’’طوافِ عشق‘‘

’’طوافِ عشق‘‘

عبدالصمدتاجیؔ

کتاب
:
طوافِ عشق
مصنف
:
شاہنواز فاروقی
صفحات
:
270 قیمت:500 روپے
ناشر
:
گیلانی پبلشر۔ 2/26 نوشین چیمبرز۔ نیو اردو بازار کراچی
ملنے کا پتا
:
بیت السلام پبلشر، نزد مقدس مسجد اردو بازار کراچی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
رابطہ: 0321-381719
ای میل
:
baitussalam_pk@ yahoo.com
پروفیسر خیال آفاقی ’’حدِ ادب‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’برصغیر میں فرنگی استعماریت کے بعد یکسر بدلتے ہوئے حالات میں، حالی نے شاعری کو ایک نیا رخ دیا، برسوں پرانی فرسودہ روایات کو ایک طرف رکھ کر، شاعری کو ایک بامقصد اور مفید چیز کے طور پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ قومی شاعری کی ابتدا حالی کا ایک بڑا انقلابی کارنامہ ہے۔ اس ضمن میں اکبر الٰہ آبادی ایک اہم اور نمایاں نام سامنے آتا ہے۔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب کی یلغار کو روکنے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا دفاع کرنے میں جو منفرد اور جرات مندانہ کردار ادا کیا، وہ ایک طرف تو برصغیر کی سیاسی تاریخ کا دیباچہ کہلایا، دوسری طرف وہ شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے اور اخلاقی شاعری میں ایک نئی طرح ڈالنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ایک نیا اسلوب اپنایا جو ان کا اپنا تھا، اور وہ زبان استعمال کی جو ایک مُردہ، خشک مزاج اور بے حس آدمی کو بھی اپنی طرف متوجہ اور متاثر کرنے کی سحر انگیز صلاحیت رکھتی ہے۔ مزاح کے پردے میں نہایت ہی سنجیدہ کام کی باتیں اپنی قوم، خصوصاً نوجوان طبقے کے گوش گزار کیں، اور ان خطرات سے آگاہ کیا جو ان کی قومی حمیت اور ملی شناخت کو مٹانے کے لیے منہ پھاڑے چلے آرہے تھے۔
اکبر کے ساتھ اقبال۔۔۔ اقبال نے تو شاعری کے سارے عیب ہی دھو ڈالے، دامنِ سخن کو اسلامی فکر و فلسفہ سے بھر دیا۔ تازہ بہ تازہ، نوع بہ نوع خیالات و نظریات سے مالامال کردیا۔ انہوں نے شاعری کو ذریعہ ابلاغ بناکر قوم کے مردِ بیمار میں روحِ تازہ پھونکی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے صحت یاب ہوکر خود کو دنیا سے ایک زندہ قوم تسلیم کرا لیا۔
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
ادب قوموں کا ترجمان اور ان کی پہچان ہوتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کی کوئی تخصیص اور انفرادیت نہ ہو؟ مثلاً پاکستان ایک ایسی مملکت ہے جو دیگر ملکوں سے منفرد ہے۔ اس میں بسنے والی قوم کے آبا و اجداد نے ایک عظیم تحریک چلا کر اور بے مثال قربانیاںدے کر، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا۔ اس کی اپنی زبان اور اپنا لباس ہے، یہ ایک مخصوص تہذیب اور ثقافت کی حامل ہے۔ پھر کیا اس کے ادب کو بے نام و نشان رہنے دیا جائے گا؟
قیام پاکستان کے پہلے روز ہی یہ طے کرلینا چاہیے تھا کہ اب ہم فنونِ لطیفہ کو بھی جس میں ادب اساسی حیثیت رکھتا ہے، پاک رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں گے۔ اس ضرورت کو یقیناً اُس وقت کے کچھ دانش وروں اور اہلِ قلم نے محسوس کیا ہوگا، گو ان کی تعداد کم رہی ہو، تاہم پروفیسر حسن عسکری جیسے خالص پاکستانی اہلِ فکر کی نمایاں مثال بھی ملتی ہے، جنہوں نے پاکستانی ادب کے تصور اور ضرورت پر زور دیا اور اس کے حق میں آواز اٹھائی، لیکن بعد کے حالات نے تو سب کچھ ہی تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ قربانیاں دینے والے اپنی اپنی جنت میں جا سوئے اور شداد اپنی اپنی ارم تعمیر کرنے میں لگ گئے، بے وفائی کی پت جھڑ شروع ہوگئی۔ شہیدوں کے خون سے بے وفائی، نظریہ پاکستان سے بے وفائی، اپنی قربانی اور ثقافت سے بے وفائی، قائد اور اُن کے اصولوں سے بے وفائی۔۔۔ ہر شعبے میں پاکستان سے باہر کی چیزیں ’’امپورٹ‘‘اور ’’اسمگل‘‘ کی جانے لگیں، زبان، تہذیب، نظریات۔۔۔ تو پھر ادب کیوں کر اس آلودگی سے محفوظ رہ سکتا تھا! لکھنے والوں کے ٹولے نے اس نئے وطن کو اس کے مزاج کے مطابق کچھ دینے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں اس کو ناکام بنانے اور بدنام کرنے میں خرچ کردیں۔
اس صورتِ حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ دوسرے لکھنے والے بھی بغیر سوچے سمجھے اول فول بکنے لگے، اور یوں ادب جو پاکستان کے لیے تقویت کا باعث ہوتا، کنفیوژن پھیلانے کی فیکٹری بن گیا۔ لہٰذا یہ امید اور توقعات پوری نہ ہوسکیں کہ ادب کے شعبے میں وطنیت اور پاکستانیت کا رنگ پرچم بن کر لہرائے گا۔ پروفیسر حسن عسکری کے بعد سلیم احمد نے اس پرچم کو سنبھالا اور پاکستانی اور اسلامی ادب کے فروغ کے لیے اپنی سی کوششیں کیں۔‘‘
شاہنواز فاروقی صاحب کی تحریریں، پہلی شعری حکایت ’’کتابِ دل‘‘، تازہ مجموعہ ’’طوافِ عشق‘‘ اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ حالات کی نبض پر اُن کا ہاتھ ہے۔
لطف آئے گا کہاں روح کی سرشاری میں
عمر گزری ہے محبت کی اداکاری میں
جتنے در بند ہیں کھل جائیں گے رفتہ رفتہ
خواب تھوڑا سا ملا لیجیے بیداری میں
نیند کے خواب کی توقیر بڑھانے کے لیے
پھر اُسی خواب کو دیکھو کبھی بیداری میں
میری مٹھی میں نیا عہد ہے پیارے لیکن
صَرف ہونا ہے ابھی مجھے خواری میں
جانے کس بات سے یہ بادِ صبا نے جانا
ہم ہی بولیں گے بگولے کی طرفداری میں
شاہنواز صاحب کی کوئی تحریر دیکھ لیجیے، کالم دیکھ لیجیے، آپ کو ہر جگہ یہی طرفداری دکھائی دے گی۔ یہ دردصرف ان کے ہاں ہی نہیں بلکہ اس عہد کے چند اور دانشوروں کے ہاں بھی ہمیں ملتا ہے۔ دو دہائی قبل مولانا انجم فوقی نے کہا تھا:
آج سے عشق کی تاریخ بدل جائے گی
آئینہ لائو، مجھے دیکھ رہا ہے کوئی
بلاشبہ ’’طوافِ عشق‘‘ اپنے عہد کی سچی تاریخ ہے۔ یہ جہاں حکایت ِ دل ہے وہیں حکایتِ دوران بھی ہے۔ یہ ردیف قافیہ کی رسمی شاعری نہیں بلکہ ان کے اندر کا وہ کرب ہے جو ہر صاحب ِ دل محسوس کرسکتا ہے۔ ’’طوافِ عشق‘‘ میں آپ بھی ان سے مل سکتے ہیں۔
خود سے ہی اپنا حال کہتا ہوں
گاہِ روتا ہوں، گاہِ ہنستا ہوں
میری مشکل عجیب مشکل ہے
میں ہمیشہ سے اپنے جیسا ہوں
اک تبسم خرید لیتا ہے
میں ہمیشہ سے اتنا سستا ہوں
بات کرتی ہے کس لیے دیوار
میں اکیلا نہیں ہوں، تنہا ہوں
وقت کا بھی جہاں گزر نہ ہوا
ایسی ویرانیوں کا قصہ ہوں
وہ جو گریہ تھا ہو چکا رخصت
اب تو بس چیختا ہوں، روتا ہوں
عمر ساری گزر گئی، لیکن
اب بھی میں خواب دیکھ سکتا ہوں
وہ سمجھتا ہے پانچ چھ باتیں
میں بس ایک بات کہتا ہوں
مجھ سے کہنے لگا سمجھ مجھ کو
میں محبت کے جتنا گہرا ہوں
شاہنواز صاحب کے پہلے شعری مجموعہ ’’کتابِ دل‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے محترم احمد جاوید کہتے ہیں: ’’میرے استاد، میرے مربی سلیم احمد صاحب فرماتے تھے کہ اب تین چیزیں ہی شاعری کے pillars کی حیثیت سے باقی رہیں گی یا اب شاعری کا ایوان تین ستونوں پر قائم رہے گا۔ ایک تو یہ کہ شاعری کو رجز بنا لو (ضربِ کلیم کی طرح)، یا شاعری نوحہ ہوگی یا شاعری رقصِ مجذوب ہوگی۔ سلیم احمد کہا کرتے تھے کہ اب شاعری ان تین ہی زاویوں سے اپنے وجود کی بقا کا جواز بیان کرے گی، اور ہر وہ شعری کاوش جو ان تینوں میں سے کسی وصف پر بھی پوری نہ اترے وہ اپنے باقی رہنے کا جواز کھو دے گی۔
مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس کتاب میں تینوں اجزا شامل ہیں، اور اپنی ابتدائی ہیت رکھنے کے باوجود وہ اجزا لگتا ہے کہ زندہ بھی ہیں اور نمو پذیر بھی، اور اِن شاء اللہ مزید نمو پکڑیں گے۔
دس گیارہ سال قبل کی گئی اس گفتگو کے تناظر میں ’’طوافِ عشق‘‘ دیکھیے۔
اتنی بات سمجھ لے پیارے عشق ابد تک جائے گا
آخر آخر عشق کا لمحہ ایک صدی کہلائے گا
شام ڈھلے گی، شمع جلے گی، دھوم مچے گی محفل میں
ایک پتنگا رقص کرے گا اور فنا ہو جائے گا
رات کی رانی کی خوشبو نے وصل پہ ایسا گیت لکھا
جو اپنی تاثیر سے اکثر ہجر میں بھی کام آئے گا
……٭٭٭……
رات کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں چاند کے رُخ پر اجالا تھا
ایسے میں اک آنکھ نے اٹھ کر خواب میں ڈاکا ڈالا تھا
ذہن کے اندر ناچ رہے تھے لفظ کئی گونگے بہرے
بات کی رنگت دن جیسی تھی بات کا مطلب کالا تھا
ناچ رہی تھی چھم چھم چھم چھم بوند کسی انگارے پر
وقت نے اس کا بخت لکھا تھا خوف نے اس کو پالا تھا
یاس کی رانی پوچھ رہی تھی نام و نسب امیدوں سے
بات نئی تھی پھر بھی جیسے منظر دیکھا بھالا تھا
……٭٭٭……
سب نے اُس کو بھی دل کہا ہو گا
وہ جو دنیا پہ آ گیا ہو گا
اُس کو دیکھا تو یہ ہوا معلوم
آئنہ کسے لیے بنا ہو گا
جانور بھی نہیں رہے گا وہ
آدمی اس قدر نیا ہو گا
یہ محبت کا قرض ہے پیارے
یہ محبت سے ہی ادا ہو گا
دُور تک کوئی دیکھتا ہی نہیں
دُور کا اب نہ جانے کیا ہو گا
میری آنکھیں بنیں گی تب آنکھیں
جب مرے سامنے خدا ہو گا
بند آنکھوں سے بھی نظر آیا
اب محبت میں اور کیا ہو گا
جز اس کے شاعری میں دعویٰ نہیں ہے کوئی
میں نے بھی زیست کی ہے، میں نے بھی کچھ کہا ہے
’’طوافِ عشق‘‘ پڑھیے اور پڑھتے چلے جائیے، کیونکہ
’’یہ شاعری تو نہیں، یہ تو دل کا قصہ ہے‘‘
سچی بات یہ ہے کہ خوش ذوق قارئین کے ساتھ ’’طوافِ عشق‘‘ نئے لکھنے والوں کو بھی دعوتِ فکر دیتی ہے۔ تعمیری، بامقصد شاعری میں اپنا مقام بنانے کے لیے یہ نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔