کتاب
:
تاریخ ادبِ اردو جلد اوّل
(قدیم دور) آغاز سے 1750ء تک
مصنف
:
ڈاکٹر جمیل جالبی
صفحات
:
678 قیمت:700 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلس ترقی ادب
2، کلب روڈ لاہور
فون
:
042-99200856,99200852
ای میل
:
majlista2014 @ gmail.com
ویب گاہ
:
www.mtalahore.com
یہ اس عظیم کتاب کا دسواں ایڈیشن مشینی کمپیوٹر کمپوزنگ میں شائع ہوا ہے جس پر ڈاکٹر تحسین فراقی تمام اہلِ علم و ادب کے شکریے کے مستحق ہیں۔ اس سے قبل ہم جلد دوم اور سوم کا تعارف فرائیڈے اسپیشل میں کراچکے ہیں۔ اب جلد اوّل اور جلد چہارم زیر تبصرہ ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی مرحوم تحریر فرماتے ہیں:
’’میرا یہ کام، جسے میں نے ’’تاریخِ ادبِ اُردو‘‘ کا نام دیا ہے، چار جلدوں میں ہے۔ اس کی پہلی جلد آپ کے سامنے ہے جو آغاز سے لے کر تقریباً 1750ء تک، قدیم اُردو ادب و زبان کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ جلد اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور دوسری جلد سے مربوط و پیوستہ بھی۔ واضح رہے کہ یہ جدید انداز کی مربوط تاریخ ہے۔ متفرق مقالات کا مجموعہ یا تذکرہ نہیں ہے۔ جدید ادب کی طرح، قدیم ادب بھی مخصوص تہذیبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی و لسانی عوامل کا منطقی نتیجہ تھا۔ اسی لیے اس کا مطالعہ بھی تہذیبی و معاشرتی عوامل کی روشنی میں ویسے ہی کیا جانا چاہیے جیسے آج ہم جدید ادب کا کرتے ہیں۔ ادب کی تاریخ ایک ایسی اِکائی ہے جسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ خود جدید ادب کو سمجھنے کے لیے قدیم ادب کا سمجھنا ضروری ہے۔ ادب کی تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زبان اور اُس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں کی اجتماعی و تہذیبی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ادب میں سارے فکری، تہذیبی، سیاسی، معاشرتی اور لسانی عوامل ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ایک وحدت، ایک اکائی بناتے ہیں اور تاریخِ ادب ان سارے اثرات، روایات، محرکات اور خیالات و رجحانات کا آئینہ ہوتی ہے۔ میں نے اِسی شعور اور نقطہ نظر سے قدیم ادب کا مطالعہ کیا ہے۔
اب تک جتنی ادبی تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں مختلف علاقوں کا قدیم اُردو ادب الگ الگ اِکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا یہ سب الگ الگ جزیرے ہیں جن کے ادب و زبان کے مطالعے کا مجموعی نام تاریخِ ادب رکھ دیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ گجرات، دکن اور شمال کا ادب الگ الگ جزیروں کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک کا تعلق دوسرے سے کچھ نہیں ہے۔ جب میں نے قدیم ادب کا براہِ راست مطالعہ کیا تو اثرات و روایات کا ایک ایسا سلسلہ نظر آیا جو ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست تھا۔ یہ تحقیق کی ایک نئی صورت تھی۔ اس اندازِ نظر نے اس تصنیف کو وہ صورت عطا کی جو آپ کے سامنے ہے۔ اس میں مطالعہ، تحقیق، فکر اور طرزِ ادا سب مل کر ایک ہوگئے ہیں۔
تاریخِ ادب ادارے لکھتے ہیں جن کے پاس سرمایہ ہوتا ہے، جنہیں ہر قسم کی سہولت میسر ہوتی ہے، جن کے پاس اپنا کتب خانہ ہوتا ہے اور دوسرے کتب خانوں سے وہ قلمی و مطبوعہ کتب مستعار لے سکتے ہیں۔ مددگاروں کی ایک جماعت اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ وہاں صدر ہوتے ہیں، سیکرٹری ہوتے ہیں، مشاہیرِ علم و ادب کام کرتے ہیں، اور کہیں برسوں میں جا کر یہ منصوبہ پورا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اس قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ دن بھر گردشِ روزگار اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مشقت کی چکی… نہ کوئی مددگار، نہ کوئی ساتھی۔ ایک ایک کتاب کے لیے مختلف کتب خانوں کے چکر کاٹنے پڑے۔ آتشی شیشے کی مدد سے مخطوطات پڑھ پڑھ کر آنکھوں پر موٹا چشمہ چڑھ گیا۔ بہرحال یہ کام، جیسا کچھ ہے، ایک فرد کا کام ہے جس نے اسے اپنی اَپج سے کیا ہے۔ اس میں کسی کی فرمائش، مدد یا سرپرستی شامل نہیں ہے۔ میرے جنون اور علم و ادب کے عشق نے، ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز کرکے یہ جوئے شیر مجھ سے ہنسی خوشی کھدوائی ہے۔ یہ کام کرکے میں نے خوشیاں حاصل کی ہیں اور یہی میرا صلہ ہے۔ یہ تاریخِ ادب میری اپنی روح کا سفر ہے جسے میں نے برعظیم کی تہذیبی روح کی تلاش میں کیا ہے۔ سفر جاری ہے اور میری منزل ابھی دور ہے۔
اِس جلد کا خاکہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ ساری تصنیف کو، ترتیب زمانی سے، چھے فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر فصل کے تحت مختلف ابواب آتے ہیں۔ ہر فصل کا پہلا باب پورے دور کی تمہید کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اس دور کی تہذیبی، معاشرتی اور ادبی و لسانی خصوصیات کو اُجاگر کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کے سامنے اس دور کی واضح تصویر آجائے۔ اس تمہیدی باب کی روشنی میں، ترتیبِ زمانی سے، اس دور کے ممتاز و نمائندہ شاعروں اور ادیبوں کے ذہن و اثرات اور ان کی تخلیقی کاوشوں کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے۔ چونکہ ہر دور کی نظم و نثر ایک ہی طرزِ احساس کا اظہار کرتی ہیں، اس لیے دوسری تاریخوں کے برخلاف ان کا مطالعہ بھی ایک ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ ہر شاعر و ادیب کو اس کی تاریخی و ادبی حیثیت کے مطابق صفحات دیے گئے ہیں۔ قدیم دور کے ادب کا مطالعہ اس لیے اور بھی دشوار تھا کہ اُس دور کا بیشتر سرمایہ مخطوطات پر مشتمل ہے جن کے حوالے حواشی میں دیے گئے ہیں۔ یہی عمل مطبوعہ کتب کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ’’اختتامیہ‘‘ میں اختصار کے ساتھ روایت کے اُتار چڑھائو کی داستان کو بیان کردیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اردو زبان کے عالمگیر رواج کی منطقی وجوہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں ضمیمے کے تحت ’’پاکستان میں اُردو‘‘ کو موضوع بنا کر پاکستان کے چاروں صوبوں میں اردو کے گہرے تعلق اور قدیم روایت کا سراغ لگایا گیا ہے۔ لکھتے وقت میں نے ’’اسلوبِ بیان‘‘ کو خاص اہمیت دی ہے۔ دورانِ مطالعہ آپ محسوس کریں گے کہ میں نے ایک ایسا اسلوب دریافت کیا ہے جو ادب کی فکری، تنقیدی و تہذیبی تاریخ کے لیے شاید نہایت موزوں ہے‘‘۔
کتاب درج ذیل تحقیقات پر مشتمل ہے:
تمہید: اردو زبان اور اُس کے پھیلنے کے اسباب
فصل اوّل: شمالی ہند (1050ء، 1707ء)
فصل دوم: گُجری ادب اور اُس کی روایت (1050ء، 1707ء)
فصل سوم: اُردو بہمنی دور میں (1350ء، 1525ء)
فصل چہارم: عادل شاہی دَور (1490ء، 1685ء)
فصل پنجم: قطب شاہی دَور (1518ء، 1686ء)
فصل ششم: فارسی روایت کا نیا عروج: ریختہ (1685ء، 1750ء)
ضمیمے: پاکستان میں اردو، پنجاب اور اردو، سندھ میں اردو، لسانی اشتراک (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی)
سرحد میں اردو روایت،بلوچستان کی اردو روایت
اشاریہ: کتب،اشخاص،مقامات،موضوعات
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، یہ کتاب بلکہ مجلس کی تمام کتب محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب کے علم و ادب پرور اربابِ اختیار کے تعاون سے شائع ہوئیں۔