتی ہے کہ تحقیقات ہوں مگر کسی کو ٹارگٹ نہ کیا جائے
آئے روز بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے حوالے سے بڑے بڑے انکشافات ہوتے ہیں جن میں قومی خزانے کو اربوں روپے کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ان اسکینڈلز میں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اچانک سامنے آتے ہیں، لیکن کچھ ایسے ہیں جو سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے، یا پھر دانستہ طور پر ان سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ بھی ایسے ہی منصوبوں میں شامل ہے جس کے متعلق پنجاب کی بیوروکریسی غیر معمولی حد تک متحرک رہی۔ منصوبے میں بار بار تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔ چند ماہ قبل فیصلہ ہوا تھا کہ کمشنر لاہور کو ہی صوبہ پنجاب میں تعمیر کی جانے والی تمام رنگ روڈ اتھارٹیز کا چیئرمین بنادیا جائے۔ تجویز یہ تھی کہ لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کو ہی صوبے میں بننے والی تمام رنگ روڈز کی پلاننگ سمیت دیگر اختیارات دے دیے جائیں۔ یہ تجویز ابھی فائلوں میں تھی کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل منظرعام پر آگیا۔ راولپنڈی رنگ روڈ دراصل راولپنڈی، چکوال اور اٹک اضلاع کی اراضی اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ کی رپورٹ میں سابق کمشنر محمد محمود اور ڈپٹی کمشنر انوارالحق قصور وار ٹھیرائے گئے، دونوں نے الزامات تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس منصوبے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ منصوبے میں اٹک اور پسوال کو شامل کیا گیا ہے اور چکری سے اسے مورت کی جانب موڑ دیا گیا ہے، جب کہ یہ علاقے ابتدائی منصوبے میں شامل نہیں تھے۔ اس تبدیلی سے رنگ روڈ کی لمبائی 35 کلومیٹر سے بڑھ کر 65 کلومیٹر تک پھیل گئی ہے۔ رنگ روڈ اسکینڈل میں جو کچھ بھی لین دین ہوا اسی علاقے میں ہوا ہے۔ اس منصوبے سے متعلق جب ابتدائی شکایت آئی تو تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی، اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے جو فیصلہ دیا اسی کی روشنی میں راولپنڈی اور اٹک کے ڈپٹی کمشنر تبدیل کیے گئے ہیں۔ کمشنر راولپنڈی محمد محمود کو جبری ریٹائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کیپٹن (ر) محمد محمود سمیت دیگر افسران پر بھی سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ بیوروکریسی صرف یہ چاہتی ہے کہ تحقیقات ہوں مگر کسی کو ٹارگٹ نہ کیا جائے۔ راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ میں تبدیلی سے جنہیں فائدہ پہنچا انہیں کیوں کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے؟ کمیٹی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا، تاہم پنجاب حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا، کیونکہ اس میں ماسوائے سرکاری افسروں کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے… سیاست دانوں یا اصل فائدہ اٹھانے والے افراد کا نام نہیں۔ فواد چودھری نے کہا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ انکوائری کی ابتدائی رپورٹ میں کسی وزیر یا مشیر کے ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، وزیراعظم کی احتساب سے متعلق پالیسی واضح ہے، جس پر بھی الزامات لگیں گے اس کی تحقیقات ہوں گی اور جوابدہی کا اصول لاگو ہوگا۔ متعدد دیگر حکومتی شخصیات نے یہ تسلیم کیاکہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں کچھ حکومتی سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں، لیکن ان کے نام نہیں بتائے گئے۔ اب یہ کیس نیب کو بھیجا جارہا ہے جس کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا۔ ہوسکتا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود سمیت دیگر متعدد افراد گرفتار کرلیے جائیں۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بہت ہی سنجیدہ نوعیت کی ہے۔ حکومت نیب کو کیس بھیجنے میں حق بجانب ہے، لیکن چند سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔ کیا بیوروکریٹ سیاست دان کے ساتھ مل کر ہی کوئی واردات کرسکتا ہے، تنہا نہیں؟ اس اسکینڈل میں بڑا ملزم وہ ہے جس نے بیوروکریٹس کو پناہ دی ہوئی ہے۔ کمشنر راولپنڈی کسی بڑے کی آشیرباد کے بغیر یہ سب کچھ کیسے کرسکتا ہے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منصوبے میں تبدیلی کی منظوری کس نے دی؟ یہ عمل چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کی منظوری کے بغیر کیسے ہوسکتا ہے؟ سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود کافی منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں، سابق دورِ حکومت میں بھی ایک ہائی پروفائل کیس میں محمد محمود وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں، انہیں خوب علم ہے کہ حکومت جو چھپا رہی ہے وہ افشا ہوکر رہے گا، کیونکہ پنجاب حکومت کا گریڈ 20 کا ایک افسر چیف سیکرٹری اور وزیراعلیٰ کو بتائے بغیر اتنا بڑا کام کیسے کرسکتا ہے؟ اربوں روپے کے پراجیکٹ میں گھپلے کارپٹ کے نیچے کیسے ڈالے جاسکتے ہیں؟ یہ منصوبہ حکومت کے گلے پڑ سکتا ہے۔
سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اپنے دور میں محمد محمود کے خلاف انکوائری کی تھی مگر نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ وزیراعظم عمران خان مافیائوں کے خلاف برسرپیکار ہیں تو پھر بلاامتیاز احتساب ہونا چاہیے۔ نیب اور ایف آئی اے ضرور جواب سامنے لائیں گے۔ انکوائری کمیٹی میں شامل ڈپٹی کمشنر انوارالحق کو عہدے سے ہٹادیا گیا جبکہ سابق کمشنر محمد محمود کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کمشنر کو طلب کرکے خود بھی وضاحت لی تھی۔
رنگ روڈ کے اردگرد زلفی بخاری، وفاقی وزیر غلام سرور کے بیٹے اور ڈاکٹر توقیر شاہ سمیت بااثر افراد کی اراضی ہے۔ 36 کلومیٹر پر محیط منصوبہ راولپنڈی رنگ روڈ 2017ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور میں بنایا گیا، تاہم عمل درآمد کا آغاز موجودہ دورِ حکومت میں ہوا۔ یہ منصوبہ 36 کلومیٹر سے بڑھا کر 65 کلومیٹر کردیا گیا۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کی منظوری سے شروع کیا گیا۔ رنگ روڈ کے 4 راستے منصوبے میں شامل تھے، لیکن مزید 5 راستے بنا دیے گئے۔ نئے راستے جو بااثر افراد کی ہائوسنگ اسکیموں یا اراضی کے قریب تھے، ان راستوں یا انٹرچینجز کے پیسے ہائوسنگ سوسائٹیز سے ہی لیے جانے تھے۔ رنگ روڈ کے اردگرد جہاں بااثر افراد کی ہائوسنگ اسکیمیں شامل ہیں، سابق وزیر اعلیٰ کے اسٹاف آفیسر توقیر شاہ، زلفی بخاری، سینیٹر چودھری تنویر احمد اور وزیر ہوا بازی غلام سرور کے بیٹے کا نام لیا جارہاہے۔ وزیراعظم کے سبکدوش ہونے والے معاون خصوصی زلفی بخاری اور سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف کے سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کی زمین بھی یہیں ہے۔راولپنڈی رنگ روڈ انکوائری کمیٹی میں موجودہ کمشنر گلزار شاہ کے ساتھ ڈپٹی کمشنر انوار الحق بھی شامل تھے، لیکن انہیں اس بناء پر تبدیل کردیا گیا کہ انہوں نے انکوائری رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ڈپٹی کمشنر اٹک اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر فرخ کو بھی دستخط نہ کرنے پر عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
سابق کمشنر محمد محمود کو انکوائری میں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا جبکہ وزیراعظم نے محمد محمود کو بلا کر پوچھا تھا کہ کسی کے کہنے پر تو رنگ روڈ میں تبدیلی نہیں کی؟ جس پر محمد محمود نے کہا تھا کہ تمام کام میرٹ پر کیا ہے۔منصوبے پر عمل درآمد کے ٹائم فریم کا اعلان تمام ابہام ختم کردے گا۔ راولپنڈی اور اٹک کی اعلیٰ بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ جاری انکوائری کا اہم موڑ ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر کام کا آغاز ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اپریل میں ٹینڈرز جمع کرانے کی آخری تاریخ سے چند دن پہلے رنگ روڈ منصوبہ یکدم ایک جھٹکے کا شکار ہو گیا جب کمشنر راولپنڈی اور پراجیکٹ ڈائریکٹر کیپٹن (ر) محمد محمود کو تبدیل کر دیا گیا۔ بڈنگ کے عمل کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا اور بعض ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو مبینہ طور پر راستہ دینے کے لیے منصوبے کی لمبائی میں اضافے کے الزامات پر باقاعدہ انکوائری کا آغاز کردیا گیا۔ اس انکوائری کے ایک ماہ بعد راولپنڈی ڈویژن میں اعلیٰ بیوروکریسی میں تبدیلی کی گئی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اٹک، ایڈیشنل کمشنر ریونیو راولپنڈی اور اسسٹنٹ کمشنرز فتح جنگ اور صدر راولپنڈی کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ان تبادلوں کو رنگ منصوبے میں جاری انکوائری سے منسلک کیا جارہا ہے۔ بعض حلقے اس اکھاڑ پچھاڑ کو انکوائری کا اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔ آئندہ چند ہفتے اس منصوبے میں انکوائری کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ انکوائری مکمل ہوچکی ہے اور چند دنوں میں مزید پیش رفت ہوگی۔بہرحال عوامی حلقوں کے اپنے خدشات ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہری عرصہ دراز سے اس اہم اور مفید منصوبے پر کام کے آغاز کے منتظر ہیں۔ کیونکہ پنجاب کے چھوٹے اضلاع اور شہروں مثلاً گوجرانوالہ، گجرات اور دیگر میں ٹریفک کے لیے بائی پاس موجود ہیں، مگر راولپنڈی ضلع جو اسلام آباد کا جڑواں شہر ہونے کی وجہ سے پورے صوبے میں اہم حیثیت رکھتا ہے اس سہولت سے محروم ہے۔ تمام بھاری ٹریفک بھی شہر کی اندرونی سڑکوں سے گزرتا ہے جو کہ عوام کے لیے مسلسل تکلیف اور اذیت کا باعث ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی عوامی حلقوں کو اس کا یقین ہو گیا تھا کہ اب اس اہم منصوبے پر کام آغاز ہو جائے گا، اور عوامی امنگوں کے مطابق جلد ہی اس منصوبے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا اور 20-2019ء مالی سال کے بجٹ میں 6 ارب روپے کی خطیر رقم اس منصوبے کے لیے مختص کر دی گئی، اور رواں برس یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ مزید 4 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی گئی ہے۔ پھر اراضی کے حصول کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ یہ تمام اشارے عوام کے لیے حوصلہ افزا تھے کہ اب اس منصوبے پر کام کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس سے پہلے رنگ روڈ منصوبے کے روٹ کا تعین اور بعدازاں اخبارات میں منصوبے کے لیے انٹرنیشنل ٹینڈرز کے اشتہار سے شہریوں کو یقین ہوگیا کہ ماہ جون میں وزیراعظم عمران خان اس منصوبے کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کررہے ہوں گے۔ لیکن اپریل کے آغاز میں ہی رونما ہونے والے واقعات سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مختلف قسم کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ ٹینڈرز کی عارضی معطلی کے بعد ابھی تک اس عمل کی بحالی کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے ہی روٹ اور نقشے میں تبدیلی کے واضح امکانات ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلیاں لائی جائی گی؟ اس میں کتنا عرصہ لگے گا؟ بعض حلقے تو مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ایک مرتبہ تعطل کا شکار ہوچکا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت اپنی موجودہ مدت میں اس کو مکمل کرنا تو دور کی بات، اس پر کام کا آغاز بھی نہ کرسکے گی۔ بہرحال یہ تشویش حقائق کے برخلاف معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگر منصوبے کی لمبائی میں کمی آتی ہے تو جو عرصہ انکوائری میں اور منصوبہ بندی میں لگے گا اُس کا ازالہ اس کی مدتِ تعمیر کے عرصے میں کمی سے ہوجائے گا۔ پرانے نقشے کے مطابق مدتِ تعمیر دو سال تھی، جو یقنی طور پر کم ہوکر ڈیڑھ سال ہوجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس منصوبے کا سنگِ بنیاد ستمبر یا اکتوبر میں رکھ دیں۔ ایسا ہوا تو یہ منصوبہ تحریک انصاف کے دور میں ہی مکمل ہوگا۔