میاں نوازشریف اور مریم نواز کے ترجمان اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ ہماری ’’راولپنڈی‘‘ سے ’’صلح‘‘ ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کی سیڑھی کھینچنے کی دیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صلح سے تحریک انصاف کو مسئلہ ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے ساتھ حالات ٹھیک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ’’صلح‘‘ ہوگئی ہے اور تحریک انصاف کو یہی ڈر اور خوف ہے۔ محمد زبیر سے جب پوچھا گیا کہ آپ کی صلح ہوگئی ہے یا سیز فائر ہوا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں صلح اور سیز فائر کا فرق نہیں جانتا۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 12 مئی 2021ء)
روزنامہ جنگ کراچی نے یہ خبر ایک کالم کی سرخی کے ساتھ آخری صفحے پر شائع کی ہے، حالانکہ یہ خبر شہ سرخی کے ساتھ شائع ہونی چاہیے تھی۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں صاحب ’’انقلابی‘‘ اور ’’نظریاتی‘‘ بن کر ابھرے تھے، لیکن میاں صاحب کا انقلاب چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی طرح تھا۔ اصول ہے: انسان زوال پذیر ہوکر بندر بن سکتا ہے، مگر بندر ترقی کرکے انسان نہیں بن سکتا۔ میاں صاحب کے نظریاتی ہونے کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اور اُن کا پورا کیمپ ’’نظرآتی شخصیت‘‘ کو ’’نظریاتی شخصیت‘‘ قرار دیتا ہے۔ خورشید ندیم صاحب میاں صاحب کے عاشقوں میں سے ہیں۔ ایک بار اُن کی سیاسی جبلت اتنی بھڑکی کہ انہوں نے میاں صاحب کے ساتھ ’’عزیمت‘‘ کو وابستہ کردیا۔ لیکن جیسا کہ محمد زبیر کے اعتراف سے ثابت ہے میاں صاحب کا ’’بخار‘‘ اتر چکا ہے اور میاں صاحب ایک بار پھر
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
کی تصویر بن گئے ہیں۔ میاں شہبازشریف اور حمزہ شہباز شریف رہا ہوچکے ہیں۔ میاں نوازشریف آرام سے لندن بیٹھے ہیں۔ اب ان کی زبان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آگ نہیں برسا رہی۔ عمران خان نے میاں شہبازشریف کی بیرونِ ملک روانگی روک دی ہے، مگر وہ اس روانگی کو کب تک روکتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ میاں نوازشریف اور ان کا کیمپ یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ سے بہت مختلف ہیں۔ حالانکہ حقائق بتاتے ہیں کہ میاں نوازشریف فوجی اسٹیبلشمنٹ کے جڑواں بھائی ہیں۔ اس دعوے کی پشت پر ایک دو نہیں ایک درجن دلائل ہیں۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی نظریہ ہے نہ میاں نوازشریف کا کوئی نظریہ ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مذہب کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مذہب ہمارے جرنیلوں کے لیے ہمیشہ ایک حربہ یا ایک Tactic رہا ہے۔ امریکہ کہتا ہے تو ہمارے جرنیل ’’جہادی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ امریکہ جہاد کو فساد اور جہادیوں کو فسادی کہنے لگتا ہے تو ہمارے جرنیل بھی جہاد کو فساد اور جہادیوں کو فسادی کہنے لگتے ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے کشمیری رہنمائوں کو پیغام دیا تھا کہ اگر آپ اپنی تحریک کو تحرّک کی ایک خاص سطح پر لے آئیں گے تو پاکستان آپ کی عملاً مدد کرے گا۔ کشمیریوں نے اس مشورے کو توجہ سے سنا اور اس پر عمل کرکے دکھا دیا۔ مگر جب وہ تحریک کو تحرّک کی مطلوبہ سطح پر لے آئے اور پاکستان سے مدد کے طالب ہوئے تو انہیں پیغام دیا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ یہ مذہب کو حربے کے طور پر استعمال کرنے کی بڑی بڑی مثالیں ہیں۔
میاں نوازشریف کا قصہ یہ ہے کہ اُن کا بھی کوئی نظریہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ میاں صاحب اور اُن کا خاندان اپنے مذہبی ہونے کے تاثر کو عام کرنے میں لگا رہتا تھا۔ مگر شریفوں کے لیے مذہب ایک ’’حربے‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔ شریف خاندان کتنا مذہبی ہے اس کا اندازہ چودھری شجاعت کی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ چودھری صاحب نے اس خودنوشت میں لکھا ہے کہ ہم نے شریف خاندان کے ساتھ شراکتِ اقتدار کا سمجھوتا کیا تو شہبازشریف قرآن اٹھا لائے اور کہنے لگے کہ چودھری صاحب یہ قرآن اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ مگر چودھری صاحب نے لکھا ہے کہ شریفوں نے معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ مذہب کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے اسی طرح شریف خاندان کے لیے بھی مذہب کیا قرآن بھی ایک حربہ ہے۔ بعض لوگ تاثر دیتے ہیں کہ اب میاں صاحب ’’لبرل‘‘ ہوگئے ہیں۔ مگر میاں صاحب کے لیے لبرل ازم بھی ایک حربہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ صرف مغرب کو خوش کرتے ہیں، ورنہ انہیں لبرل ازم کی الف ب بھی معلوم نہیں۔
غور کیا جائے تو اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف دونوں ’’آمریت پسند‘‘ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے جرنیل ’’فوجی آمر‘‘ ہوتے ہیں، اور میاں صاحب ایک ’’سول آمر‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جرنیلوں کی آمریت ہمیشہ One Man Show ہوتی ہے۔ میاں نوازشریف کی ’’سول آمریت‘‘ بھی ہمیشہ One Man Show ہوتی ہے۔ نوازلیگ نوازشریف سے شروع ہوتی ہے، نوازشریف میں آگے بڑھتی ہے اور نوازشریف میں ختم ہوجاتی ہے۔ میاں نوازشریف اپنی ذات سے اوپر اٹھ ہی نہیں سکتے۔ اٹھتے ہیں تو انہیں اپنی دخترِ نیک اختر کے سوا کوئی نظر نہیں آتا… شہبازشریف تک نہیں۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف اس لیے بھی ایک دوسرے کے جڑواں بھائی ہیں کہ دونوں ’’امریکہ پرست‘‘ اور ’’امریکہ مرکز‘‘ یعنی America Centric ہیں۔ ہمارے جرنیل اور میاں نوازشریف خود کو اتنا نہیں مانتے جتنا امریکہ کو مانتے ہیں۔ ہمارے جرنیلوں اور میاں صاحب کو کبھی خوفِ خدا میں مبتلا ہوتے نہیں دیکھا گیا، مگر ہمارے فوجی آمر اور میاں نوازشریف ہمیشہ ’’خوفِ امریکہ‘‘ میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف کو ایک فون کال کی تو جنرل پرویز لرزتے ہوئے پائے گئے اور انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ میاں صاحب امریکہ کے دبائو پر ایٹمی دھماکے کے لیے تیار نہ تھے، اور انہوں نے دھماکا اُس وقت کیا جب مجید نظامی نے انہیں بتایا کہ آپ نے دھماکا نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکا کردے گی۔ جرنیلوں نے ہمارے پورے دفاع کو ’’امریکہ مرکز‘‘ بنایا ہوا ہے، اور میاں صاحب نے کبھی اپنے دورِ اقتدار میں ہمارے دفاع کا مرکز بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ آئی ایم ایف امریکہ کا ایک مالیاتی ادارہ ہے، اور آئی ایم ایف کے غلام جرنیل بھی ہیں اور میاں نوازشریف بھی۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف میں ایک بڑی اور گہری مماثلت یہ ہے کہ دونوں Status Quo کی علامت ہیں۔ دونوں حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں نہ ملک کی سیاسی حرکیات کو بدلنے کے حق میں ہیں، نہ ملک کی معاشیات اور سماجیات میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں۔ دونوں ملک میں بالائی طبقات کی بالادستی چاہتے ہیں اور دونوں عوام کو اپنے انگوٹھے کے نیچے دباکر رکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں ملک میں علم و شعور کے دشمن ہیں اور دونوں تنقید کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ جرنیل بھی صحافیوں کو خریدنے کے لیے بدنام ہیں اور میاں نوازشریف بھی ہمیشہ صحافیوں کا ضمیر خریدتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف دونوں کرپٹ ہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے بینکوں سے لیے ہوئے 200 ارب روپے کے قرضوں کو معاف کیا۔ اتنے ہی بڑے قرضے جنرل پرویز کے دور میں معاف کیے گئے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ڈی ایچ اے ایک اسکینڈل ہے۔ لوگ ملک ریاض جیسے بدعنوان شخص کی پشت پر بھی ریٹائرڈ فوجیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ جرنیلوں کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، مگر وہ بینک چلا رہے ہیں، مسالحے فروخت کررہے ہیں، کھاد کا کاروبار کررہے ہیں۔ یہ جرنیل ہی ہیں جنہوں نے میاں نوازشریف اور الطاف حسین جیسے کرپٹ سیاست دان ملک و قوم کو دیے۔ جہاں تک میاں نوازشریف کا تعلق ہے تو وہ سر سے پیر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنابِ عالی یہ ہیں وہ ذرائع جن سے ہم نے لندن کی جائداد خریدی۔ مگر وہ اس سلسلے میں منی ٹریل دینے سے قاصر رہے۔ مریم نواز نے جیو کے پروگرام میں کہا کہ میری بیرونِ ملک کیا ملک میں بھی کوئی جائداد موجود نہیں۔ بعد میں ثابت ہوا کہ ان کی بیرونِ ملک بھی جائداد ہے اور ملک کے اندر بھی جائداد ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کے جڑواں بھائی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دونوں بھارت سے مرعوب ہیں۔ یہ جرنیل تھے جن کے زمانے میں ملک ٹوٹا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ جنرل پرویزمشرف کارگل کے ہیرو تھے، مگر کارگل کا ہیرو بعد میں بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتا ہوا پایا گیا۔ اب جنرل باجوہ بھارت کا سارا شیطانی ماضی فراموش کرکے اُس کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کھیل رہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات دومذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں، مگر میاں صاحب بھارت سے اتنے مرعوب ہیں کہ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کو مودی نواز تعلقات بناکر رکھ دیا۔ میاں صاحب مودی کی تقریبِ حلف برداری میں اس طرح شریک ہوئے جیسے وہ مودی کے ’’درباری‘‘ ہوں۔
اسٹیبلشمنٹ اور میاں نوازشریف کی ایک مماثلت یہ ہے کہ دونوں جمہوریت دشمن ہیں۔ ہمارے جرنیل جمہوریت کو اُس وقت بحال کرتے ہیں جب امریکہ کا دبائو آتا ہے۔ لیکن امریکی دبائو کے باوجود جرنیل کبھی بھی جمہوریت کو حقیقی نہیں بننے دیتے۔ وہ سیاست دانوں کو اپنا آلۂ کار بناتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ انتخابات سے من مانے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ میاں صاحب کا جمہوریت سے یہ تعلق ہے کہ انہوں نے آج تک اپنی جماعت میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ نواز لیگ میاں نوازشریف کی ایک لونڈی کے سوا کچھ نہیں۔ پارٹی میں کسی رہنما کی یہ جرأت نہیں کہ وہ میاں صاحب سے اختلاف کرسکے۔ میر تقی میرؔ کے شعر
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
کے مصداق میاں صاحب پوری پارٹی پر چھائے ہوئے ہیں اور پارٹی میں اُن کی رائے کے سوا کسی کی رائے مستند نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اور میاں صاحب اس لیے بھی ایک دوسرے کے جڑواں بھائی ہیں کہ دونوں کی طاقت کا مرکز پنجاب ہے۔ جرنیلوں کی سیاست بھی پنجاب مرکز ہے اور میاں صاحب کی سیاست بھی پنجاب مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میاں نوازشریف کو ’’ہینڈل‘‘ نہیں کر پارہی۔ میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ کسی دوسرے صوبے کا آدمی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ چار دن میں اس کا کچومر نکال دیتی۔ مگر جیسا کہ خورشید ندیم کہتے ہیں میاں صاحب پنجاب کی عصبیت کی علامت ہیں، چنانچہ جرنیل ان کا کچھ بھی بگاڑنے میں ناکام ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ اور میاں صاحب دونوں کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دونوں سعودی عرب کے زیر اثر ہیں۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جو میاں صاحب کو جنرل پرویز کے چنگل سے نکال کر لے گیا تھا۔ سعودی عرب نہ ہوتا تو
(باقی صفحہ 41پر)
جنرل پرویز ہرگز میاں صاحب کو ملک سے فرار نہ ہونے دیتے۔ یہ امر بھی راز نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور میاں صاحب دونوں طبقاتی سوچ کے ترجمان ہیں۔ جرنیلوں کے لیے فوج ایک ’’قومیت‘‘ ہے، اور ان کے لیے اس قومیت کی بالادستی ہی سب کچھ ہے۔ دوسری طرف میاں صاحب پنجاب کے غلبے کی علامت ہیں۔ ان کی سیاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتی ہے۔یہ حقیقت عیاں ہے کہ جرنیلوں کے لیے پاکستان ایک لمیٹڈ کمپنی ہے۔ وہ اسے ایک ملک کی طرح نہیں بلکہ ایک لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں۔ میاں صاحب کے لیے بھی پاکستان ایک لمیٹڈ کمپنی ہے۔ جب تک میاں صاحب زندہ ہیں وہ اس لمیٹڈ کمپنی کے مالک ہیں۔ وہ نہیں ہوں گے تو ان کی بیٹی اس لمیٹڈ کمپنی کو چلانے کی کوشش کرے گی۔ وہ بھی نہیں ہوگی تو میاں صاحب کے بھائی یا بھتیجا لمیٹڈ کمپنی کے معاملات دیکھے گا۔