آرمی چیف اور وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب

وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کا دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ چکے ہیں، ان سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب پہنچے، جہاں ان کی اعلیٰ فوجی قیادت سے پیشہ ورانہ ملاقات ہوئی۔ آئینی لحاظ سے وزیراعظم ملک کے انتظامی سربراہ ہیں، آئینی حکومت ہی ملک کے نظم و نسق کی ذمہ دار ہے، ہر فیصلہ وزیراعظم کی منظوری سے ہوتا ہے، آئینی حکومت منتخب نمائندوں کے اعلیٰ ترین فورم پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے… کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیراعظم ہی قائدانہ کردار نبھاتے، یا پھر مختصر وقفے کے بجائے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت اکٹھے ہی سعودی عرب کا دورہ کرتی۔ حکومت عوام کو جواب دہ ہے، منتخب پارلیمنٹ ہی حکومت سے جواب طلب کرسکتی ہے کہ ایسا کیوں ممکن نہیں ہوا؟ بہرحال یہ دورہ نہایت باریک بینی سے تجزیے کا متقاضی ہے کہ ایسا کیا ہوگیا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اچانک ایک بار پھر سے گرم جوشی پیدا ہوگئی ہے، متعدد شعبوں میں تعاون کے اہم معاہدے بھی ہوگئے اور قدم کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کے وعدے کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ پاک سعودی تعلقات کسی قسم کے شک شبہ سے بالاتر ہیں، اسی لیے دونوں ملکوں کے مابین تلخی، دوری اور ناراضی کی کوئی خبر ہضم نہیں ہوتی، لیکن ماضیِ قریب میں ہی کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ او آئی سی سے ہٹ کر الگ بلاک بنائے جانے کی بات کی گئی تھی، جس کے بعد تلخی اس حد تک بڑھی تھی کہ سعودی عرب نے اپنے پیسے واپس مانگ لیے تھے۔ یہ سب بلاسبب نہیں تھا۔ پارلیمنٹ میں اس وقت ملک کی دس سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے، مگر ان میں سے کسی ایک جماعت نے بھی پارلیمنٹ میں اس نکتے پر وزارتِ خارجہ سے پالیسی بیان طلب نہیںکیا کہ ایسا کیوں ہوا تھا؟ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ خود قومی ایشوز پر خاموش رہتی ہے۔ آئین نے پارلیمنٹ کو اس قدر سپریم بنایا ہوا ہے کہ قانون سازی اور آئین میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار صرف اسی کے پاس ہے، مگر ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پارلیمنٹ ہمیشہ ربڑ اسٹیمپ ثابت ہوئی، اور اس نے اُسی کلمۂ حق کی بات اور حمایت کی جس سے اس کی اپنی نبض چلتی رہے۔ ہوسکتا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی یہی ہو کہ پارلیمنٹ خاموش رہے اور حکومت سے وضاحت طلب کرنے کا اپنا آئینی حق استعمال نہ کرے، مگر یہ بات طے ہے کہ حالیہ دورۂ سعودی عرب اس خطے میں مستقبل میں ہونے والی نہایت اہم تبدیلیوں کے لحاظ سے کسی نکتہ آغاز کا سبب بننے جارہا ہے۔ اس دورے کے اختتام پر جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ اپنے اندر بہت سی خبریں سموئے ہوئے ہے۔ یہ اعلامیہ ایک نیا جہان آباد کرنے جارہا ہے، لیکن نیا جہان آباد کرنے سے قبل شاطر امریکہ کے اشارے بھی سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ہم سے اور سعودی عرب سے کیا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ دورہ اہمیت کے اعتبار سے اس خطے کے حوالے سے کسی بھی قیمت پر بھارت، افغانستان، روس، چین، امریکہ، ایران سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس دورے میں پاک سعودی عرب دوطرفہ تعلقات کے لیے دو طرفہ تعاون کے پانچ اہم ترین معاہدوں پر دستخط ہوئے، اور پہلی بار ایسا ہوا کہ فالو اپ کے لیے ایک مشترکہ کونسل بھی تشکیل دی گئی۔ مگر اس دورے میں وزیراعظم کا وہ ویژن جو انہوں نے توہینِ رسالت کے عالمی خصوصاً مغربی رویّے کے انسداد کے حوالے سے اختیار کیا ہوا ہے اس پر انہوں نے اسلامی سربراہوں کو جو خط لکھے اس دورے میں انہیں اس کا سعودی عرب سے کیا جواب ملا؟ مشترکہ اعلامیے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ جن معاہدوں کی تشہیر کی گئی اُن میں کہا گیا کہ سعودی عرب پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر ترقیاتی فنڈز دے گا، یہ رقم توانائی، پانی اور دیگر منصوبوں کے لیے ہوگی، سعودی عرب کو اپنے ویژن2030 پر عمل درآمد کے لیے اگلے دس سال میں ایک کروڑ نوکریوں کے لیے افرادی قوت چاہیے، جس کے لیے پاکستان کو بھی کم و بیش ایک ملین افرادی قوت کا بڑا حصہ مل سکتا ہے۔ اس دورے کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ دورہ اس خطے کے مسائل کے حل کے لیے بھی قدم اٹھانے اور مشاورت کے لیے تھا، تو پھر یہ جائزہ لینا ہے کہ معاہدوں کی صورت میں جوکچھ پاکستان کو دیا گیا ہے، بدلے میں پاکستان کیا دے گا؟ اس دورے کے حوالے سے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے کسی بڑے مسلم ملک کے ذریعے ہمیں معاشی فائدے پہنچانے کی قیمت پر یہاں فوجی اڈے لینے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے تاکہ وہ یہاں سے چین، روس اور ایران پر نظر رکھ سکے؟ یہ سوال پارلیمنٹ ہی حکومت سے پوچھ سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب آجانے کے بعد ہمیں معلوم ہوگا کہ اس خطے کے مسائل کے ’’حل‘‘ کے لیے ہمیں ان معاہدوں کی اصل قیمت کیا چکانا ہوگی۔ مشترکہ اعلامیے کی سفارتی زبان کی روح بتارہی ہے کہ پاکستان اب بھارت کے ساتھ کشمیر پر پانچ اگست کا اقدام واپس لیے بغیر بات چیت کا در کھولنا چاہتا ہے، یہ غیر مشروط بات چیت کس حد تک نتیجہ خیز ہوگی، فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن بھارت کا رویہ اور ماضی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ دھوکہ دیا۔ وہ اس وقت کلی طور پر امریکہ کی جیب کی گھڑی بنا ہوا ہے، اور ایک ایسے علاقائی معاہدے کا رکن ہے جس میں امریکہ اور جاپان بھی شامل ہیں۔ امریکہ چین سے متعلق کیا سوچتا ہے یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی۔ بھارت نے ہمیشہ امریکہ سے چین کے خلاف کارروائی کے لیے بڑی قیمت وصول کی ہے، امریکہ بھارت اس وقت ایک سو بلین ڈالر کے باہمی تعاون کے معاہدے کا حصہ ہیں، جس میں امریکہ اسے سول نیوکلیئر فراہم کرنے کا پابند ہے۔ اس سارے منظرنامے سے چین بے خبر نہیں، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا گھیرائو کیا جارہا ہے۔ اب جو کچھ ہونے جارہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین سے دور ہوجائے، اس کا ہدف سی پیک ہے کہ اسے کسی طرح پس منظر میں لے جائے۔ پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے امریکہ نے ہمیشہ بھارت کو استعمال کیا، اسے شہ بھی دی۔ امریکی آشیرباد سے ہی دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی، اور ٹرمپ نے ہمیں تسلی دی کہ گھبرانا نہیں، اور وزیراعظم عمران خان کو امریکہ میں ایک کھلے اسٹیڈیم میں خطابِ عام کا موقع دے کر اسے ایک تاریخی دورہ بنادیا، اور ہم بھی خوش ہوگئے کہ عالمی کپ جیت لیا ہے۔ امریکہ نے یہ سب کچھ کابل میں اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو کام کرنے پر مجبور کرنے اور بھارت کے ذریعے ہم پر دبائو بڑھانے کے لیے کیا تھا۔ سعودی عرب کی ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکہ اسلام آباد پر دبائو بڑھا رہا تھا، جواب میں پاکستان نے کابل میں اپنا مفاد ذہن میں رکھا، اسی اثناء میں بھارت چین جنگ میں دہلی کی زبردست پٹائی ہوئی، حتیٰ کہ وہ تمام علاقے جہاں سے بھارت سی پیک کے لیے خطرہ بن سکتا تھا، چین نے اب اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔ اب بھارت ریلیف چاہتا ہے اور اس نے امریکہ کو استعمال کیا ہے۔
اب یہاں سے پاک سعودی عرب تعلقات کے نئے دور کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے بلکہ یہ بات کسی حد تک قریب آچکی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت دوبارہ بحال کردے، جس کے بعد وہاں غیر کشمیریوں کے لیے جائدادیں خریدنا ممکن نہ رہے۔ لیکن جو ہوچکا ہے اسے واپس کس طرح کرنا ہوگا؟ لہٰذا یہ عمل ایک نئے دبائو کا حربہ ہوگا۔ پارلیمنٹ کو یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورے کے اس سارے منظرنامے میں واشنگٹن کہاں کھڑا ہے؟
سابق امریکی صدر ٹرمپ اپنے 4 سالہ دور میں کشمیر، فلسطین اور چین کے ساتھ تنازعات چھوڑ کر گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا گیا، اور مقبوضہ علاقوں کو ضم کرنا جائز قرار دے دیا گیا۔ بھارت اسی شہ پر آئین بلڈوز کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کو (اپنے تئیں) ہڑپ کرنے کا مرتکب ہوا، مگر امریکہ ثالثی کی تسلی دیتا رہا۔ ٹرمپ کی آشیرباد پر ہی مودی آزاد کشمیر پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس دورے کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سیاسی جماعتیں بھی اپنی بند آنکھیں کھولیں اور پارلیمنٹ بھی گونگی، بہری اور اندھی بن کر رہنے کے بجائے اپنے لب کھولے، تاکہ سات عشروں پر محیط خارجہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے، اور اس خطے میں پیدا ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کو سمجھا جائے۔ اگر اس ساری صورت حال کو بھٹو کی طرح معاہدۂ تاشقند میں شریک ہوکر پھر اسے سیاسی مقاصد کے لیے کسی کو استعمال کرنا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی سیاسی، طبعی، جغرافیائی، نظریاتی تشخص، علاقائی و عالمی سیاست میں اتحادی سیاست میں اہم حوالہ رہی ہے۔ تین چار عشروں سے تجارت خارجہ پالیسی کا ایک اہم ایک عنصر بن چکی ہے۔ اسے قومی مفادات کی آڑ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ نومنتخب بائیڈن انتظامیہ سب کچھ اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ وہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی قیادت کو اس میں شامل کررہی ہے اور کوئی عالمگیر کامیابی حاصل کرکے دنیا پر حکمرانی قائم رکھنے کی کوشش میں ہے۔
پاکستان کو دبائو میں لانے کا دوسرا بڑا حربہ آئی ایم ایف کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ گاجر اور چھڑی کا کھیل ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ ہمیں گاجر کھلا کر چھڑی سے ہانکا جاتا ہے۔ آج کل پھر آئی ایم ایف نے کسی خاص ہدف کے لیے ہمیں کچھ رعایتیں دینا شروع کی ہیں۔ قرضہ پروگرام پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کے اجلاس میں اس بارے میں اشارہ بھی دے چکے ہیںکہ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ بڑا ظلم اور ناانصافی کی ہے۔ ہم آئی ایم ایف کی شرائط کے ساتھ آئندہ دو سال مزید دبائو میں نہیں گزار سکتے۔ سال 2019ء میں آئی ایم ایف سے قرض کا جو معاہدہ کیا گیا وہ کافی سخت ہے، اس معاہدے سے پہلے ڈالر بے قابو ہوگیا اورملک میں مہنگائی کا طوفان آیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ چھے ارب ڈالر قرض کے قسط وار حصول کا معاہدہ طے پایا تھا، اب تک پیش کیے جانے والے بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہی دیے گئے جس سے ملک میں مہنگائی بڑھی اور وجہ آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل درآمد بنی۔ وزیر خزانہ اب آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی یا ردوبدل کرانا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس خطے میں امریکی مفادات اور منصوبہ بندی کے لیے جو کھیل شروع ہوچکا ہے آئی ایم ایف بھی امریکہ کے اشارے پر ہمیں کچھ ریلیف دے دے۔
اب تھوڑا سا جائزہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا۔ حکومت نے پہلے اپوزیشن کو بات چیت کی دعوت دی، پھر انتخابی اصلاحات کا پیکیج سامنے لے آئی، اور اگلے روز ہی صدر نے آرڈیننس بھی جاری کردیا۔ آرڈیننس ای ووٹنگ سے متعلق ہے۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل سکے گا۔ حکومت انتخابی اصلاحات کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے، مگر کام ابھی تک ادھورا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ای ووٹنگ پر کام کیا جاچکا ہے، جبکہ بائیومیٹرک پر کام ہونا باقی ہے۔ کابینہ اس کے لیے کنسلٹنٹ مقرر کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ فی الحال کہانی یہیں رکی ہوئی۔ حکومت انتخابی اصلاحات کے لیے اسمبلی سے رجوع کرنے کے بجائے پھر آرڈیننس لے آئی ہے جس سے حکومت کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اول تو آرڈیننس لانے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کہ الیکشن کمیشن بھی ایک خودمختار ادارے کی حیثیت سے تمام پارلیمانی پارٹیوں کا مؤقف سن کر انتخابی قوانین میں ضروری ترامیم کرسکتا ہے۔ اگر اس طریق کار سے ہٹ کر انتخابی اصلاحات کے لیے آرڈیننسوں کا راستہ اختیار کیا گیا تو اس سے لامحالہ یہ شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ اس کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا مقصود ہے۔ یہ شکوک و شبہات اس لیے بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ وفاقی وزیر اسد عمر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑنے کا عندیہ دے چکے ہیں، جس سے پہلے آرڈیننس کے ذریعے ای ووٹنگ کا طریقہ کار رائج کرنے کا مقصد نئے انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دورۂ سعودی عرب پر جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ

سعودی عرب کے ولی عہد، نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع عزت مآب شہزاد محمد بن سلمان کی دعوت پر وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت مآب جناب وزیراعظم عمران خان نے 7 سے 9 مئی2021 کو سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا۔ اس موقع پرمشترکہ بیان جاری کیا گیا
1۔ دونوں رہنمائوں نے سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تاریخی اور برادرانہ تعلقات کا اعادہ کیااور دوطرفہ تعاون کے تمام پہلووں کاجائزہ لیا اور باہمی دلچسپی کے علاقائی وعالمی امورپر بات چیت کی دونوں اطراف نے تمام شعبہ جات میں دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے طریقہ ہائے کار پر بات چیت کی اور رابطے بڑھانے، دونوں ممالک کے حکومتی عہدیداروں اور نجی شعبے کے درمیان تعاون میں اضافے پر اتفاق کیا تاکہ دونوں ممالک کے مفاد میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ حاصل ہو۔
2۔ عزت مآب وزیراعظم عمران خان نے مسلم اتحاد کے فروغ میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے قائدانہ کردار اور اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کے حل، علاقائی اور عالمی امن وسلامتی کے لیے سعودی عرب کی کاوشوںکو سراہا۔
3۔ وزیراعظم نے 2018 اور2019 میں سعودی عرب کے اپنے اور فروری 2019 میں عزت مآب ولی عہد، نائب وزیراعظم اور وزیردفاع کے دورہ پاکستان کا حوالہ دیا جس میں دونوں رہنمائوں نے مشترکہ طور پر سعودی پاکستان سپریم کورآرڈینیشن کونسل کے قیام کا اعلان کیا تھا تاکہ باہمی اعتماد، فوائد اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر مبنی دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دیاجاسکے۔ ولی عہد نے وزیراعظم کو سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو جدید، ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بنانے کے وزیراعظم کے وژن کے لیے مسلسل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
4۔ دونوں اطراف نے سعودی عرب کے وژن 2030 کی روشنی میں دستیاب مواقع اور سرمایہ کاری کے شعبہ جات کو تلاش کرتے ہوئے اور جیوپالیٹیکس سے جیواکنامکس کی طرف پاکستان کی تبدیل ہوتی سوچ کے تناظر میں پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات کومد نظررکھتے ہوئے معاشی وتجارتی تعلقات بڑھانے اوراسے مضبوط بنانے کے طریقوں پر بات چیت کی۔ بات چیت میں توانائی، سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت اور ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔ دونوں اطراف نے دوطرفہ فوجی وسلامتی تعلقات میں تعاون کی موجودہ کیفیت پر اطمنان کا اظہار کیا اور باہمی طورپر اتفاق کردہ اہداف کے حصول کے لیے اشتراک عمل اور تعاون کو مزید قوت دینے پر اتفاق کیا۔
5۔دونوں رہنمائوںنے اسلامی دنیا سے متعلق امور پر بھی گفتگو کی انہوں نے انتہاء پسندی اور (باقی صفحہ 41پر)
تشدد کے تدارک، فرقہ واریت کو مسترد کرنے اور عالمی امن وسلامتی کے حصول کے مقصد کی خاطراسلامی ممالک کے مل کر کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوںنے ہر قسم اور ہر شکل کی دہشت گردی کے مقابلے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زوردیا انہوں نے اعادہ کیا کہ دہشت گردی کو کسی مذہب، شہریت، تہذیب یا نسلی گروہ کے ساتھ نتھی یا منسلک نہیں کیاجاسکتا اور نہ ہی ایسا کیاجانا چاہیے۔
6۔گفتگو میں تعمیری جذبے کے ساتھ دونوں اطراف نے فلسطینی عوام کے تمام جائز حقوق خاص طورپر استصواب رائے کے حق اور عرب امن اقدام اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق1967سے پہلے کی سرحدات کی حامل، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، خودمختار ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے شام اور لیبیا کے سیاسی تصفیہ کے علاوہ اقوام متحدہ اور اس ضمن میں اس کے ایلچیوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کا بھی اظہار کیا۔
7۔ دونوں اطراف نے خلیج اقدام اور اس کے عمل درآمد کے طریقہ کار کی بنیاد پر یمن تنازعہ کے جامع سیاسی حل کے حصول، جامع قومی مذاکرہ کے نتائج اور سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوںبشمول قرارداد (2216) کے لیے کوششوں کی حمایت کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوںنے سعودی عرب کی سرزمین بشمول اہم تنصیبات اور شہری مقامات کو دہشت گرد گروہوں اور مسلح جتھوں بشمول حوثی ملیشیا کی طرف سے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے حملوں کی مذمت کی۔ انہوںنے ان دھمکیوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا جو توانائی کی مستحکم ترسیل اور تیل کی برآمدات کی سلامتی کو لاحق ہیں جو خطے اور اس کے عوام کی ترقی و خوش حالی کے لیے کلیدی ہے۔ وزیراعظم نے یمن میں امن وسلامتی کے حصول کی خاطر یمن تنازعہ کے حل کے لیے سعودی عرب کے کردار کی تعریف کی جس کے نتیجے میں خطے اور اس کے عوام کی ترقی اور خوش حالی ہوگی۔
8۔ افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ولی عہد نے افغان عمل میں پاکستان کی سہولت کاری کے کردار کا اعتراف کیا۔ دونوں اطراف نے زور دیا کہ ایک جامع، وسیع البنیاد اور جامع سیاسی تصفیہ ہی اس ضمن میں آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور افغان فریقین پر زور دیا کہ افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے حصول کے اس تاریخی موقع کو عملی شکل دیں۔ دونوں رہنمائوں نے افغان امن عمل پر باہمی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
9۔پاکستان اور سعودی عرب نے کثیرالقومی فورمز میں ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ انہوں نے انصاف اور شفافیت کے اصولوں کو بالاست رکھنے اور باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے تعاون و اشتراک عمل مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں اطراف نے تمام ریاستوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے منشور، اصولوں اور عالمی قانونی جواز سے فیصلوں کے علاوہ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں، ریاستوں کی خودمختاری و وحدت کے احترام، ان کے داخلی امور میں عدم مداخلت اور تنازعات کو پرامن ذرائع سے حل کرنے کی کوششوں کے عزم کے ساتھ وابستگی کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
10۔ عزت مآب ولی عہد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003 کی مفاہمت کی بنیاد پر ’لائن آف کنٹرول، (ایل۔او۔سی) پر پاکستان اور بھارت کی فوجی اتھارٹیز کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کی حالیہ مفاہمت کا خیرمقدم کیا۔دونوں ا طراف نے تمام تنازعات خاص طور پر تنازعہ جموں وکشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا تاکہ خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنایاجاسکے۔
11۔ وزیراعظم نے سعودی عرب کی حکومت کو جی 20 سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد اور اس کے نتیجے میں معیشت، ترقی، ماحولیات، صحت، توانائی سمیت دیگر تمام شعبوں کے لیے ہونے والے مثبت فیصلوں پر سعودی عرب کی حکومت کو مبارک دی۔
12۔ عالمی معاملات خاص طورپر ماحولیاتی تغیر کے درپیش چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے سعودی عرب کے قائدانہ کردار کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعظم نے ’’دی سعودی گرین اینڈ مڈل ایسٹ گرین اقدام،، کا خیرمقدم کیا جس کا آغاز عزت مآب شہزاد ہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے کیا ہے اور امید کی کہ اس اقدام کے خطے، اس میں بسنے والوں اور دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ولی عہد نے وزیراعظم کے ’’کلین اینڈ گرین پاکستان،، اور ’’10 بلین ٹری سونامی،، کے اقدام کو سراہا۔
13۔ وزیراعظم نے دونوں مقدس مساجد، حجاج کرام، عمرہ اور عام زائرین کی خدمت کرنے کے علاوہ خاص طورپرگزشتہ برس کورونا عالمی وباء کی وجہ سے درپیش مشکلات کے باوجود 1441 کے حج کے موقع پر بہترین انتظامات کرنے پر سعودی عرب اور اس کی قیادت کی کوششوں کو سراہا۔
14۔دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور متنوع بنانے کے لیے درج ذیل معاہدات اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے؛
i۔سعودی پاکستان سپریم کوآرڈی نیشن کونسل (ایس۔پی۔ایس۔سی۔سی) کے قیام کا معاہدہ
ii۔انسداد منشیات،سائیکوٹروپک اور خطرناک کیمیائی مواد کی سمگلنگ پر مفاہمت کی یاد داشت
iii۔توانائی، پانی سے بجلی پیدا کرنے، انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن اور آبی وسائل کی ترقی کے لیے منصوبہ جات میں فنانسنگ کے لیے ’ایس۔ایف۔ڈی، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان فریم ورک مفاہمت کی یاد داشت
iv۔جرائم کے مقابلے کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ
v۔ مجرموں کی تحویل کا معاہدہ
15۔وزیراعظم نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود، عزت مآب ولی عہد، نائب وزیراعظم اور وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور سعودی عرب کے برادر عوام کے لیے تشکر اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ عزت مآب ولی عہد نے وزیراعظم کی صحت اور خیرخواہی کی جوابی نیک تمنائوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے برادر عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لیے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔