عمران خان، اسٹیبلشمنٹ میں بڑھتی دوریاںاور شہباز شریف کا معاملہ

بروز اتوار 9 مئی 2021ء کو معروف صحافی اور کالم نگار دستگیر بھٹی نے کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر جو مضمون تحریر کیا ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ کالم نگار کی تمام آراء سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔
…………
’’ہفتے کے روز صبح سویرے اخبارات میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کو بیرونِ ملک جاکر علاج کرانے کے لیے دو ماہ کی چھٹی دینے کے بارے میں شہ سرخی پڑھی۔ جب ذرا نیچے دیکھا تو عمران حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری کا بیان لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پڑھا، جس کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ شہبازشریف کا راستہ روکنے کے لیے حکومت ہائی کورٹ کے اس حکم نامے کو ماننے سے انکار کردے گی۔ یہ سوچ ذہن میں اس لیے پیدا ہوئی کہ فواد چودھری نے اس عدالتی فیصلے کو قانون کے ساتھ ایک طرح سے مذاق قرار دیا ہے۔ اُن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جس قدر سُرعت اور جلدبازی میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے اتنی جلدی تو دیہاتی پنچایت میں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا کرتا۔ فواد چودھری نے یہ بھی برملا کہہ دیا کہ تحریک انصاف کی حکومت اس فیصلے کو رد کرانے کے لیے تمام تر قانونی راستے اختیار کرے گی۔ بہرکیف یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا تو اُس وقت دوپہر کا ایک بجا تھا۔ ٹیلی ویژن پر تازہ خبریں دیکھنا اور سننا بھی ضروری تھا، اس لیے ایک اردو نیوز چینل کھولا تو وہاں پر لیڈ اسٹوری یہ بتائی گئی کہ وفاقی حکومت نے شہبازشریف کو جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے تک عدالتی حکم نامہ دکھاکر موصوف متعلقہ افسران کے ساتھ مغز ماری کرتے رہے، لیکن اس کے باوجود انہیں جہاز میں سوار ہونے نہیں دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ شہبازشریف کو ان افسران نے یہی کہا ہوگا کہ ’’قبلہ! جناب شہبازشریف صاحب! جس طرح سے آپ اپنی حکومت کے دور میں ہر ایسے سرکاری اہلکار کو ہٹادیا کرتے تھے جو آپ کا حکم نہیں مانا کرتا تھا اسی طرح سے موجودہ حکمران بھی ہمارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے۔ ہم نوکری کی وجہ سے مجبور ہیں، کل ہم آپ کے حکم کے غلام تھے لیکن اب وقت بدل چکا ہے، اس لیے اب ہم عمران سرکار کے غلام ہیں۔‘‘
ویسے ایک حیران کن حقیقت سوشل میڈیا پر پڑھی ہے کہ شہبازشریف کو چند روز قبل ضمانت پر آزاد کرنے کا حکم لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے دیا تھا، اور جمعہ کو انہیں بلیک لسٹ ہوتے ہوئے بھی بیرونِ ملک جانے کی اجازت انہی جج صاحب نے دی ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز، حمزہ شہباز اور مسلم لیگی رہنمائوں احسن اقبال وغیرہ کو بھی جسٹس علی باقر نجفی نے ہی ضمانت پر رہا کیا تھا۔ میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم علی مسلم لیگی رہنمائوں کے سارے کیسز کس وجہ سے انہی جج صاحب کے ہاں بھیجتے رہتے ہیں؟ اگر اربابِ اختیار کی مرضی کے خلاف یہ فیصلے ہوتے ہیں تو پھر وہ سرکاری وکیل یا اٹارنی جنرل کے ذریعے چیف جسٹس کے سامنے یہ شکایت کرتے کہ فلاں جج فریق بن کر کام کررہا ہے اس لیے مہربانی فرماکر سیاسی رہنمائوں کے کیس برائے سماعت کسی دوسرے جج کے حوالے کیے جائیں۔ یہ کام تو بہت پہلے ہوجاتا، لیکن یہ امر بھی واضح ہوچکا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین دوریاں بڑھ چکی ہیں اور ان دونوں فریق کی سرد جنگ اب گرما گرم جنگ میں بدلنے کے آثار وزیراعظم کے اپنے ہی دیے گئے بیانات سے بھی ہویدا ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو لاہور میں دورانِ تقریر انہوں نے صاف کہا کہ ’’ملک میں جج، پولیس اور قبضہ مافیا کی ’’ٹرائیکا‘‘ اس قدر مضبوط ہے کہ اس کی وجہ سے عدلیہ کمزور ہوگئی ہے، جو طاقتور کو سزا نہیں دیتی اور محض غریبوں ہی کو سزا ملتی ہے۔ انصاف کا نظام کسی بھی طاقتور کو نہیں پکڑتا کیوں کہ پاکستان میں طاقتور کے لیے کوئی بھی قانون نہیں ہے۔ یہاں پر قانون صرف عام آدمی کے لیے ہی ہے۔ تیس تیس سال تک حکومت کرنے والے حکومت میں آنے سے قبل کیا تھے لیکن اب وہ کھرب پتی بن چکے ہیں۔‘‘ عمران خان نے باتیں تو سچی کہی ہیں لیکن وہ یہ باتیں اپنی پارٹی میں موجود ارب پتی وزراء اور رزاق دائود، شہزاد اکبر، فیصل واوڈا اور علی زیدی کے سیاہ کرتوتوں کے بارے میں کیوں نہیں کرتے؟اور آخر کیوں ہمیشہ ان کے دفاع میں لگے رہتے ہیں؟ جہانگیر ترین پر بھی وہ تب غصے میں آئے جب انہیں چینی کے نرخ بڑھنے کی وجہ سے عوامی آہ و فغاں کی بنا پر شوگر ملز مافیا کا سب سے بڑا مہرہ ایک ایسی جے آئی ٹی نے ٹھیرایا جسے خود وزیراعظم نے تشکیل دیا تھا۔ مہینوں تک وہ اس تحقیقاتی رپورٹ کو دبائے رکھے رہے، اور جب میڈیا کے آزاد صحافیوں نے ان کا گھیرا تنگ کیا تو پھر مجبور ہوکر انہوں نے اس بارے میں ایکشن دکھانے پر اپنی آمادگی ظاہر کی۔ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں قبل از گرفتاری جہاز میں بٹھا کر ملک سے باہر روانہ کردیا، کیوں کہ اس وقت سرائیکی بیلٹ کے تیس سے زائد منتخب ارکانِ اسمبلی ایسے ہیں جنہیں کسی بھی وقت عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد کے سینئر تجزیہ نگار ہارون الرشید نے جمعہ کی شام ایک ٹی وی چینل پر اپنے پروگرام میں یہ اہم انکشاف کیا کہ شہبازشریف کو لندن جانے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی نوازشریف کو اربابِ اختیار کے ساتھ صلح کرنے پر راضی کرسکیں۔ پشاور کے نزدیک نوشہرہ میں ہونے والی ضمنی انتخاب سے لے کر ڈسکہ اور کراچی کے حلقہ 249 میں تحریک انصاف کے خلاف جو عوامی نفرت ظاہر ہوئی ہے اس نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا خیال تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہارون الرشید نے یہ بھی کہا کہ لندن سے پہلے شہبازشریف قطر کے دارالحکومت دوحہ اس لیے جارہے ہیں کیوں کہ جہانگیر ترین کے حمایتی وہاں موجود ہیں جن کے ساتھ مل کر انہیں آئندہ کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی کرنی ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طاقتور حلقے عمران خان کی بدنامی اور مسلم لیگ نواز کی ضمنی انتخابات میں ہونے والی کامیابیوں سے متاثر ہوکر اس جماعت کے رہنمائوں سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے نقصان دہ دھرنے لگوائے گئے اور بالآخر نوازشریف کو ایک خودساختہ عدالتی حکم نامے کے ذریعے سزا دلاکر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ پنجاب میں نوازشریف اور مریم نواز کی پہلے سے بھی کہیں زیادہ مقبولیت کو دیکھ کر اصل کرتا دھرتا انگشت بدنداں رہ گئے، اور اب انہوں نے آخرکار گھٹنے ٹیک ڈالے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے بھی ان پر خاصا دبائو ڈالا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف کی جلاوطنی اور سزا ختم کرکے انہیں وطن واپس آنے دیا جائے۔ آج جب شہبازشریف کو عمران حکومت نے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تو ظاہر ہے کہ یہ سارا ترتیب شدہ پروگرام اب طوالت اختیار کرے گا۔ شہبازشریف کو صرف اپنے بھائی سے اجازت لینی تھی تاکہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پیپلز پارٹی، چودھری برادران اور جہانگیر ترین کے ارکان کے ساتھ مل کر عمران خان کو ہٹا کر وہ وزیراعظم بن جائیں۔ کیا اس صورت میں نوازشریف اپنے بھائی شہبازشریف سے ناراض تو نہیں ہوں گے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ نوازشریف کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر وہ اور ان کی صاحب زادی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ کو ترک کرکے معاہدہ کرلیں تو طاقتور حلقے انہیں وطن واپسی کی بھی اجازت دے دیں گے۔ اس بات سے خوف زدہ ہوکر عمران خان نے ایم کیو ایم والوں کا ایک ایسا جاہلانہ مطالبہ تسلیم کرلیا ہے جس سے نہ صرف سندھ بلکہ سارے پاکستان میں خطرناک حد تک منفی اثر مرتب ہوگا۔ اس مطالبے کے مطابق نیب کی جانب سے سندھ حکومت کے ملازمتوں کے سیکرٹری کو لکھے گئے ایک آفیشل خط میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے سرکاری محکموں میں دیہی سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے تمام ملازمین کی تفصیلات نیب کو ارسال کی جائیں۔ ان ملازمین میں گریڈ اول کے چپڑاسیوں سے لے کر گریڈ 22 کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ نیب کا یہ خط ملتے ہی سندھ کے چیف سیکرٹری نے اپنی ملازمت بچانے کے لیے فوراً تمام محکموں کے سیکرٹریز، کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ایسے افسران کی تفصیلات دینے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ میرے خیال میں اس غیر آئینی اور سندھ دشمن خط کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے، کیوں کہ صوبائی خودمختاری میں مداخلت کرنا نیب کے دائرۂ اختیار ہی میں نہیں آتا۔ اگرچہ متعلقہ سیکرٹری سروسز سعید احمد منگنیجو نے وضاحت کی ہے کہ ابھی تک نیب کو اس بارے میں تفصیلات مہیا نہیں کی گئی ہیں، لیکن سارے محکموں کے سربراہان اور کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز سے اعداد و شمار طلب کرنے سے چیف سیکرٹری ممتاز شاہ کا آخر کیا مقصد ہے؟ یہ کارروائی وزیراعظم عمران خان کے غیر منتخب اور بدنام مشیر شہزاد اکبر کے خط پر نیب نے شروع کی ہے۔ میں دعوے کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ شہزاد اکبر نے جو بدعنوانیاں کی ہیں ان پر آنے والی حکومت میں نیب والے خود موصوف سے حساب کتاب لیں گے کہ ان کے پاس اتنی زیادہ دولت کہاں سے آئی؟ پڑھنے والوں کی یادداشت تازہ کرنے کے لیے یہ حقیقت بھی لکھنا ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ مطالبہ ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے گزشتہ برس کیا تھا، بعد میں جب عمران خان کراچی آئے تو ان کے اتحادی گروپ نے ان سے یہ فریاد کی کہ کراچی کے سندھ سیکرٹریٹ میں مہاجروں کی حق تلفی کرکے بہراڑی (دیہی) کے سندھیوں کو بااختیار عہدوں پر مقرر کیا گیا ہے جنہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ عمران خان نے خود بھی یہ کہا کہ کراچی پر ’’اندرون سندھ‘‘ والے حکومت کررہے ہیں جس کی وجہ سے خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ موصوف اس امر سے لاعلم ہیں کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور پر ڈیرہ غازی خان کے عثمان بزدار، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ پر لسبیلہ کے جام کمال، کے پی کے کے دارالحکومت پشاور پر مردان کے وزیراعلیٰ، اور اسلام آباد پر میانوالی کے عمران خان وزیراعظم بن کر حکومت کررہے ہیں‘‘۔