پروفیسر خورشید گوہر صدیقی (میرے ابا جی)

کس قدر غمناک ہے یہ سانحہ
جرعہ جرعہ زہرِ غم کو پیجیے
حضرت خورشید گوہر کی موت پر
لفظ اور معنی کو پرسہ دیجیے
آہ! بالآخر والد گرامی 22 مارچ 2021ء کی صبح کو چل بسے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ زندگی کی مشکلات کا جو سفر 13 سال کی عمر میں ہجرت اور سکھوں کے ہاتھوں اپنے والد کی شہادت سے شروع ہوا، نہایت فرماں بردار اور نیک بیوی کی اچانک موت، چھوٹے چھوٹے پانچ بچوں کی ماں کے مرنے سے گزرتا ہوا، دو بیویوں کی اولادوں میں انصاف اور محبتیں بانٹتا، ایک طویل بیماری کاٹ کر اپنے انجام تک پہنچ گیا۔ کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔
میری یادوں کی سرائے میں والد صاحب کی زندگی کا وہ حصہ ہے جب ابھی میں نے اپنے گھر کا رخ نہیں کیا تھا۔ ابا جی کو جماعت کے لیے بے تحاشا سفر کرتے، گھر میں اپنے مہمانوں کی تواضع کرتے، ان کے لیے بہترین اور اعلیٰ درجے کے کھانے پکواتے، ان سے طویل گفتگو کرتے یا پھر بچوں کو رات کو نظمیں پڑھاتے دیکھا۔ کبھی کبھار قرآن کی آیات یا سورتوں پر ڈسکشن ہوجاتی۔ اگرچہ ذہن پر اس کی حقیقت تو پوری طرح نہ کھلتی مگر ایک جذباتی سا لگائو بہرحال بن گیا جو ساری زندگی پھر شعوری قوت بن کر حفاظت کرتا رہا، اور اسی نظریے سے چمٹاتا رہا جو والد صاحب بے شعوری کی عمر میں دل میں اتار چکے تھے۔
والد صاحب ہجرت کے بعد بے یارومددگار شاہ جیونہ کے ریلوے اسٹیشن پر اپنی بیوہ ماں اور دو یتیم بہنوں کے ساتھ اترے، اور آج اس شان سے جنازہ اٹھا ہے کہ جدی پشتی نوابیت کے مارگزیدہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اصل میں انہوں نے زندگی کی مشکلات کا حوصلے سے مقابلہ کیا۔ کسی بھی مشکل کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہ بننے دیا۔ سید مودودیؒ کی دعوت کو سمجھا، قبول کیا اور پھر اس طرح اسے سینے سے لگایا کہ چلتے پھرتے اس کا نمونہ بن گئے۔ آج ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر سینہ سوگوار ہے۔ جس سے کبھی ملے اتنی توجہ اور محبت سے ملے کہ اسے ہمیشہ یہ ملاقات یاد رہی۔ دوسروں کو حوصلہ ہارنے نہ دیتے۔ ایک پاور ہائوس کی طرح دوسروں کو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے۔ زندگی کی مشکلات کو چیلنج سمجھا اور یہی آرزو رہی کہ دوسرے بھی اس رویّے کو اختیار کریں۔
لقد خلقنا الانسان فی کبد (البد)
’’ہم نے انسان کو مشقت ہی کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔
مشقت کا دوسرا نام مشکل حالات یا چیلنج ہے جو زیادہ تر لوگوں کو ساری عمر گلے شکوے اور ایک ہاری ہوئی زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ ابا جی اس رویّے سے شدید نفرت کرتے۔ ہمیں بچپن میں اپنی ماں کی جدائی پر کبھی غم زدہ نہ ہونے دیتے۔ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ اور والدِ ماجد دونوں کو لے گیا اور کتنی مشکل زندگی گزروائی۔ بڑے آدمیوں کی زندگی بہادری اور حوصلے سے لبریز ہوتی ہے۔ انہیں رونے، آنسو بہانے اور گلے کرکے زندگی گزارنے سے سخت نفرت تھی۔
زندگی کا جو مشن جماعت اسلامی میں شمولیت کے ذریعے اپنایا، اسے تاحیات نبھایا۔ کھانا کھلانے اور خود اچھا کھانے کا بے حد شوق تھا۔ خاندان کی ماہانہ دعوت ہوتی، ہمسایوں کو ساتھ ملاکر کھانا پکاتے اور کھلاتے۔ اسکول کے اسٹاف کو ماہانہ دیگیں پکوا کر کھانا کھلاتے اور سال کے بارہ ماہ میں تیرہ تنخواہیں دیتے۔ دونوں عیدین پر ہر ملازم کو ایک تنخواہ کا نصف عیدی کے طور پر بانٹتے جاتے۔ اسکول کے اساتذہ ابا جی سے شدید محبت کرتے اور اسکول کے بچوں کو سخت محنت اور توجہ سے پڑھاتے۔ ادارہ غزالی نے دو مرتبہ حکومتِ پاکستان سے صدارتی ایوارڈ وصول کیا۔
سید مودودیؒ کی دعوت پر تعلیم کے شعبے میں اسلامائزیشن پر کام کیا۔ 1950ء میں تعلیمی ادارے بنانے شروع کیے۔ جماعت اسلامی کی مرکزی تعلیمی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ مل کر تنظیم اساتذہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ پورے ملک کے دورے کیے، دیر اور چترال تک پہنچے اور تنظیم کی رکن سازی کی اور نظم قائم کیے۔ اس دوران اتنی مؤثر تقاریر کیں کہ احباب اب تک ان کے جملے اور موضوعات کا تنوع یاد کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ رحمٰن کے اوصاف تو آپ نے سنے ہوں گے، آج ہم شیطان کے اوصاف پر گفتگو کریں گے۔ صاحب لوگ اسے تفننِ طبع سمجھتے مگر جب گفتگو کا سلسلہ شروع کرتے تو قرآن و سنت سے کسی بھی اچھوتے موضوع پر دلائل کے انبار لگا دیتے۔ دل کی بیماریاں اور قرآن سے اس کا علاج ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔
1990ء اور 1995ء کے دوران جماعت اسلامی نے شعبۂ اسلامی نظامتِ تعلیم کی بنیاد رکھی۔ یاد رہے کہ یہ وہی شعبہ ہے جو اس وقت ’آفاق‘ کے نام سے برگ و بار لے آیا ہے۔ ابا جی نے نجی اسکولوں کے اساتذہ کی تربیت اور نصاب سازی کے لیے آفاق جیسا ادارہ قائم کیا اور سرکاری شعبۂ تعلیم کے اساتذہ کے لیے تنظیم اساتذہ پاکستان کی بنیاد رکھی، الحمدللہ۔ اپنے کسی کام کا ذکر نہ کرتے۔
بہت سی معلومات ہمیں خود ان کے جانے کے بعد حاصل ہوئیں۔ صرف اللہ سے اجر کی امید رکھتے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے نام سے پورے ملک میں غریب طلبہ و طالبات کے لیے برائے نام فیس والا ادارہ قائم کیا۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے لیے امریکہ اور کویت کے دورے کیے اور صرف پانچ سو ڈالر فی اسکول کے عوض پورے ملک میں دو سو اسکولوں کی رقم لے کر لوٹے، اور پورے ملک میں غزالی ٹرسٹ کا جال بچھا دیا۔ ابا جی نے 1963ء میں ادارہ غزالی کی بنیاد رکھی اور خود اپنے لگائے ہوئے پودے کے ذریعے 64 سال تک تعلیم سے وابستہ رہے اور کم و بیش 80 ہزار گریجویٹ تیار کیے۔
بحیثیت استاد کچھ نمایاں اوصاف تھے۔ شاگردوں سے محبت کرتے اور ان پر فخر کرتے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول میں نویں جماعت کے استاد مقرر ہوئے، وہاں کے اساتذہ سے بچوں کی تعلیم سے عدم دلچسپی کے قصے سنتے رہے۔ فرمانے لگے: چار سیکشن ہیں، آپ ایک نیا سیکشن بنادیں جس میں چاروں سیکشنز میں سے آپ جنہیں نالائق سمجھتے ہیں انہیں نکال کر مجھے دے دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ان بچوں کو اتنی محبت اور ذاتی توجہ سے پڑھایا کہ نتیجہ سو فیصد آیا اور تین بچوں کی متحدہ پاکستان میں ملکی سطح پر پوزیشن آئیں۔ انہیں استاد ہونے پر فخر تھا، فرماتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے کئی زندگیاں دے اور پوچھے کیا کیا بننا چاہتے ہو تو میں ہر بار کہوں گا استاد۔ معاشرے کے ہزاروں قابلِ ذکر افراد اباجی کے شاگرد رہے اور بچپن کی نہایت پختہ بنیاد کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شامل ہوئے۔
جھنگ کی دھرتی اباجی کے احسانات سے کبھی سبکدوش نہ ہوسکے گی۔ 1978ء میں ذاتی دلچسپی لے کر اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی اور محکمہ اوقاف سے آٹھ کنال (ایک ایکڑ) زمین وقف کروالی۔ جھنگ کا مشہورِ عام جامعہ معارف اسلامیہ اسی میں قائم ہے۔ ہزاروں طلبہ اور طالبات درسِ نظامی سے فارغ ہوئے۔ اس کے علاوہ یہ جماعت اسلامی کی تمام سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
ابا جی کا اللہ تعالیٰ سے تعلق غیر معمولی تھا، کوئی بھی مشکل یا پریشانی آتی تو کہتے کہ میں اپنے دوست سے مشورہ کرنے چلا ہوں۔ ایک مرتبہ ہماری چھوٹی بہن منزہ صدیقی ڈلیوری آپریشن کے دوران کسی وجہ سے شدید آزمائش میں آگئیں۔ سبھی کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ وینٹی لیٹر پر چلی گئیں، مگر ابا جی نے اس دن آرام سے دوپہر کا کھانا کھایا، آرام کیا، اور اسی اللہ توکل اور بھروسے کا یہ نتیجہ نکلا کہ شام تک طبیعت سنبھل گئی۔ جب کچھ دن گزرے تو کہنے لگے: میں اپنے بچوں کی وجہ سے سخت پریشان ہوں، ان میں تو اللہ پر توکل کی بہت کمی ہے۔ اور ہم سب سوچنے لگے کہ اباجی نے کتنی گہری بات کردی۔ ہماری والدہ محترمہ کی کینسر سے وفات ہوئی، جب وفات کا وقت قریب آیا تو طاہرہ مرحومہ رونے لگیں۔ ابا جی نے کہاکہ کیوں روتی ہو؟ کہنے لگیں: گوہر صاحب بچوں کے لیے رونا آگیا۔ فرمایا: کیا تم پالنے والی ہو؟ اللہ اپنے محبوب نبیؐ کے ماں باپ دونوں لے گیا۔ کہنے لگیں کہ میں ان کی تربیت کے لیے فکرمند ہوں کہ کون کرے گا۔ ابا جی نے کہا: پاگل، کیا تم کو تربیت کرنی تھی؟ تربیت تو اللہ کرتا ہے۔ فرمانے لگے کہ اس کے بعد طاہرہ پُرسکون ہوگئیں اور کہنے لگیں مجھے قرآن سنائیں۔ اس واقعے کے دوسرے روز اُن کا انتقال ہوگیا۔ یہ تھا ان کا اللہ سے تعلق۔ نہایت منظم زندگی گزاری ہے۔ گھڑی کو دیکھیں یا ابا جی کو، بات ایک ہی تھی۔ صبح سیر کا معمول تھا۔ مسجد میں نماز فجر کے بعد درسِ قرآن اور پھر سیر پارٹی۔ اپنے ساتھیوں کو سیر کے بعد معمولاً ناشتا جوکہ باری باری سب فریق اپنے اپنے گھروں میں کراتے تھے۔ ہمیں اس ذریعے سے مہمانوں کو خوش دلی سے کھانا کھلانے کی تربیت بھی ملتی اور لوگوں سے ڈیل کرنے کی عادت بھی۔ خوش خوراک تھے، مگر کم کھاتے تھے۔ کھانے کے اوقات مقرر تھے۔ دوپہر میں سونے کا معمول تھا۔ شام کی چائے کے بعد گویا ایک اگلا دن نمودار ہوجاتا۔ مطالعے کے بے حد شوقین تھے اور ہم سب کو بھی مطالعے کا چسکا انہی سے پڑا۔ وسیع لائبریری گھر میں موجود تھی۔ ابا جی کی سلیکشن میں جدید ترین اور قدیم ترین سب کتب شامل تھیں۔ سیرت النبیؐ پر اتنا ذخیرہ شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔ اس کے علاوہ کلاسیکل انگریزی اور اردو ادب کے ناول، ڈرامے اور کتابیں سبھی ہمارے گھر میں ہوتیں۔ ابا جی کو رات کے وقت مطالعے میں ڈوبے دیکھا۔بچوں کی زبان پر گہری نظر ہوتی۔ لفظ اردو کا ہو، عربی کا ہو یا انگریزی کا… غلط بولے جانے پر فوراً ٹوک دیتے اور درستی کردیتے۔ ساتھ ہی اس لفظ یا محاورے کی پوری تاریخ بھی سننا پڑتی۔
ہماری دو مائیں ہیں، ایک تو ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وفات پاگئیں (طاہرہ بتول) 3 دسمبر 1971ء کو۔ اس کے بعد اباجی نے دوسری شادی کی۔ اس دوران دو سال ایسے بھی گزرے جب گھر میں ہماری بوڑھی دادی کے سوا کوئی نہ تھا۔ چنانچہ آٹا گوندھ کر روٹی پکاتے، ہمیں کھلاتے اور پھر پرنسپل والی شیروانی پہن کر کالج چلے جاتے۔ جون 1973ء میں دوسری شادی ہوئی۔ ہماری دوسری والدہ کا کہنا ہے کہ گوہر صاحب نے مجھے ہمیشہ کھلا خرچ دیا اور میرے میکے والوں کی عزت کی۔
یادوں کے جھروکے سے بے شمار کرنیں نمودار ہوکر ذہن کو روشن کررہی ہیں۔ ابا جی کی نمایاں خوبی انسانوں سے محبت اور اللہ کی شکر گزاری تھی۔ ایک بار جو اُن سے ملتا، گہرے نقوش لے کر جاتا۔ اپنی بات دلوں میں اتارنے کا فن جانتے تھے۔ گفتگو کسی بھی موضوع پر ہوتی، وہ ہمیشہ جانِ محفل ہوتے۔ غیر معمولی مطالعے کے علاوہ پیدائشی طور پر استاد تھے۔ بات دلوں میں اتارتے۔ لوگوں کو 20، 20 سال پرانی تقاریر یاد رہتی تھیں۔ الفاظ گویا ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے رہتے۔ سیرتِ رسولؐ کا موضوع ہو یا قرآن، اقبال فہمی کی مجلس ہو یا معاشرتی اور اخلاقی خوبیوں کا تذکرہ… موضوع پر گرفت ایسی ہوتی جیسے کوئی ماہر ڈرائیور رش سے گاڑی نکالنے کے لیے کٹ مارتا ہے۔
دولت کو ہاتھوں کا میل سمجھتے۔ دل کھول کر خرچ کرتے۔ تمام بیٹیوں کو میکے آنے پر شاپنگ کے لیے پیسے دیتے، عیدیاں بھیجتے۔ ہر نواسے، نواسی کا نام لکھ کر ان کے حصے بناکر بھیجتے۔ بچے عیدی کا انتظارکرتے اور بہت خوش ہوتے۔
ہنسی مذاق ہر مجلس میں جاری رہتا۔ مجلسی آداب سے خوب واقف تھے۔ مجالس کو زیادہ سنجیدہ اور بوجھل نہ ہونے دیتے۔ دورانِ گفتگو سنجیدہ باتیں بھی کرتے مگر مزاح اور بے تکلفی کا رنگ غالب رہتا۔
ہم جو دو مائوں کی اولاد تھے اُن کی کوشش اور خواہش ہوتی کہ اس فرق کو کم سے کم کیا جائے۔ آپس میں ہمیں جوڑے رکھا، عزت اور محبت سکھائی، یہ انہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ہم 12 بہن بھائی ہیں اور الحمدللہ ہمارے وہ بہن بھائی جو دوسری ماں سے ہیں وہ ایک دوسرے سے زیادہ ہمارا احترام کرتے ہیں۔ یہ اسی دین کا فیضان ہے جس کی وجہ سے ابا جی نے ہمیں ایسا بننے میں مدد دی۔
مہمان نوازی کی سخت تاکید کی جاتی۔کھانا پکانا بھی سکھایا اور پیش کرنا بھی۔ خوش دلی سے اچھے سے اچھا پیش کیا جاتا۔ بہوئوں کو بیٹیوں سے بڑھ کر رکھا جاتا۔ پوتے پوتیوں کو کلام اقبال، اور اردو شاعری سکھائی جاتی، فنِ تقریر سے آشنا کرایا جاتا۔ سب سے زیادہ جس موضوع پر تقاریر کیں، وہ تھا عشقِ رسولؐ اور صحابہؓ کا طرزِعمل۔ خود اتنا روتے کہ چہرہ آنسوئوں سے تر ہوجاتا اور مخاطبین کو بھی بہت رلاتے۔ عشقِ رسولؐ کے واقعات انہیں ازبر تھے۔ ان پاکیزہ ہستیوں سے اپنے ایمان کا موازنہ کرتے اور رقت طاری ہوجاتی۔
محلے والوں اور اڑوس پڑوس میں غریب گھرانوں کی خبر گیری کرتے۔ خود بھی مدد کرتے اور دوسرے لوگوں سے بھی مدد کرواتے۔ دل کھول کر پیسہ اللہ کے بندوں پر لٹایا۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے بڑی بڑی رقوم خرچ کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی بہترین میزبانی فرمائے، آمین
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے