افغانستان کا سیاسی منظرنامہ, پاکستان میں فورسز پر دہشت گردوں کے حملے

پاکستان کو علی الخصوص گزشتہ دو عشروں سے امن و استحکام کے ضمن میں مختلف النوع مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ افغانستان میں سیاسی منظرنامہ یونہی رہتا ہے تو پاکستان کو بھی غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا رہے گا۔ پاکستان افغانستان میں امن اور سیاسی بہتری کا بہرحال خواہاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اثراندازی کی حکمت عملی بھی اپنائی تھی، یہ خواہش شاید اب بھی ہو، مگر افغان طالبان نے دبائو اور نقصان برداشت کرنے کے باوجود پاکستان سمیت کسی بھی ملک کا ایجنڈا قبول نہ کیا۔ غرض کابل پر کوئی بھی حکمران ہو، اگر وہ پاکستان مخالف ممالک اور جاسوسی اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہوگا تو پاکستان موافق فضا کے قیام کی پالیسی ہی اپنائے گا۔ افغانستان میں امن اور سیاسی ہم آہنگی پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں ہے۔ اس بنا پر پاکستان کی جانب سے اخلاصِ نیت کی توقع کی جاتی ہے۔ البتہ کابل اور اس سے جڑی ملکی اور غیر ملکی لابیاں الگ ترجیحات رکھتی ہیں۔ دہلی کو گزشتہ بیس سال کی محنت کے ضیاع کا قلق ہے، اور کابل پر براجمان اشرف غنی اور دوسروں کو حکومت کے جانے کا غم ہے۔ اور پھر شمال کی جماعتیں اور عسکری جتھے اختیار سے محروم ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کابل میں موجود جاسوسی کے ادارے اور دوسرے طبقے امن اور متفق علیہ حکومت کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے تن، من، دھن کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر یا سرحدی علاقوں میں فورسز پر حملے یا سرحدوں کی خلاف ورزیاں اس کی کڑیاںہیں۔ پاکستان میں داخلی طور پر سیاسی ماحول میں موافقت البتہ حکومت اور اداروں کی ناکامی اور عدم دلچسپی کی غمازی کرتی ہے۔
5مئی2021ء کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں قمر الدین کے قریب منزکئی کے مقام پر افغانستان کی طرف سے فرنٹیئر کور کے اہلکاروں پر حملہ ہوا۔ یہ اہلکار سرحد پر باڑ لگانے کے کام پر مامور تھے۔ حملہ شدید اور منظم تھا۔ نتیجتاً 7 اہلکار جاں بحق اور 3 گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر 4 کے جاں بحق ہونے کی اطلاع دی گئی جو کہ درست نہیں ہے۔ جوابی کارروائی ہوئی، مگر دہشت گرد فرار ہوگئے۔ اسی روز شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں 3 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ 2 حملہ آور بھی مارے گئے۔ سابقہ فاٹا کے یہ گروہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بلوچ عسکریت پسندوں نے بھی ان دنوں فورسز پر پے درپے حملے کیے۔ 9مئی 2021ء کو مارگٹ میں ہونے والے حملے میں ایف سی کے 3 سپاہی جاں بحق ہوگئے۔ مارگٹ کا علاقہ کوئٹہ سے تقریباً 70کلومیٹر دور ہے۔ اس علاقے میں کوئلے کی کانیں ہیں۔ حملہ اس جگہ سرکی کچھ میں چیک پوسٹ پر ہوا تھا۔ عین اسی روز صوبے کے جنوبی ضلع کیچ (تربت) میں ایرانی سرحد پر ایف سی کی گشتی گاڑی پر پہاڑوں میں گھات لگائے افراد نے خودکار اسلحہ سے حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 4 اہلکار زخمی ہوگئے۔ اس سے چند دن پہلے ان علاقوں میں فرنٹیئر کور کا ایک آفیسر اور ایک سپاہی نشانہ بنے۔10مئی کے دن ضلع مستونگ میں چوتو کے علاقے میں قومی شاہراہ پر تھانہ سٹی کی گشت کرنے والی گاڑی پر گولیاں برسائی گئیں، نتیجتاً 2 سپاہی جان سے گئے۔ اس روز دن کے اوقات میں کوئٹہ میں سریاب روڈ پر فرنٹیئر کور کے اہلکاروں پر ریموٹ کنٹرول دھماکا کرایا گیا جو موٹر سائیکل پر گشت کررہے تھے۔ بم سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا۔ ایف سی کے 2 سپاہی اور ایک راہ گیر زخمی ہوا۔ ان میں کوئی بھی واقعہ اور حملہ پراسرار نہیں ہے۔ بلوچ شدت پسند ذمہ داریاں قبول کرچکے ہیں۔ ژوب حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی۔
دہشت گردی اور سبوتاژ کی سرگرمیوں سے یقیناً افغانستان بھی محفوظ نہیں ہے، جن کے مقاصد بیان کیے جاچکے ہیں۔ افغانستان کے اندر داعش نامی گروہ کے بارے میں افغانستان کی پارلیمنٹ کے اندر نمائندے کہہ چکے ہیں کہ انہیں کابل کی حکومت اور وہاں کے جاسوسی اداروں کا تعاون حاصل ہے۔ اس ذیل میں امریکی سی آئی اے بھی بری الذمہ نہیں ہے۔ 8 مئی کو کابل کے علاقے دشت برچی میں لڑکیوں کے سید الشہدا اسکول کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھماکے ہوئے جس میں پچاس سے زائد لوگ جاں بحق ہوگئے۔ خواتین اور بچے بچیوں کی زندگی کے چراغ گل ہوگئے۔ ایک بڑی تعداد زخمی ہوگئی۔ پھر کابل کے اندر ہی نمازِ جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں امام مسجد مفتی نعمان فضلی اور 12 نمازی جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد کابل حکومت کے صدر اشرف غنی، ان کے نائبین، ترجمان اور دوسرے عہدے داروں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ الزام افغان طالبان پر لگانے کی کوشش کی۔ حالاں کہ افغانستان کے محب وطن عوام جو ملک و قوم کی وحدت کی ریشہ دوانیوں سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کون افغان کُشی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ وہ ہدفی قتل کی سازشوں اور مقاصد سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اب جبکہ دوحہ میں امریکہ کے ساتھ امن اور انخلاء کا معاہدہ ہوچکا ہے، تو وہ کون لوگ ہیں جو اس معاہدے کو فسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کرواکر دنیا کو باور کرانے کی مکروہ سعی کرتے ہیں کہ عوام افغان حریت پسندوں (طالبان) کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکمرانی اور لوٹ کھسوٹ اور جتھہ بندی کا مستقبل نہیں رہا ہے۔ افغان عوام شمال میں نجی ملیشیائوں کی تربیت، اُنہیں مسلح کرنے اور جنگی تیاریوں سے بھی آگاہ ہیں۔ افغان عوام ایک دن بھی کابل کی فورسز اور غیر ملکی فوجوں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔ محض اس رمضان المبارک میں افغانستان کے 22صوبوں کے اندر کابل کی فورسز اور بیرونی افواج کی جانب سے 80 کے قریب حملے ہوئے ہیں۔ جوزجان، پروان، ننگرہار، کنڑ، تخار، ہلمند، لوگر، بلخ، ہرات، قندوز، میدان وردگ، دائیکنڈی،غور، قندھار، بدخشاں، غزنی، پکتیا، لغمان، بغلان اور دوسرے علاقوں میںخواتین اور بچوں سمیت102شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ کئی مکانات، دکانیں تباہ اور املاک کو نقصان پہنچا۔
جبکہ وہ گروہ اور افراد محفوظ ہیں جن کے ذریعے کابل اور غیر ملکی جاسوسی اداروں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک گروہ ایم ایم آر یعنی ملا محمد رسول گروپ ہے۔15مئی کو افغانستان کے صوبے ہرات میں ملا محمد رسول گروپ کے نائب مولوی عبدالمنان نیازی ایک مسلح جھڑپ میں جاں بحق ہوئے، جس کے بعد ان کے بیٹے خالد ولید کو نائب مقرر کیا گیا۔ یہ مسلح گروہ بادی النظر میں کابل حکومت کا حامی ہے۔ یہ چند افراد افغان طالبان کی تحریک سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ انہیں کابل حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے کھڑا کررکھا ہے۔ افغان طالبان نے کابل دھماکوں سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور شدت سے ان واقعات کی مذمت کرچکے ہیں۔