مسئلہ فسلطین اور علامہ اقبال

آزادی ہر قوم کا مسلمہ حق ہے۔ ہر قوم کو دیگر اقوام کی بالادستی اور دبائو کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا نظام حکومت چلانے کی مکمل آزادی ہے اور کسی بھی ریاست کے باشندوں کو مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مغربی معاشروں میں رائج آزادی دراصل خوئے غلامی ہی کی ایک مبہم سی شکل ہے۔ اصل میں آزادی متحرک ہونے اور تحرک کے احساس سے سرشاری کا نام ہے۔ رابرتو زیلویلونی نے اپنی کتاب Self-Determination میں آزادی کے موضوع پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:
“To be and to free” are the same thing for a person. When we act freely we not only understand the act but we also feel we have the power of evoking motives and making them our own[p…]
فرد سے قوم تک آزادی کے اس حق کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کے منفی پہلو نو آبادیاتی نظام کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے۔ طاقتور اقوام نے کمزور ریاستوں کو ان کے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی شکل میں دیتے ہوئے مختلف زاویوں سے ان کی آزادی کو سلب کیے رکھا۔ ان کمزور اقوام کی غلامانہ ذہنیت کو باوقار قسم کا چغہ پہنانے کے بے شمار طریقے بھی ایجاد کیے گئے۔
خطۂ فلسطین بھی بدقسمتی سے ان علاقوں میں شامل ہے جو عرصہ دراز سے اقوام عالم کی بے حسی کا شکار ہیں۔ فلسطین، مذہبی، لسانی اور تہذیبی لحاظ سے مسلم تمدن کا حصہ رہا ہے، اس کا رقبہ ۲۷۰۰۹ کلومیٹر کو محیط ہے، اس کے مشرقی و شمال میں جہاں پہاڑوں کا طویل سلسلہ ہے وہیں مغربی علاقہ اپنی زرخیز اور ہموار زمینوں کی بدولت نباتات سے مالا مال ہے۔ یوں تو فلسطین کے بہت سے شہر تاریخی پس منظر اور جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ’’القدس‘‘ سب سے مشہور و معروف ہے۔ مسجد اقصیٰ اسی شہر میں واقع ہے۔ ’’القدس‘‘ سے بالکل متصل دوسرا شہر ’’الخلیل‘‘ ہے جس میں مسجد ابراہیم ہے۔ اس شہر کی وجہ تسمیہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ کا مزار مقدس بھی یہیں واقع ہے۔ فلسطین، امن اور شانتی کا گہوارہ اور صدیوں سے مسلم دنیا کا حصہ رہا ہے، بلکہ مسلم اقتدار کے زیر اثر تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار یہاں امن کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ فلسطین کا آج کا المیہ یہ ہے کہ استعماری سازشوں سے یہ ملک صرف تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔ فلسطینی اتھارٹی محدود اختیارات رکھنے کے باوجود زمین سے محروم ہے جو کسی بھی ریاست کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن ۱۸۷۸ء میں حیفہ کے مقام پر پہلی یہودی نو آباد کار بستی بسائی گئی۔ ۱۸۹۶ء میں ویانا کے صحافی تھیوڈور ہرزل نے سب سے پہلے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اپنی رپورٹ میں اس نے کہا تھا:
مجھے یہ یقین ہے کہ ہم ایک دن کرۂ ارض پر ایک یہودی ریاست قائم کر کے ہی دم لیں گے۔ چاہے وہ ارجنٹینا میں ہو یا فلسطین میں، اس ریاست کے قیام کے بغیر دنیا بھر کے یہودی، آزادی، عزت اور خوشحالی کی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوں گے۔
ہرزل نے صرف اپنی رپورٹ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ برطانیہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل کر لی۔ ہرزل نے اپنی سفارت کاری کے ذریعے اس وقت کی عثمانی سلطنت کو فلسطین کے بدلے استنبول میں ایک جدید طرز کی یونیورسٹی کے قیام اور اس کے تمام غیر ملکی قرضہ جات ادا کرنے کی تجویز بھی پیش کی جسے سلطان عبدالحمید عثمانی نے رَد کر دیا۔ سلطان نے فلسطین میں آنے والے یہودی زائرین کے لیے سرخ پاسپورٹ کا اجرا بھی کیا جس کی وجہ سے کسی یہودی کو تین ماہ سے زیادہ فلسطین میں قیام کی اجازت نہ تھی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود بین الاقوامی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان قوتوں نے ترکی کی ’’ینگ ترک پارٹی‘‘ میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر کے سب سے پہلے سلطان عبدالحمید عثمانی کو معزول کیا۔ اس کے بعد شریف مکہ کے ذریعے عربوں کی آزادی اور اتحاد کی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ برطانیہ ایک طرف شریف مکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل سے گزر رہا تھا تو دوسری طرف اس کے عالمی صہیونی اداروں سے بھی مکمل رابطے تھے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی یہودیوں سے جو گفت و شنید ہوئی اس کا نتیجہ وہ خط ہے جو برطانوی سیکریٹری خارجہ مسٹر بالفور نے روتھ شیلڈ کو لکھا۔ خط میں کہا گیا تھا:
His majesty’s Government view with favour the establishment in palestine of a national home for the jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object.
نومبر ۱۹۱۶ء میں شریفِ مکہ کی عمل داری کا اعلان ہو چکا تھا لیکن ’’اعلان بالفور‘‘ نے اسے بدظن کر دیا۔ جنگ جاری تھی اور شریف مکہ اور اس کے حواری اس میں بڑھ بڑھ کر حصہ لے رہے تھے جنگ کے خاتمے پر شریف حسین کو یقین دلایا گیا کہ برطانیہ عرب اقوام کے اتحاد کا خواہش مند ہے۔ دسمبر ۱۹۱۷ء تک برطانیہ جنوبی اور مرکزی فلسطین پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا جس میں یروشلم بھی شامل تھا۔ برطانوی فوج کے سپہ سالار امین بے نے فاتح کی حیثیت سے پرانے شہر کا دورہ کیا اور کہا: ’’آج صلیبی جنگیں ختم ہو گئی ہیں۔
فلسطین پر برطانوی قبضہ نو آبادیاتی نظام کے قیام اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر تھا۔ اس دوران خاص لائحہ عمل سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری بھی ہوئی۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ملکوں میں آباد یہودی فلسطین آنے لگے۔ اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے: ’’سرزمین فلسطین پر برطانوی استعمار کے زمانے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی شرح نمو ۵/۲ فیصد تھی جو فطری ہے جب کہ اس کے مقابلے میں یہودیوں کی شرح نمو ۹ گنازیادہ تھی‘‘۔
فلسطینی عوام نے فلسطین پر برطانوی راج اور اعلان بالفور کے ذریعے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی شدید مخالفت کی۔ فلسطین کی قومی تحریک بھی انہی خطوط پر پروان چڑھی۔ فلسطین کی قومی تحریک کا باقاعدہ آغاز ۲۷ جنوری سے ۱۰ فروری ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۸ء تک ایسی سات کانفرنسیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں موسیٰ کاظم الحسینی اور الحاج امین الحسینی تحریک آزادی فلسطین کے قائدین کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ یہودی آباد کاری کے خلاف اس تحریک کو بری طرح سے کچل دیا گیا اور اس کے قائدین کو شہید کر دیا گیا جس کے ردعمل میں مسلح مزاحمت شروع ہوئی۔ برطانوی قیادت کے خلاف مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز فلسطینیوں کی خفیہ تنظیم ’’الجہادیہ‘‘ نے جس کی قیادت شیخ عزالدین القسام کر رہے تھے، کیا۔ شیخ کی رہنمائی میں فلسطینی جدوجہد کو یکسوئی اور اتحاد کی دولت میسر آئی۔
شیخ القسام ۲۰ نومبر ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت سے آزادی کی جدوجہد میں شہید ہو گئے۔ ان کی مزاحمت مختصر عرصے کے لیے تھی لیکن اس جدوجہد اور خود شیخ کی شہادت کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور مسلح جدوجہد کا دائرہ کار پھیلتا چلا گیا حتیٰ کہ برطانیہ کا اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا اور اس نے اپنے اتحادی عرب حکمرانوں سے مدد چاہی۔ عرب حکومتیں عملی طور پر برطانیہ کی حامی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے فلسطینی عوام سے بغاوت ختم کرنے کی اپیل کی۔ بقول ظفرالاسلام خان: عرب کے شاہ سعود، عراق کے شاہ غازی اور اردن کے امیر عبداللہ نے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں ایک ہی جیسی اپیلوں کے ذریعہ فلسطینی عوام سے درخواست کی کہ وہ برطانیہ کے خلاف مسلح بغاوت ختم کردیں۔
فلسطین میں ہونے والی بغاوت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کی لیے ’’شاہی کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیا۔ فلسطینی عربوں نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ ’’شاہ کمیشن‘‘ نے جولائی ۱۹۳۷ء میں تقسیم فلسطین کی تجویز پیش کی۔ کمیشن کے مطابق فلسطین کا تین حصوں میں تقسیم کیا جانا ضروری تھا۔ اپنی تجویز میں کمیشن نے کہا تھا: ’’اس سارے قضیے کے تین فریق یعنی برطانیہ، عرب اور یہودی ہیں فلسطین کا ایک ایک حصہ ان میں بانٹ دیا جانا ضروری ہے‘‘۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کو نہ صرف فلسطینی عوام نے رَد کیا، بلکہ عالم اسلام میں بھی اس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ برصغیر میں حضرت علامہ اقبال شاید پہلے شاعر تھے جو جدید مشرقی اور مغربی علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ وہ نوآبادیاتی نفسیات اور سامراج کی چالوں سے خوب آگاہ تھے۔ اس لیے ان کی شاعری اور نثر میں نو آبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار خیال ملتا ہے۔ اقبال اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد جناح کو لکھتے ہیں: ’’میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے… یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘۔
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کے مطابق:
اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصور نے مسلسل بے چین رکھا۔ اقبال نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔
علامہ اقبال ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء کو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں‘‘۔
حضرت علامہ کے خیال میں فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم (لیگ آف نیشنز) اور عرب ملوکیت بھی برابر کی شریک ہے۔ چنانچہ وہ ایک شعر میں کہتے ہیں:
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذرؓ و دلقِ اویسؒ و چادرِ زہراؑ
ایک جگہ عرب ممالک کے بادشاہوں اور ان کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:
’’عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں‘‘۔
’’اقوام متحدہ‘‘ کی پیش رو ’’مجلس اقوام عالم‘‘ کا رویہ بھی مسئلہ فلسطین پر انتہائی سرد مہری سے عبارت تھا۔ اقبالؒ اس کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ چنانچہ اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں: لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوام عالم) کو چاہیے کہ بیک آواز اس ظلم و طغیان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے نا انصافی نہ کریں‘‘۔
حضرت علامہ کی شاعری میں بھی جمعیت اقوام عالم کے عالمی منظر نامے میں منفی کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملل، حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصد ہے فقط ملتِ آدم
٭٭٭
مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟
٭٭٭
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر جو آوازیں اٹھیں، وہ زیادہ تر آہ و بکا، شور و غوغا یا طنزیہ اسلوب کی غمازی کرتی ہیں، جب کہ حضرت علامہ نے منطقی استدلال اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو شعر و سخن کا موضوع بنایا۔
حضرت علامہ ضربِ کلیم میں شامل ایک نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ میں فلسطینی عوام سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے فلسطینی عرب تیرے وجود میں جو آگ موجود ہے اس سے زمانے کو جلا کر راکھ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، تیرا علاج لندن یا جنیوا میں نہیں کیونکہ دیارِ فرنگ کی خارجہ پالیسی یہودی تاجروں کی گرفت میں ہے۔ تُو امن کے بجائے اپنی خودی کو بیدار کر۔ کیوں کہ امتوں کی نجات خودی کی نشوونما اور تجلی کی مرہون ِمنت ہوتی ہے۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
سُنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
فلسطین ہر لحاظ سے عالمِ اسلام کا حصہ ہے لیکن اس سے تاریخی طور پر یہودیوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے بے شمار تاویلیں پیش کی گئیں۔ کیتھ وہائٹ ولیم نے اپنی کتاب قدیم اسرائیل کی ایجاد میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ’’اسرائیل مؤثر اور جذباتی انداز میں آثار قدیمہ کی دریافتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے‘‘۔ اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دینے کے لیے برطانوی حکام نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی زمین عرصہ دراز سے خالی پڑی تھی یہاں طویل عرصے تک یہودیوں کی حکمرانی رہی۔ اس لیے یہودیوں کے اس سرزمین سے جذباتی تعلق کی بناء پر یہاں اسرائیل کا قیام ضروری ہے۔
جب اسرائیل کا قیام (۱۹۴۸ء) عمل میں آیا تو اقبال کو وفات پائے تقریباً دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن وہ اس خطے میں سامراج کی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے ضرب کلیم ہی میں شامل ایک نظم ’’شام و فلسطین‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا جنہوں نے سات سو سال تک وہاں اپنی حکمرانی کی عمدہ مثال قائم کی؟ ان اشعار میں منطقی انداز سے یہودیوں کے دعوے کی نفی کی گئی ہے:
زندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا
علامہ اقبال اپنے عہد کے معروضی حالات سے بخوبی واقف تھے اور یہ شعور رکھتے تھے کہ غلامی ایک نسل سے دوسری نسل میں سرایت کر جاتی ہے اور رفتہ رفتہ امتیں اس جرأت رندانہ سے کس طرح محروم ہو جاتی ہیں جن سے ان کا اجتماعی تشخص ابھرتا ہے۔
حضرت علامہ مشرق وسطیٰ سمیت تمام دنیا میں عالمی شطرنج کی بساط کے مہروں اور سامراجی چالوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے مآخذ و مصادر میں قرآن سب سے مقدم ہے اس لیے فلسطین سے ہزاروں کوس دور ہونے کے باوجود فلسطینی بھائیوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونا عین فطرت اقبالی کا حصہ ہے اور بجز نکتۂ ایمان کی تفسیر کے اور کچھ نہیں۔
(بحوالہ: سہ ماہی ”پیغام آشنا“ اسلام آباد)