دورِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی نے بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔ لوگ ایک رات میں بیٹھ کر نقل و چسپاں (Copy Paste)کا کام نہایت عمدگی سے سر انجام دیتے ہیں اور کتاب تیار۔ حیاتِ اقبال کے عنوان سے ایک کتاب پر منیر ابنِ رزمی کا تبصرہ بلکہ توصیفیہ نظر سے گزرا۔ اس پر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تبصرہ، اور ان کے جواب میں حیاتِ اقبال کے مصنف ریاض احمد چودھری کا جواب بھی پڑھا۔
یہ سب پڑھ کر کتاب پڑھنے کا شوق ہوا۔ حاصل کی اور پڑھی۔ خیر، کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے اور عمدہ کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔ جہاں تک متن کا تعلق ہے وہ بیشتر مختلف ویب سائٹس سے نقل کرکے چسپاں کیا گیا ہے۔ ذیل میں چند مثالیں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں جس کے ساتھ متعلقہ ویب سائٹ کا یو آر ایل (URL)بھی دیا جا رہا ہے تاکہ قارئین خود بھی ملاحظہ کرکے تصدیق کرلیں کہ کتاب سب چوری کا مال ہے۔
(1)
شیخ نور محمد کو ان کے خاندان میں میاں جی کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ نہایت وجیہ و شکیل بزرگ تھے۔ رنگ سرخ، داڑھی سفید، لباس سادہ۔ بہت کم گو تھے۔ نہایت متین، ذی عقل، سنجیدہ مزاج بزرگ تھے۔ شیخ نور محمد پڑھے لکھے نہ تھے لیکن شروع سے ہی اہل دین کی صحبت نے انہیں ایک نہایت ہی اچھا اور متقی انسان بنادیا، اور ان کی شخصیت میں تصوف کا نمایاں پہلو تھا۔ انہوں نے محنت، لگن اور خلوص سے روحانیت کی کئی منازل طے کی تھیں، شاید اسی وجہ سے لوگ انہیں اَن پڑھ فلسفی کا خطاب دیتے تھے۔ شیخ نور محمد ڈپٹی وزیر بلگرامی کے ہاں کپڑے سینے کی ملازمت کرتے تھے۔
لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انہوں نے یہ ملازمت ترک کردی اور اپنی گزر اوقات کے لیے کُرتے بنانا شروع کردیے۔ وہ خود بھی عام طور پر ململ کا کرتا پہنتے تھے۔ انہوں نے برقعوں کی ٹوپیاں بنانے کا کاروبار شروع کیا تھا جو بہت چمکا اور اس کاروبار نے اتنی ترقی کی کہ انہیں اس کام کے لیے ملازم رکھنے پڑے۔ شیخ نور محمد کے ہاں دو بیٹوں شیخ عطا محمد(1860ء) اور علامہ اقبال (1877ء) کی ولادت ہوئی۔ شیخ نور محمد صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے۔ انہوں نے تمام عمر سادگی سے بسر کی۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%8C%D8%AE_
%D9%86%D9%88%D8%B1_%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF
مندرجہ بالا عبارت ریاض احمد چودھری صاحب نے وکی پیڈیا سے نقل کرکے اپنی کتاب کے صفحہ 29 پر شامل کر لی ہے۔
(2)
شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی علما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ مولانا ابو عبداللہ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔ شیخ نُور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آنکلے۔ ایک بچّے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آرہی تھی۔ پوچھا کہ کس کا بچّہ ہے؟ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو۔ اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائے۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کردیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کردیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہوگئے، مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ اسکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن اُن عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا: پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نری کتاب خوانی کا نام نہیں۔ اس اچھے زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتا تھا۔ میرحسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ اس کے علاوہ ادبیات، معقولات، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میں بند ہوکر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ احساس بن جائے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر ازبر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سنا ڈالتے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8
%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84
مندرجہ بالا عبارت (نمبر 2 ) جوں کی توں ”حیاتِ اقبال“ کے صفحہ 31،32 پر موجود ہے۔
(3)
ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے، لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایتِ اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔
اگست 1908ء میں اقبال لاہور آ گئے۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش کی گئی، مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کرلی۔ البتہ بعد میں حکومتِ پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10 مئی 1910ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کردیا، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہوگیا۔
18 مارچ 1910ء کو حیدرآبار دکن کا سفر پیش آیا۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور مہاراجا سرکشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنا پڑی۔ مارچ کی تئیسویں کو حیدرآباد سے واپس آئے۔ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے میں اورنگ آباد اُتر گئے۔ دو دن وہاں ٹھیرے۔ 28 مارچ 1910ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے۔ اب معلمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ آخرکار 31 دسمبر 1910ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہوگئے، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب، علی گڑھ، الٰہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے۔ ان کے علاوہ بیت العلوم حیدرآباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ، الٰہ آباد اور ناگ پور وغیرہ بھی جانا ہوتا۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا، عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔
2مارچ 1910ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے۔ 1923ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہوکر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا۔ اس طرف سے اتنا اصرار ہوا کہ مروتاً استعفا واپس لے لیا۔ اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب ’’آئینہ عجم‘‘ مرتب کی جو 1927ء میں شائع ہوئی۔ غرض، پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1932ء تک متعلق رہے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9
%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%
D8%A7%D9%82%D8%A8%D8
%A7%D9%84
یہ عبارت نمبر3 لفظ بلفظ ریاض صاحب نے درج بالا ویب سائٹ سے چوری کی ہے۔دیکھیے: حیاتِ اقبال ص 44،45
(4)
پروفیسر ڈاکٹر پروین خان کا نوائے وقت میں چھپنے والا کالم درج ذیل ویب سائٹ سے نقل کرکے کتاب کے صفحہ 85 پر چسپاں کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ علامہ کی دوسری گول میز کانفرنس کے دوران قائداعظم سے گفت و شنید ہوئی۔ اس کا بھی کوئی مستند حوالہ موجود نہیں ہے۔
https://www.nawaiwaqt.com.pk
/25-Dec-2014/349460
یہی واقعہ کسی نے بد نامِ زمانہ سوشل میڈیا نیٹ ورک فیس بک پر بھی لگا دیا ہے جس کا لنک درج ذیل ہے:
https://www.facebook.com/apnamukam
/posts/866315846883202/
ہم نے صرف4 مثالیں بطور مشتے نمونہ از خروارے دی ہیں۔ ایسی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل کے شمارہ16 میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس کتاب میں درج عبدالمجید اتاشی والے واقعے کو بجا طور پر بے سند اور من گھڑت قرار دیا ہے۔یہ واقعہ فرحان احمد خان نے 5 دسمبر 2019ء کے اخبار 92 نیوز لاہور میں غلام بھیک نیرنگ کے نام سے شائع کیا ہے اور ندیم شفیق ملک کی کتاب ”علامہ اقبال کی تابندہ یادیں“کا حوالہ دیا ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کی تابندہ یادیں بھی دیکھی ہے جس میں غلام بھیک نیرنگ کا مضمون ”اقبال کے بعض حالات“ دیا گیا ہے۔ یہ مضمون پہلی بار مجلہ اقبال لاہور اکتوبر 1957ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں یہ واقعہ نہیں ہے۔ ریاض چودھری نے تو یہ واقعہ اخبار کی ویب سائٹ سے نقل کیا ہے۔ نہیں معلوم کہ فرحان احمد خاں نے کہاں سے اٹھایا۔ ریاض چودھری صاحب علامہ اقبال کی تابندہ یادیں ہی دیکھ لیتے تو اس واقعے کو شامل نہ کرتے۔ یہ اخبار درج ذیل لنک پر موجود ہے۔
https://www.roznama92news.com
/efrontend/web/index.php
/index2?station_id=2&page_id=10&is_
common=Y&n=1000&xdate=2019-12-5
جیسا کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لکھا ہے کہ سفرِ افغانستان کے حوالے سے ابتدائی ماخذ ”سیرِ افغانستان“ از سید سلیمان ندوی ہے۔ اس میں بھی ایسا کوئی واقعہ درج نہیں۔
ہاشمی صاحب نے نماز فجر سے قبل داتا گنج بخش کے مزار پر اقبال کی حاضری کو ”انکشاف“ قرار دیا ہے۔ مصنف نے یہ واقعہ روزنامہ جنگ 9 اکتوبر 2020ء میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صفدر محمود کے کالم بہ عنوان: ”روحانی کتاب کے دو صفحے“ سے نقل کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے مسعودالحسن کی انگریزی کتاب حضرت داتا گنج بخش، روحانی سوانح عمری (ڈاکٹر صفدر محمود نے کتاب کے نام کا اردو ترجمہ ہی دیا ہے) کا حوالہ دیا ہے۔ یہ کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ اسے ریاض احمد چودھری نے فرائیڈے اسپیشل میں ہاشمی صاحب کے تبصرے کے جواب میں درج کیا ہے۔ چودھری صاحب نے درج ذیل لنک سے نقل کیاہے:
https://jang.com.pk/news/829592
اہلِ علم جانتے ہیں کہ تحقیق میں اخبارات کے حوالوں کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ یہ واقعات علامہ کی کسی بھی ثقہ سوانح عمری میں نہیں ملتے۔
ہاشمی صاحب نے ربط، زمانی ترتیب، تدوین اور تناسب نہ ہونے کا شکوہ بھی کیا ہے۔ اُن سے عرض ہے کہ اس میں مصنف کا قصور نہیں۔ ویب سائٹس پر ایسے ہی لکھا ہوا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر تبصرہ نگار کتاب پڑھے بغیر فہرست دیکھ کر تبصرہ لکھ دیتے ہیں۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ الطاف حسن قریشی صاحب جیسے سنجیدہ فکر صحافی اور ادیب نے بھی کتاب پڑھے بغیر دوستی کی خاطر دیباچہ لکھ دیا اور تجویز دی کہ ”حکومتِ پاکستان اور بالخصوص حکومتِ پنجاب پر لازم آتا ہے کہ وہ اس کتاب کو بڑے پیمانے پر تعلیم یافتہ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کرے۔ تمام اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی لائبریریوں میں اس کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔“(ص 20)
امجد علی شاکر صاحب نے بھی کتاب میں شامل تقریظ میں کہا کہ ”نسلِ نو اس کتاب سے اقبال فہمی کا آغاز بھی کرسکتی ہے اور تفہیمِ اقبال کی منازل بھی طے کرسکتی ہے۔ یہ کتاب نظریۂ پاکستان کی مقبولِ عام تعبیر پر نسلِ نو کو پختہ تر کرتی نظر آتی ہے۔“ (ص 22)
سردار عثمان بزدار اور مجیب الرحمٰن شامی کے پیغامات پڑھ کر افسوس تو ہوا لیکن فارسی ادبیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کے پیغام سے پھر میرا گمان پختہ ہوا کہ کتاب پڑھے بغیر رائے دینے کا رواج بڑھ گیا ہے۔
کتاب اغلاط کا پلندہ اور سرقے کی عمدہ مثال ہے۔ حوالوں اور کتابیات سے عاری یہ کتاب واقعی کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پہنچنی چاہیے تاکہ طلبہ عبرت حاصل کرسکیں، یا ان کے حوصلے بلند ہوسکیں۔ اختصار کے پیشِ نظر صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ کتاب چھَپنے کے بجائے چھُپ جاتی تو اچھا ہوتا۔ یہ کتاب بزم اقبال جیسے مؤقر ادارے سے شائع ہوئی ہے۔ جہاں یہ ادارے کے لیے باعثِ شرم ہے وہاں ملکِ خداداد کے قومی شاعر کو اس انداز سے پیش کرنا قومی جرم ہے۔ ہم شکوہ کناں ہیں کہ آج نئی نسل کتاب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ ایسے مصنفین اور ویسے تبصرہ نگار ہیں۔
مصنف بنیادی طور پر صحافی ہیں اور انھیں علمی اور تحقیقی ادارے کا سربراہ بنادیا گیا ہے۔ کتاب اور کالم میں فرق ہوتا ہے۔ راقم کی اس طالب علمانہ کاوش سے شاید مصنف کو بھی اندازہ ہوجائے۔