مقبوضہ کشمیر کا جلاد صفت سابق گورنر ملہوترا جگ موہن 93 سال کی عمر میں کورونا کے باعث شمشان گھاٹ کی نذر ہوگیا۔ جگ موہن کا نام ذہن میں آتے ہی مقبوضہ کشمیر میں قیامت خیز ماہ وسال اور خوفناک یادوں کی ایک ڈرائونی فلم ذہن میں چلتی ہے۔ دنیا میں اگر انصاف اور قانون کی حکمرانی ہوتی اور عالمی نظام کسی منصفانہ بنیاد پر استوار ہوتا تو جگ موہن کو کسی ہسپتال کے بجائے تنگ وتاریک جیل میں مرنا چاہیے تھا۔ جب ایک طرف مشرقی یورپ میں سربیا کا لیڈر ملازوچ بوسنیائی باشندوں کے قتلِ عام میں مصروف تھا تو عین اُسی وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا تعینات گورنر جگ موہن کشمیریوں کا قتلِ عام کررہا تھا۔ ملازوچ کو جنگی جرائم کی پاداش میں ہیگ میں قائم عالمی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا، مگر جگ موہن کو کشمیریوں کی نسل کُشی کے انعام میں تمغوں اور اعزازات سے نوازا جاتا رہا۔ اسّی اور نوّے کی دہائی کے سنگم پر اس شخص نے کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس پر منظم نسل کُشی کی ہی اصطلاح صادق آتی ہے۔ سات سو کے قریب نوآباد قبرستان اور نو سو اجتماعی قبروں کی پالیسی کا معمار جگ موہن ہی تھا۔
جگ موہن بھارت کی موجودہ کشمیر پالیسی کا حکمت کار ہے۔ اس پالیسی میں صرف جبر وتشدد کو ہی مرکزیت حاصل ہے۔ جگ موہن نے کشمیر کو جو زخم دئیے وہ آج تین عشرے گزر جانے کے بعد بھی ناسور بن کر رِس رہے ہیں۔ جگ موہن دوبار کشمیر کا گورنر رہا، اور ہر بار اُس نے کشمیریوں کو تباہ کرنے کی منظم مہم چلائی۔ دوسری بار تو فوجی اور انتظامی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جگ موہن نے پورے کشمیر کو قبرستان میں بدل ڈالنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ جب کشمیر میں حالات قابو سے باہر ہوئے تو بھارت نے ایک متعصب اور مہاسبھائی مزاج کے بیوروکریٹ جگ موہن کو گورنر بناکر بھیج دیا۔
جگ موہن نے ستّر کی دہائی میں اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کے زیرسایہ اپنے کیرئیر کا آغاز دہلی کے ٹائون پلانرکے طور پر کیا۔ یہ اندراگاندھی کی ایمرجنسی کا زمانہ تھا جب جگ موہن نے دہلی کے ترکمان گیٹ میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر مسلمانوںکی جھونپڑیوں کو گرانے کے لیے آپریشن کیا، اور اس دوران احتجاج اور مزاحمت کرنے والوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا گیا۔ میڈیا کو اس واقعے کی کوریج سے روک دیا گیا اور خونِ بے گناہاں کو رات کی تاریکی میں ہی چھپا دیا گیا۔ دہلی میں خونیں آپریشن کی اس مہارت کے بعد ہی جگ موہن کو کشمیر بھیجا گیا۔ مقصد دہلی کے اس تجربے کا کشمیر میں استعمال تھا۔ اس تجربے کے بعد جگ موہن کی پہچان ایک سخت گیر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر قائم ہوئی۔ جگ موہن نے کشمیریوں کے جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے سب سے پہلے فوج کے لیے لامحدود اختیارات حاصل کیے۔ ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ جیسے قوانین کا کشمیر میں اطلاق کرکے فوج کو گرفتاری، اغوا، خانہ تلاشیوں، حتیٰ کہ قتل کرنے تک کے اختیارات دے دئیے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی میں عوامی حمایت کا گراف کم کرنے کے لیے خواتین کی آبروریزی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کو رواج دیا۔ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے کشمیری پنڈتوں کو وادی سے نکال کر جموں کے کیمپوں میں پہنچا دیا گیا۔ جو پنڈت گھر چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اُن کے گھروں کے باہر بھی سرکاری خرچ پر ٹرک اور دوسری گاڑیاں لاکھڑی کی جاتی رہیں، تاکہ وہ سامان لاد کر بھاگ جائیں۔ حکومتی سرپرستی میں اس مہم نے پنڈتوں کو خوف زدہ ہوکر بھاگنے پر مجبور کیا۔ پنڈتوں کے اس منظم انخلا کا مقصد وادی کے شہروں پر جہاں حریت پسند آبادیوں کے اندر مورچہ بند تھے، فضائی بمباری کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس منصوبے پر عمل نہ کیا جا سکا۔ اسی دور میں میرواعظ مولوی فاروق کے جنازے کے جلوس پر بے تحاشا فائرنگ کرکے درجن سے زیاد افراد کو قتل کیا گیا، حتیٰ کہ تابوت بھی گولیوں سے چھلنی ہوکر رہ گیا۔
جگ موہن کے اس طریقۂ کار اور جبر وتشدد کی پالیسی پر بھارت کے کئی انصاف پسند حلقوں نے بھی شدید احتجاج کیا اور اس پالیسی کو کشمیریوں اور بھارت کے درمیان دوریوں کا نقطہ آغاز بننے کی پیش گوئی کی۔ ’’کمیٹی فار انی شیٹو آن کشمیر‘‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کے ایک وفد نے وادی کا دورہ کرکے جگ موہن کے اقدامات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عمومی تاثر یہ ہے کہ جگ موہن کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سفارش پر کشمیر بھیجا گیا ہے، اور یہ کہ جگ موہن وادی کے مسلمانوں کو زور زبردستی سے دبانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسی دور میں کنن پوش پورہ کا وہ بدترین سانحہ بھی ہوا جس میں بھارتی فوجیوں نے تیرہ سالہ بچی سے لے کر اسّی سالہ بزرگ خاتون تک کئی خواتین کی بے حرمتی کی۔
جگ موہن نے کشمیر میں اپنے تجربات پر مبنی کتاب ’’مائی فروزن ٹربولنس ان کشمیر‘‘ (کشمیر میرا سرد جہنم) میں اپنی ظلم وجبر پر مبنی پالیسی کے جواز تراشے تھے، جس میں ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ وادی پر پاکستانی جھنڈا لہرا چکا تھا مگر کشمیر کو بھارت کے لیے بچا کر واپس لایا۔ جگ موہن نے آج سے پینتیس سال پہلے کشمیر میں حالات کا جو نقش اُبھارا تھا وہ آج تک قائم ہے، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کشمیری پنڈت تین عشرے بعد بھی وادی سے باہر دربدر ہیں اور گھروں کو واپسی کے لیے ترس رہے ہیں۔ بھارتی فوج تین عشرے قبل کی طرح کشمیریوں کا قتلِ عام کررہی ہے، اور فوج کی تعداد بڑھانے کا جو سلسلہ اُس وقت شروع ہوا تھا وہ اب بھی جاری ہے۔کشمیری عوام کے جذبات کا گراف اُس وقت جس قدر بلند تھا اس میں اضافہ ہی ہوا ہے،کمی نہیں آئی۔ جگ موہن نے وادی کو غیر ملکی اور آزاد میڈیا سے خالی کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تھی اور تین عشرے گزرجانے کے باوجود فارن میڈیا وادی میں قدم نہیں رکھ پایا۔ سرد جہنم سے گرم جہنم تک جگ موہن کا سفر تمام ہوا، مگر افسوس اس بات پر ہے کہ وہ اپنے جنگی جرائم کی بنا پر کسی سزا تو درکنار کسی سوال کا سامنا نہ کر سکا، حالانکہ اس جلاد صفت شخص کے لگائے گئے زخم ابھی تازہ ہیں اور ان سے بدستور خون بہہ رہا ہے۔