مغرب اورمغرب زدگان میں وبا عام ہے: یوں ہر علم میں ماہر کی رائے مستند سمجھتے ہیں، لیکن علم الٰہیات میں ہر جاہل یہاں عالم بنا ہوا ہے! رضا اصلان God: A Human History میں بتارہے ہیں کہ خدا کون ہے؟ کرسٹوفر بلیگ The Islamic Enlightenment میں سمجھا رہے ہیں کہ اسلامی روشن خیالی کس بلا کا نام ہے؟ ایلسٹر مک گراتھ خدا کی ’’سائنس‘‘ سمجھا رہے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ سائنس کو ہی ’’خدا‘‘ تجویز کررہے ہیں۔ غرض، سائنس پرستی کا یہ حال ہے کہ علم الٰہیات کے بارے میں مستند آرا بھی سائنس سے طلب کی جارہی ہیں۔ گویا، سائنس کی رائے ہی نعوذ باللہ ’’خدا‘‘ اور ’’دینیات‘‘ کی حیثیت کا تعین کررہی ہے۔ اس کی ایک مثال آئن اسٹائن کی خدا پر رائے ہے جس پرطویل عرصے سے مغرب زدہ مذہبی حضرات خوشی سے بغلیں بجاتے رہے ہیں کہ آئن اسٹائن خدا پر یقین رکھتا تھا، حالانکہ وہ فلسفی اسپائنوزا کے خدا پر سرسری سا یقین رکھتا تھا، اور اسپائنوزا کا ’’خدا‘‘ کیا ہے؟ بقول آئن اسٹائن ’’وہ خدا جو موجوداتِ عالم سے خود کو مکمل طور پر ہم آہنگ ظاہر منکشف کرتا ہے، نہ کہ وہ خدا جو انسانی اعمال اور تقدیر سے متعلق ہے‘‘۔ یعنی ایک ’سیکولر خدا‘ ، جو دنیا کے معاملات سے لاتعلق ہو، انسانوں کی سیاست سے علیحدہ کسی عبادت گاہ کے کسی گوشے تک محدود ہو، جو عالم موجودات سے ہم آہنگ ہو، اور اس طرح ہم آہنگ ہو کہ انسانی بداعمالیوں، مظالم، اور فتنہ انگیزیوں، اور تقدیروں سے لاتعلق ہو۔ یعنی معاذ اللہ! ان ساری چیزوں سے بھی ہم آہنگ ہوجائے، کیونکہ یہ سب کچھ بھی عالمِ موجودات میں شامل ہے۔ گویا خدا انسانی بداعمالیوں اور تقدیروں سے ہم آہنگ ہوجائے، مگر انسان خدائی سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ ایسے تصورِ خدا سے خدامحفوظ رکھے۔ تعجب ہے کہ فلسفے اور سائنس کے دو بڑے دماغ ’تصورِ خدا‘ میں کس قدر چھوٹے نکلے! دراصل اس فکری فساد کی جڑیں بھی ’’چرچ اور ریاست کی علیحدگی‘‘ میں پیوست ہیں، اور اس بارے میں اقبال کی صائب رائے یہ ہے کہ:
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہ وبا نئی نہیں، اس کی جڑیں قدیم سے ہیں۔ نمایاں علامتیں کیتھولک کلیسا اور پروٹسٹنٹ تصادم کے بعد سامنے آئیں۔ غلطیاں ان دونوں سے سرزد ہوئیں، لیکن ہدف مذہب بنا۔ یہ مذہب دشمنی نام نہاد دورِ تنویر سے بدنام زمانہ نوآبادیاتی دور تک چلی آئی، اور مستشرقین بڑے بڑے متعدی بن کر پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئے، اور ان کے ساتھ ہی یہ وبا پھیلی۔ شاید مسلمان دنیا میں کسی اور وبا نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہوگا، جتنا اس دروغ گو جماعت نے پہنچایا۔ مصر میں شیخ عبدہ متعدی ہوئے اور اسے دور دور تک پھیلایا۔ برصغیر میں سرسید سب سے بڑے متعدی ثابت ہوئے، اور آج تک اُن کی ذریت اس مرض میں مبتلا چلی آتی ہے۔
اب جب کہ تاریخ کی حقیقت کھلتی جاتی ہے، اور واضح ہوتا جاتا ہے کہ اسلامی تہذیب ساتویں صدی سے پندرہویں تک مغرب میں، اور سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک مشرق میں درخشاں سنہرے ادوار سے گزری، کہ جب تاریخ میں پہلی بار عملی علوم، تحقیق، تعلیم، بہترین معاشرہ بندی کی بنیاد پڑی اور انسانی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔ اب بچا اٹھارہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف تک کا زمانہ… جو صرف اسلامی تہذیب کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر انسانی تہذیب کی زوال پذیری کا دور ہے۔ واضح رہے کہ مغربِ جدید کی ترقی تہذیبی نہیں مادی ترقی ہے (انسانی تہذیب کی تشکیل کے لیے لازم ہے کہ انسانی معاشرہ بندی ہو، یعنی خاندانی نظام اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی تعلیم و تربیت پائی جائے۔ مغرب نے خاندانی نظام برباد کیا، اخلاقیات کی دھجیاں اڑائیں)۔ جو معاشرتی انتظامی اخلاقیات منظم بھی ہوئیں، وہ مادہ پرستی کی چیرہ دستیوں کا فطری نتیجہ تھیں، جیسے عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تحریکیں، صنعتی انقلاب کی تاریخ کی ہر ہر سطر گواہ ہے۔ آج بھی انگریزی کلاسیکی ادب میں، لندن کے کارخانوں سے اٹھتے دھویں کی سیاہی سے بیشتر صفحات سیاہ پڑے ہیں۔
اسلامی تہذیب کی زوال پذیری سے مراد بے عملی اور تعلیم و تحقیق سے دوری ہے۔ اس میں بدعہدی، بستیوں کی بربادی، سازشوں، ناجائز آبادکاریوں، اور معاشرتی جرائم کا کہیں ارتکاب نہیں ہے۔ غرض، یہ وہ دور ہے کہ جس پر حال کے مستشرقین آج بھی اپنی سی دروغ گوئی کررہے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ جیسا سائنس کا ’’سیکولر خدا‘‘ ہے، ویسی ہی ’’سیکولر خدائی‘‘ زمین پر قائم ہوجائے، اور جولوگ جدید سائنس کی راجدھانی میں خدا کی حاکمیت چاہتے ہیں، وہ زندگی کے ہر میدان میں پیچھے دھکیل دیے جائیں، دیوار سے لگادیے جائیں، یہاں تک کہ زیر زمین پہنچادیے جائیں۔
مگر خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پھیلا کر رہے گا خواہ کفر کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ حق آچکا اور باطل کو مٹنا ہی ہوگا۔ خدا کا فیصلہ ہے کہ لوگ صرف اتنا کہنے پر چھوڑ نہیں دیے جائیں گے کہ ’ہم ایمان لائے‘، بلکہ اُن کی آزمائش ہوگی، جان و مال سے ہوگی، مال و اولاد سے ہوگی۔ خدا کا فیصلہ ہے کہ انسان خسارے میں رہے گا، سوائے اُن کے جو نہ صرف ایمان لائے بلکہ جب مصیبتیں پڑیں تو صبر کیا، اورنیک عمل کرتے رہے اور دوسروں کونیکی کی تلقین کرتے رہے۔ خدا کا فیصلہ ہے کہ کھرے کھوٹے الگ کرکے رہے گا۔ خدا کا فیصلہ ہے کہ وہ انسانوں سے، اُن کے اعمال سے، اُن کے کرداروں سے، اُن کی تقدیروں سے لاتعلق نہیں رہے گا، وہ ہر عمل پر نظر رکھے گا۔ اُس کی نظر ذرّہ بھر نیکی پر بھی ہے، اور ذرّہ بھر بدی پر بھی ہے۔
انسانوں کی دنیا کو، انسانوں کی سیاست کو، انسانوں کی سائنس کو، انسانوں کی خواہشات کو، انسانوں کے سارے اعمال کو خدا سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا، ماسوا کوئی صورت فلاح کی امکان میں نہیں ہے۔