غزہ میں اسرائیلی جارحیت ,مسلم ممالک کا کمزور ردعمل

غزہ میں اسرائیلی سفاکی بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کی بمباری سے اب تک سیکڑوں فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ بچوں، خواتین اور بزرگ شہدا کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مغربی کنارے میں بیت اللحم سمیت کئی شہروں میں فلسطینیوں نے مظاہرے کیے، ان پر بھی اسرائیلی فورسز نے سلامتی کونسل، امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے خاموشی اختیار کیے جانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گولیاں برسائی ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ پاکستان میں بھی 21 مئی کو احتجاجی مظاہرے ہوںگے، ریلیاں ہوں گی۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق اسلام آباد میں ایک ریلی کی قیادت کریں گے۔ تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اسلام آباد میں ریلی اور مظاہروں کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ حکمران جماعت قومی اسمبلی میں قرارداد لانے کی حد تک متحرک رہی۔ دفتر خارجہ میں کسی حد تک ہلچل دیکھی گئی ہے۔ یہاں ایران، ترکی اور فلسطین کے سفیروں نے بھی اپنا اپنا ردعمل دیا ہے۔ شہری اور تاجر تنظیموں کی جانب سے اسلام آباد میں فلسطین کے سفیر سے ملاقاتیں ہوئی، جن میں انہیں مکمل حمایت کا یقین دلایا گیا۔ مرکزی تنظیمِ تاجراں کے ایک وفد نے کاشف چودھری کی قیادت میں فلسطینی سفیر سے ملاقات کی۔ قومی اسمبلی میں اگرچہ قرارداد لائی گئی ہے، تاہم قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ دونوں خاموش رہی ہیں، دفتر خارجہ بھی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس کی حد تک متحرک رہا، جس میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی، مگر حالات جوں کے توں ہیں۔ او آئی سی اجلاس کی قرارداد میں اسرائیل کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدام کی مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیاہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ حملے اور فلسطینی مقدس مقامات کی بے حرمتی فوری بند کرے۔ قرارداد میں اسرائیل کے توسیعی منصوبے کو بھی مسترد کیا گیا ہے، اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ سلامتی کونسل فوری طور پر اسرائیلی حملے بند کرائے، عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ او آئی سی اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد کی روشنی میں قومی اسمبلی میں بھی ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے، جس کے الفاظ کم و بیش وہی ہیں جو اوآئی سی کی قرارداد میںلکھے گئے ہیں۔
اس وقت 57 مسلم ممالک میں پاکستان، ایران، ملائشیا، انڈونیشیا ہی کسی حد تک متحرک ہیں۔ عالمی برادری فلسطینیوں کے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مسلم سربراہوں میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے خلاف اپنی بھرپور سفارتی کوشش کی ہے۔ انہوں نے امریکہ کے بجائے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کا گاڈ فادر امریکہ ہے جو اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی مذمت کرنا تو درکنار، قرارداد ہی کو ویٹو کرتا چلا آیا ہے، لیکن اس بار ترکی اور روس نے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور نہ ہونے کی صورت میں ایک الگ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے صدر وولکان بوزکر جن کا تعلق ترکی ہی سے ہے، کی صدارت میں جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد کے حق میں اگر دو تہائی ممالک کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے تو یہ ایک تاریخ ساز قرارداد ہوگی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ ہی کی نگرانی میں بیت المقدس کو ایک محفوظ مقام قرار دیا جاسکتا ہے۔
فلسطین کے حالیہ بحران کے دوران میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد تو لائی گئی مگر نہ جانے کون سا امر مانع ہے کہ سلامتی کونسل میں قرارداد کو رکوانے کی امریکی کوشش کی مذمت نہیں کی گئی۔ اب ترک وزیر خارجہ کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر شاہ محمود قریشی نیویارک جائیں گے۔ ہر قرارداد برائے عمل نہیں ہوتی۔ کبھی اسمبلی جاکر دیکھیں کشمیر اور فلسطین کے حق میں قراردادوں کا ڈھیر لگا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ منافقت کی انتہا کا دوسرا نام ہے۔ جب ہماری اسمبلی میں یہ کہا جائے کہ اللہ نے مسجد اقصیٰ یہودیوں کو دی اور کعبہ ہمیں، تو اندازہ لگالیں کہ ہم جہالت کے کس درجے پر ہیں۔ یہ منافقانہ سناٹا ہے۔ پروٹوکولز میں پورے حجاز کا ذکر ہے۔
فلسطین کی صورتِ حال پر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگیا اور اس موقع پر اتفاقِ رائے سے قرارداد بھی منظور کرلی گئی، لیکن کیا یہ قرارداد موجودہ گمبھیر صورت ِحال میں امتِ مسلمہ کے اہم ترین مسئلے پر پاکستانی عوام کے اتحاد کی غمازی کرتی ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فلسطینی بھائیوں سے اظہارِ یک جہتی کے موقع پر قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف نے اپنے خلاف حکومت کی منتقمانہ کارروائیوں اور زیادتیوں پر احتجاج نہیں کیا، اسی طرح حکومتی بینچوں کی روایت کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی حزبِ اختلاف اور اس کے قائد کے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کی جو اُن کی جماعت کی پہچان ہے، لیکن اس کے باوجود یہ قرارداد نہ پارلیمانی روایات پر پوری اترتی ہے اور نہ قومی اتحاد کا مظاہرہ اس سے ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایوان میں قائدِ ایوان موجود نہ تھے۔ کوئی قوم اگر کسی عالمی مسئلے پر اپنی آواز بلند کر رہی ہو اور اس موقع پر حکومت کا سربراہ ہی اپنی موجودگی کو یقینی نہ بنائے تو اس سے قومی اتحاد کا مظاہرہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس قرارداد کا یہ پہلو انتہائی افسوس ناک ہے، لیکن حقیقت ہے کہ عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک ناکام راہنما ہیں اور قومی اتحاد کا مظہر نہیں ہیں۔ شہبازشریف نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے میں وقت ضائع کیے بغیر قیادت کی ذمہ داری ادا کرے۔ وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت یہی کام کررہی ہے۔ لیکن حکومت کے سربراہ کی اس اہم موقع پر عدم موجودگی نے ثابت کردیا کہ یہی کام نہیں ہورہا۔
فلسطین میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت مسلم امہ کے لیے امتحان نہیں بلکہ داغ ہے۔ جن مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے اور دیگر مسلم ممالک پر بھی اسے تسلیم کرنے پر زور دے رہے ہیں اب انہیں یہ داغ دھونے کے لیے سامنے آنا چاہیے۔ مسلم دنیا کا مؤقف ہے کہ القدس الشریف اور مسجد اقصیٰ کی حیثیت مسلم امہ کے لیے ریڈلائن کی سی ہے۔ مگر اسرائیل تو ریڈلائن پار کرچکا ہے، بلکہ اب وہ اسے مٹانے کے درپے ہے۔ اسرائیل عرب تنازع کی اپنی ایک تاریخ ہے۔1970ء کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لیے مختلف ادوار میں بات چیت ہوتی رہی۔ مختصر ترین جائزہ یہ ہے کہ1970ء میں اسرائیل مصر معاہدہ ہوا، اس کے بعد1994ء میں اردن اسرائیل معاہدہ ہوا، اور2003ء میں شاہ عبداللہ نے امن کا ایک روڈمیپ دیا جس میں دو ریاستوں کے قیام کے لیے فریقین میں اتفاق ہوا۔ اسی تناظر میں2003 ء سے 2014ء تک فریقین میں بات چیت ہوتی رہی اور 2014ء میں معاہدے پر دستخط ہوئے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال پر گفتگو کرنے کے لیے جائزہ اس بات کا لینا ہوگا کہ اب تک کیا بات چیت ہوئی، اور فریقین میں اتفاق کہاں ہوا؟ اور حالیہ جارحیت کی اصل وجہ کیا ہے؟ مختصر تجزیہ یہ ہے کہ اگرچہ او آئی سی موجود ہے، تاہم مسلم دنیا کا ایک بڑا حصہ آج بھی کشمیر اور فلسطین کے مسئلے سے خود کو الگ تھلگ رکھے ہوئے ہے۔ مسلم دنیا کے اندرونی حالات کی وجہ سے ایشیا میں بھارت اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کھلی جارحیت اور من مانی کرتے ہیں۔2014ء کے معاہدے کے مطابق مشرقی یروشلم فلسطین کا دارالحکومت بننا ہے۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کو بستیاں بسانا بند کرنا تھا۔ اسی معاہدے کے وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اگر اسرائیل فلسطینی قیادت کا مؤقف تسلیم نہیں کرے گا تو معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جائیں گے، یہ وہ وقت تھا جب امریکی انتظامیہ تبدیل ہورہی تھی اور نئی انتظامیہ کے آنے پر ٹرمپ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے ذہن کے مطابق امن کے قیام کی کوشش کرتے رہے، انہیں اس حد تک تو کامیابی مل گئی کہ او آئی سی میں رہتے ہوئے بھی خلیج کے چند مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلیے، اور پاکستان پر بھی دبائو رہا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اب امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ ہے جو کابل، سری نگر اور فلسطین کے بارے میں اپنا ’’حل‘‘ چاہتی ہے۔ دراصل حالیہ اسرائیلی جارحیت کسی نئے معاہدے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ وہ معاہدہ کیا ہوسکتا ہے اور او آئی سی کا فورم فلسطین کے لیے کیا کچھ حاصل کرسکتا ہے، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ اسرائیلی سفاکی کے خلاف پوری دنیا میں بے چینی کی لہر ہے، دنیا بھر میں اسرائیلی فورسز کے وحشیانہ اقدامات کے خلاف تشویش پائی جاتی ہے اور اس کی مذمت کی جارہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی غزہ میں بڑھتی ہوئی شہادتوں پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور ان حملوں کو براہِ راست جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ انسانیت کا درد رکھنے والے اسرائیلی بھی فلسطینیوں کا خونِ ناحق بہانے پر شدید ردعمل کا اظہار کررہے ہیں، لیکن سلامتی کونسل سے لے کر او آئی سی تک کسی بھی فورم پر فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کی ابھی کوئی بات نہیں ہورہی، اور جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا، خطے میں جارحیت رہے گی۔ اب ایک کوشش ہورہی ہے کہ ترکی، فلسطین اور پاکستان مل کر امریکہ کے سامنے ایک پلان رکھیں گے جس میں امن کے قیام کے علاوہ مسئلے کا مستقل حل بھی پیش کیا جائے گا۔ جو بھی حل طے ہوگا اس کا سایہ جنوبی ایشیا پربھی پڑے گا۔ لہٰذا فلسطینیوں کے بعد کشمیری عوام بھی کسی ’’حل‘‘ کے لیے تیار رہیں۔ اس خطے میں چین بھی ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کی قیادت بھی متحرک ہے۔ چینی وزیر خارجہ اور ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بات چیت ہورہی ہے۔ ان ملاقاتوں میں زیربحث آنے والے تمام نکات امریکی وزیر خارجہ کے سامنے رکھے جائیں گے۔
فی الحال تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ اسرائیلی اقدامات کو جائز قرار دے رہی ہے، بلکہ اس نے فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کا اعلامیہ تک رکوا دیا جس پر سلامتی کونسل کے رکن ملک چین کی طرف سے احتجاج کیا گیا کہ واشنگٹن اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اب ترکی اور پاکستان کی جانب سے کوشش ہورہی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جائے جہاں پوری اقوام عالم اپنا نکتہ نگاہ بیان کریں۔ یہ دونوں ملک اقوام متحدہ کی ثالثی چاہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کی نوبت نہ آئے۔ او آئی سی کی اپنی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ سفری وسائل ہونے کے باوجود مسلم امہ کے وزرائے خارجہ ایک جگہ اکٹھے ہونے کے بجائے ورچوئل اجلاس تک محدود رہے۔ جو امید او آئی سی نے اقوام متحدہ سے لگائی ہوئی ہے وہی امید مسلم دنیا نے او آئی سی سے لگائی ہوئی ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ملیں گے۔ او آئی سی کا ورچوئل اجلاس بھی جذباتی تقریروں سے آگے نہیں بڑھ سکا اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں دے سکا۔ اسرائیل کے ظلم کے خلاف کچھ بھی طے نہیں ہوا۔ او آئی سی 57 ممالک کی تنظیم ہے، ان میں سے 41 ممالک کی مشترکہ فوج بھی ہے، مگر عالم اسلام نے اپنے گھوڑے چھائوں میں باندھ رکھے ہیں۔ اگر مسلم دنیا نے اپنی طاقت کو مجتمع کرکے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو…
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں