سی پیک کو اس وقت خطے کی سیاست میں ‘‘گیم چینجر‘‘ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کے لیے پہلا نکتہ داخلی سیاست اور معیشت کا استحکام ہے۔ کیونکہ آپ داخلی سیاست کو مضبوط بناکر ہی علاقائی یا عالمی سطح پر اپنا مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عمومی طور پر ہم خارجہ پالیسی میں طاقتور ممالک کو بنیاد بناکر اپنے سیاسی خدوخال طے کرتے ہیں۔ لیکن خارجہ پالیسی کی مضبوط بنیاد علاقائی سیاست ہوتی ہے،کیونکہ کوئی بھی ملک علاقے میں سیاسی تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ داخلی اور علاقائی پالیسی کا عدم استحکام عالمی سیاست میں بھی سیاسی تنہائی کی جانب دھکیلتا ہے۔
علاقائی سیاست کی بنیاد چار اصولوں پر قائم کی جاسکتی ہے:
(1) ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنا۔
(2) ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعلقات اور مواقع پیدا کرنا۔
(3) تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کے لیے سیاسی، انتظامی اور معاشی فورمز کا قیام اور فعالیت۔
(4) ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات اور سماجی سطح پر ایک دوسرے کے ملکوں میں آنے جانے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور سماجی وثقافتی سطح پر باہمی تبادلے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت بہت عرصے سے علاقائی سیاست میں استحکام، ترقی اور بالخصوص معاشی ترقی کو بنیاد بناکر علاقائی ممالک سے نئے تعلقات استوار کرنے، مضبوط کرنے اور باہمی تعاون کے نئے امکانات کو پیدا کرنے پر زور دے رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری فوجی قیادت بھی پیش پیش نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ علاقائی سطح پر ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات میں نئے امکانات کو پیدا کرنا اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا، اور ماتم کرنے کے بجائے مستقبل کی طرف پیش قدمی ہماری ریاستی ترجیحات کا اہم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت تواتر کے ساتھ علاقائی سیاست کے اس نئے بیانیے کو شدت کے ساتھ پیش کررہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علاقائی ممالک سمیت عالمی سطح پر بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے بیانیے کو خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔
پاکستا ن کے سامنے اس وقت ایک بڑی معاشی ترقی کا محور چین کی مدد سے چلنے والا منصوبہ سی پیک بھی ہے۔ عمومی طور پر سی پیک کو اس خطے کی سیاست میں ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت علاقائی ممالک کی اپنی سیاست اور پالیسی میں سی پیک کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے۔ بہت سے علاقائی ممالک سمیت عرب ممالک بھی سی پیک میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس خطے کی سیاست میں چین ایک بڑے سیاسی کردار کے طور پر سامنے آیا ہے اور سب کی نظریں اس وقت چین پر لگی ہوئی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنی روایتی اور سابقہ سیاست سے جڑے مسائل کو بنیادبناکر علاقائی سیاست سے جڑی معاشی ترقی میںجو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرسکے گا؟کیونکہ ماضی میںہم سے سیاسی، سفارتی اور علاقائی سطح پر کئی غلطیاں ہوئی ہیں، اور اسی بنیاد پر اس وقت علاقائی سطح کے جو مسائل نظر آتے ہیں ان میں ہم سب بھی کسی نہ کسی سطح پر شریک ہیں۔خارجہ یا علاقائی پالیسی کبھی بھی جامد نہیں ہوتی اور یہ عملی طور پر حالات و واقعات کی بنیاد پر نئی نئی تبدیلیوںکا سبب بھی بنتی ہے، اور ہمیں حالات کے مطابق اپنی خارجہ یا علاقائی پالیسی میں نمایاں سطح کی تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں۔
اس وقت پاکستان کے سامنے دو بڑے چیلنجز علاقائی سیاست کے تناظر میں موجود ہیں۔ اول افغان امن معاہدہ یعنی پاکستان کے بقول یہ معاہدہ محض افغانستا ن کا داخلی مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلہ کا حل براہ راست پاکستان سمیت خطہ کی سیاست میں نئی مثبت سطح کی تبدیلیوں کو پیدا کرنا اور امن کے ماحول کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔دوئم پاکستان بھارت تعلقات اوراسی تناظر میں مسئلہ کشمیر کا ایسا سیاسی حل جو تمام اہم فریقین کو قابل قبول ہو۔اس وقت عالمی اور علاقائی سطح پر ان دونوں اہم معاملات پر سیاسی، سفارتی سطح پر ڈپلومیسی یا ٖ پس پرد ہ چلنے والی اہم ڈپلومیسی کے معاملات کافی حد تک سرگرم ہیں۔پاک بھارت تعلقات کی مثبت بہتری کے حوالے سے کچھ نئے سیاسی امکانات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں اور اس میں کچھ بڑی عالمی اور علاقائی قوتوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔اگر یہ دونوں معاملات یعنی افغان امن معاہدہ اور پاکستان بھارت تعلقات میں کچھ مثبت بڑی پیش رفت ہوتی ہے تو یقینی طور پر یہ علاقائی استحکام کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دو اہم معاملات یعنی افغان امن معاہدہ اور پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نہ صرف نظر آتی ہیں بلکہ ماضی سے باہر نکل کر کچھ نئے امکانات کو پیدا کرنا بھی ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان اور روس کے درمیان بھی مثبت تعلقات کے فروغ میں خاصی پیش رفت ہورہی ہے۔ اسی طرح پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان بھی ماحول بداعتمادی سے اعتماد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب اورایران کے درمیان بھی کشیدگی کم اور تعلقات کی بہتری کا امکان بڑ ھ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان سعودی عرب اور ایران کے بارے میں بھی ایک متوازن پالیسی پر کھڑا ہے۔ علاقائی ممالک کی سطح پر جو مثبت تبدیلیاں ہر ملک کی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہیں یہ ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
خارجہ پالیسی کی بنیاد ملکوں کا ذاتی مفاد بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ملک جو بھی پالیسی اختیار کرتا ہے اسے ہمیں جذباتی انداز میں دیکھنے کے بجائے ملکوں کے مفاد کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس لیے علاقائی سیاست کا استحکام، دوطرفہ باہمی تعلق اور تعاون کے امکانات اسی صورت میں پیدا ہوں گے جب ہم اپنی اپنی پالیسیوں میں ایک دوسرے کے مفاد کو فوقیت دیں گے۔ اصل مسئلہ ایک دوسرے کے معاملات کی سمجھ بوجھ اور ادراک کا ہے۔ اب زمانہ جنگوں کا نہیں، اور نہ ہی اسلحہ یا طاقت کی بنیاد پر آپ فتح حاصل کرسکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں ایک دوسرے کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنا انتہائی اہم ہے۔ اس کے لیے سب ممالک کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مؤثر بنانے کی پالیسی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔ ایک حل یہ بھی ہے کہ علاقائی سطح پر جو بھی فورم کسی بھی حوالے سے موجود ہیں ان کو فعال کیا جائے، اور جو بھی تنازعات ہیں (باقی صفحہ 41پر)
ان کو انہی دوطرفہ بات چیت کے فورمز کی مدد سے حل کیا جائے۔ سارک ممالک کے فورمز کو فعال کرنا ہم سب کی ضرورت ہے، اور بالخصوص اس میں بھارت کو زیادہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا کہ یہ فورم فعالیت کی طرف بڑھ سکیں۔
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی اس بیانیے کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ہم اپنے تمام علاقائی تنازعات بشمول بھارت کے ساتھ تمام تنازعات دوستانہ انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھی ہماری پالیسی واضح ہے کہ بھارت اگر اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گا تو دو طرفہ بات چیت اورمسائل کے حل کی بات ممکن نہیں ہوگی۔ علاقائی استحکام کی کلید کسی ایک ملک کے پاس نہیں، اس میں سب ممالک کو اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، اور ماضی کے خول سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی، اور بالخصوص بھارت کو اس ضمن میں مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا، اُس کے تعاون اور حمایت کے بغیر علاقائی استحکام ممکن نہیں ہوگا۔