سردار اسلم بھوتانی کا حزب اختلاف کی جماعتوں سے رابطہ
6 مئی 2021ء کو مؤقر روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے صفحہ اوّل پر گورنر بلوچستان جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ یاسین زئی سے منسوب خبر لگی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ گورنر بلوچستان نے مستعفی ہونے سے انکار کردیا ہے۔ خبر میں گورنر کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے متعلق لکھا گیا ہے کہ انہیں اتنا معلوم نہیں کہ استعفیٰ لینا صدرِ پاکستان کی ذمہ داری ہے یا وزیراعظم کی؟ گورنر سے منسوب خبر میں مزید لکھا گیا ہے کہ سب سے پہلے وزیراعظم جام کمال سے استعفیٰ لیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی اتنی حیثیت نہیں کہ مجھ سے استعفیٰ دلوائیں۔ بات اگر ضد کی ہے تو میں (امان اللہ یاسین زئی) بھی کوئٹہ بلوچستان کا مقامی باشندہ کاکڑ ہوں، چمچہ گیری اور کسی کے پیچھے جانے کا شوق نہیں، نہ یہ امید رکھی جائے۔ بلوچستان لاوارث صوبہ نہیں کہ ہر ایک اپنی من مانی کرے اور غیر مقامی لوگوں کے نام اپنی مرضی سے گورنرشپ کے لیے چن لے۔ اگر غیر مقامی کی بات آئی تو یہ بات سن لیں کہ ہم مقامی پشتون اور بلوچ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ میں کسی صورت مستعفی نہیں ہوں گا ، سپریم کورٹ تک قانونی جنگ لڑنے جائوں گا۔ میرے خلاف بلوچستان عوامی پارٹی سازش کررہی ہے۔ خبر اس روزنامے کے اسلام آباد کے چیف رپورٹر کی ہے۔
اسی روز گورنر بلوچستان نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے من گھڑت کہا۔ گورنر کے مطابق انہوں نے کسی اخبار یا ٹی وی چینل سے بات چیت سرے سے کی ہی نہیں ہے، اور وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایسا بیان دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے، یہ سازش ہے۔ یوں گورنر یاسین زئی نے جنگ اخبار کو اپنے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کے ذریعے ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا۔
یہ بات سچ ہے کہ گورنر بلوچستان نے یہ گفتگو اخبارات کے نمائندوں اور ٹی وی چینل کے ساتھ نہیں کی ہے۔ نجی محفل یا کسی معتمد شخص کے ساتھ بات کی ہو تو یہ الگ بات ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ گورنر کے خلاف اسلام آباد اور بلوچستان کے اندر لابنگ ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے بعض لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بندہ اس اہم منصب پر بٹھایا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر سے بھی اُن کے خلاف کچھ لوگ سرگرم ہوں۔ بہرحال گورنر بلوچستان کا منصب سے ہٹایا جانا موجودہ حالات میں درست قدم نہ ہوگا۔ کشمکش صوبے کی حکمران جماعت کے اندر بھی موجود ہے۔ یہ سب صوبے کے مفاد کے بجائے شخصی اغراض کے لیے ہورہا ہے۔ ان ارکانِ اسمبلی کے حلقۂ انتخاب اور اضلاع کی درگت بنی ہوئی ہے، اور بات صوبے کی ترقی و گورننس کی کرتے ہیں! لہٰذا صوبے کے مزید ان دو اعلیٰ مناصب کو بے توقیر نہ کیا جائے۔
سننے میں آیا ہے کہ سردار اسلم بھوتانی نے بلوچستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ سے جو قائدِ حزبِ اختلاف بھی ہیں، رابطہ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا ہو، مگر حزبِ اختلاف کی بلوچستان نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور پشتون خوا میپ مدنظر رکھیں کہ دوسروں کی جنگ لڑنا قطعی دانش مندی نہیں ہے۔ اوّل تو تحریک عدم اعتماد وغیرہ جیسا کوئی معاملہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر ہو بھی تو حزبِ اختلاف اپنے لیے راہ بنانے کے بجائے اپنا کندھا دوسروں کے لیے پیش نہ کرے۔ نواز لیگ، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں ساتھ دے کر جے یو آئی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سیاسی اقدار کو روند چکی ہیں۔ تینوں جماعتوں نے وقتی فوائد حاصل کیے۔ اس عمل کے نتیجے میں بننے والی چھ ماہ کی حکومت صوبے کی شرمندگی کے سوا کچھ نہ تھی۔ چھ ماہ تک وہ حکومتی ٹولہ سی ایم ہائوس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتا رہا،کوستا رہا اور دست و گریباں رہا۔ پھر اس کے نتیجے میں نگراں حکومت کے لیے ایک اسمگلر کو وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ نگراں وزارتِ اعلیٰ کے حصول کے لیے پیسہ استعمال ہوا، مختلف لوگوں نے شکم بھرے۔ گویا ان سب تماشوں کے لیے جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی بھی ذمے دار ہیں۔ اور آج عدم اعتماد کی اُس تخریب میں شامل حلقوں کے خلاف جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کے تحت تحریک چلارہی ہیں۔ حزبِ اختلاف کے لیے دوراندیشی، ادراک اور عزت اسی میں ہے کہ وہ حکمران جماعت اور اتحاد کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ تحریک انصاف کی کوشش بھی یقیناً یہی ہوگی کہ وہ گورنر ہائوس میں اپنے کسی بندے کو بٹھادے، جس کے عوض بعض افراد مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بلاشبہ ان کے پاس صوبے میں امان اللہ خان یاسین زئی سے بڑھ کر موزوں کوئی بندہ ہے بھی نہیں۔ جتنے لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں، ان میں سے اگر کسی کو وفاق کا نمائندہ مقرر کیا جائے گا تو یہ گورنر ہائوس کا وقار مجروح کرنے کے مترادف ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ گورنر کے خلاف ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری بھی لابنگ کررہے ہیں۔ انصاف اگر ہو تو قاسم سوری خود رکن اسمبلی قائم نہیں رہ سکتے، جو قومی اسمبلی حلقہ265کوئٹہ سٹی سے جتوائے گئے ہیں۔ ان کی اہلیت و جیت کا معاملہ عدالت میں معلق ہے۔ یعنی قاسم سوری تب سے حکمِ امتناع پر چل رہے ہیں۔ ہوا اس طرح کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل الیکشن ٹریبونل بلوچستان نے نادرا کی جانب سے حلقے میں ڈالے گئے 52 ہزار ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے کے بعد ستمبر 2019ء میں قاسم سوری کی بطور رکن قومی اسمبلی کامیابی کو کالعدم قرار دیا، اور حلقہ این اے265پر دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔ سوری کی کامیابی کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نواب زادہ لشکری رئیسانی نے چیلنج کیا تھا۔ فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے قاسم سوری کو ڈی سیٹ کیے جانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا تھا۔ چناں چہ سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا۔ پی ٹی آئی بلوچستان میں انتخابی حلقہ نہیں رکھتی ماسوائے سردار یار محمد رند اور جمالی خاندان کے، جو اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹ اور سیاسی اثر رسوخ کے حامل ہیں۔ باقی ساروں کی کامیابی گویا غیب کا کرشمہ ہے۔
الغرض گورنر بلوچستان سے منسوب بیان کی اصلیت کا عیاں ہونا ضروری ہے کہ اس کے پیچھے کس کی بُری نیت کارفرما تھی۔ سردست 7 مئی کو روزنامہ جنگ نے اپنی خطا تسلیم کرلی ہے کہ گورنر سے متعلق چھپنے والی خبر درست نہیں تھی، اور یہ بھی کہا گیا کہ اکثر و بیشتر بالخصوص حساس نوعیت کے ایشوز پر خبر دینے سے پہلے رپورٹر عمومی طور پر دو ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ وزیراعظم کے خط کے باوجود گورنر بلوچستان کے مستعفی ہونے سے انکار سے متعلق خبر میں ہمارے رپورٹر نے دو کے بجائے ایک، یعنی سوشل میڈیا گروپ پر پوسٹ کی گئی خبر پر انحصار کیا جو کہ درست نہیں۔ اعتذار میں اخبار نے گورنر بلوچستان سے اُن کی دل آزاری پر غیر مشروط معذرت بھی کرلی ہے۔