اشرف صحرائی کی بھارتی قید میں شہادت

تحریکِ آزادیِ کشمیر کے ایک عظیم سالار، تحریک حریت کشمیر کے چیئرمین، اور سیدعلی گیلانی کے تاحیات جانشین اور دستِ راست محمد اشرف صحرائی 77 سال کی عمر میں دورانِ قید جموں کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔ محمد اشرف صحرائی کشمیر کی تحریکِ آزادی کی ایک توانا علامت تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی تحریک اور نوجوانوں کی راہنمائی و قیادت کے لیے وقف کررکھی تھی۔ اس راہ میں انہیں قدم قدم پر قید وبند کی صعوبتوں سمیت ہر ستم سہنا پڑا۔ اشرف صحرائی نے عزیمت واستقامت کی پُرخار راہوں کا انتخاب عین جوانی میں کیا، اور وہ سری نگر یونیورسٹی میں دورانِ طالب علمی سے ہی انقلابی اور مزاحمتی سیاست کے علَم بردار رہے۔ تحریر اور تقریر کے میدان کے شہسوار تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے نام سے متحرک اور فعال طلبہ تنظیم قائم کی، جس نے بعد میں کشمیر کی مزاحمت کو ڈاکٹر ایوب ٹھاکر، شیخ تجمل الاسلام اور ڈاکٹر غلام قادر وانی جیسے فعال کردار اور نام دئیے۔1975ء میں کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں شیخ محمد عبداللہ کا مقابلہ کیا، اور اس ماحول میں خود کو اس مشکل کام کے لیے پیش کرنا جرأت وبہادری کے بغیر ممکن نہ تھا۔ جب بھی کشمیر میں دار وگیر کا سلسلہ چلا اور جو چند نام پہلے پہل گرفتاری اور ہتھکڑی کے مستحق قرار پائے اشرف صحرائی اُن میں نمایاں ہوتے تھے۔ پہلی گرفتاری زمانۂ طالب علمی میں ہوئی، جو دار وگیر کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ثابت ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے صرف سولہ برس آزاد فضائوں میں گزارے، یوں ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں کی نذر ہوگیا، اور جیل سے ہی وہ شہرِ خموشاں کے مکین بن گئے۔
اشرف صحرائی کو گزشتہ برس پبلک سیفٹی ایکٹ کے سیاہ قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ایک 76 سالہ بزرگ سے گھبرانے والے نظام کو بھارتی جمہوریت کہتے ہیں۔ کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی تو اشرف صحرائی اس کے فکری راہنمائوں میں تھے۔ ان کا پورا گھرانہ اس تحریک میں شامل ہوا، اور ان کے دو بھتیجے اس مزاحمت میں شہید ہوئے۔ 1990ء میں مجاہدین کی حمایت کے الزام میں بھارتی فوج نے لولاب کپواڑہ میں اشرف صحرائی کے گھر کو باردو لگا کر اُڑا دیا، جس کے بعد انہیں بے گھر ہوکر سری نگر منتقل ہونا پڑا۔ سید علی گیلانی نے تحریکِ مزاحمت کو نئے سرے سے منظم کرنے کے لیے تحریک حریتِ کشمیر کے نام سے الگ تنظیم قائم کی، تو اشرف صحرائی اس میں سرفہرست تھے۔ اشرف صحرائی سید علی گیلانی کے سردوگرم کے ساتھی تھے، اور اس لیے انہیں پہلے سے ہی سید علی گیلانی کا جانشین سمجھا جاتا تھا۔ سید علی گیلانی نے بھی چند برس قبل اشرف صحرائی کو باضابطہ طور پر اپنا جانشین قرار دیا اور پارٹی کی سربراہی انہی کو منتقل کی۔
گزشتہ برس رمضان المبارک میں ہی اشرف صحرائی کا صاحب زادہ جنید صحرائی بھارتی فوج کے ساتھ تصادم میں شہید ہوا، تو صحرائی صاحب عزم وہمت کو کوہِ گراں بنے رہے۔ جنید صحرائی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے مجاہدین کی صفوں میں چلا گیا تو میڈیا نمائندوں نے اشرف صحرائی سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کو تشدد ترک کرکے واپس آنے کا کہیں گے؟ تو اس کے جواب میں اشرف صحرائی نے جو جواب دیا وہ مزاحمت کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو کیوں واپس بلائوں! وہ اپنی مرضی سے گیا ہے۔ میرا بیٹا اُن سے زیادہ قیمتی ہے جو اس وقت لڑرہے ہیں؟ وہ سب میرے بیٹے جیسے ہیں۔ میرے بیٹے نے جو راستہ بہتر سمجھا اُس کا انتخاب کیا۔ ہم سب کی خواہش ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو۔
آخرکار صحرائی صاحب کی خاتمہ بالخیر کی خواہش پوری ہوگئی۔ ان کا خاتمہ خیر پر یوں ہوا کہ کشمیر کے ہر طبقے نے انہیں بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ان میں حریت پسند کیمپ کے ساتھ ساتھ محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ اشرف صحرائی بھارت کے قیدی کی حیثیت سے زندگی کی قید سے آزاد ہوگئے، اور وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نقشِ قدم چھوڑ گئے، اور جرأت، استقامت اور قربانی کا استعارہ بن گئے۔
بھارتی حکومت نے کورونا ایس او پیز کا بہانہ بناکر اشرف صحرائی کی تدفین اہلِ خانہ کی موجودگی میں سری نگر کے مرکز سے بہت دور اُن کے آبائی علاقے لولاب میں کی۔کورونا ایس اوپیز سے زیادہ حریت پسندوں کو شہروں اور مراکز سے دور نامعلوم مقامات پر دفن کرنے کے پیچھے ایک خوف ہے۔ اس خوف نے برہان وانی کی تدفین کے مناظر اور اس کے بعد شروع ہونے والی ایک نئی اور زوردار مزاحمت سے جنم لیا ہے۔ بھارت نے اسی خوف سے شہید ہونے والے نامور کرداروں کی قبروں کو مرجع خلائق بننے سے روکنے کے لیے اب ان کی قبروں کو مراکز سے دور بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، اور اسی خوف کے تحت اشرف صحرائی کی تدفین بھی سری نگر سے دور علاقے میں ہوئی۔ اگر ان کے لواحقین اور سیاسی حلقوں کو آزادانہ فیصلے کی اجازت ہوتی تو ان کی خواہش سری نگر کے مزار ِ شہدا میں تدفین کی ہوتی۔اشرف صحرائی کی وفات کورونا کے باعث ہوئی، اور ابھی بھارت کی دور دراز جیلوں میں ایسے ہزاروں قیدی موجود ہیں جن کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
جب سے بھارت میں کورونا کی لہر میں تیزی آئی ہے کشمیری قیدیوں کی زندگی اور سلامتی کے نام پر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ان میں اکثر لوگ جیلوں کی زندگی اور عقوبت خانوں کا عتاب سہہ کر کئی جسمانی عارضوں کا شکار ہوچکے ہیں۔دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید یاسین ملک بھی کئی عارضوں کا شکار ہیں۔یہ لوگ سیاسی قیدی ہیں اور ان پر کوئی سنگین الزام بھی نہیں۔بھارت نے ان قیدیوں کو کس حالت میں رکھا ہے اس کی منظر کشی جموں کی کوٹ بلوال جیل میں اشرف صحرائی سے ملاقات کرنے والے ایک کشمیری باشندے نے کی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ انہیں ایک شیشے کے پیچھے ٹیلی فون پر گفتگو کرنے کا موقع دیا گیا، اور اس دوران بھی کئی اہلکار سر پر کھڑے رہے۔اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اشرف صحرائی کا عزم تو ہمالیہ سے بلندمعلوم ہورہا تھا مگر شیشے سے دیکھنے سے لگ رہا تھا ان کی صحت ان کے عزم کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔اس نوجوان نے مجھ سے کہا تھا کہ حکومتِ پاکستان تک یہ بات پہنچادیں کہ وقت ضائع کیے بغیر کچھ کرنا ہوگا اور دنیا کو کشمیری قیدیوں کی حالتِ زار سے آگاہ کرنا ہوگا۔ کئی جسمانی عارضوں اور پیرانہ سالی کا شکار اشرف صحرائی تو شقاوت قلبی کاشکار ہوگئے مگر کئی دوسرے بڑے ناموں کے سروں پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ایسے میںحکومت کو اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں میں ان کشمیری قیدیوں کی جان بچانے کے لیے ان کی رہائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔