عیدالفطر یومِ تجدیدِ عہدِ وفا

رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے خزانے لٹا کر… مغفرت، رحمت اور جہنم سے نجات کی بخشش و عطا کے گراں قدر تحفے بانٹ کر رخصت ہورہا ہے! شوال کا چاند ہلالِ عید بن کر ہر آنگن میں اتر رہا ہے۔ اے اللہ! اس چاند کو ہمارے لیے امن و سلامتی، خوش حالی و فراخی کا موجب اور ایمان میں اضافے اور استقامت کا باعث بنا۔ اور سلامتیِ روح و جسم، فکر و شعور اور اطاعت و فرماں برداری، تسلیم و رضا کا پیغامبر بنا۔ اور اس چاند کے ذریعے طلوع ہونے والے مہینے میں اپنی رضا و پسند کے کاموں کی توفیق سے نواز۔ اے ہلالِ عید، ہمارا اور تمہارا آقا، پروردگار اور پالنہار، مالک و مختار، صاحب ِشان و شوکت اللہ جلِ جلالہ ہی ہے۔
عیدالفطر کی روشن صبح طلوع ہورہی ہے۔ اہلِ ایمان کو مبارک ہو۔
عید تو فقط خوشی کا نام ہے، مگر ’’عیدالفطر‘‘ اہلِ وفا اور مردانِ صدق و صفا کے لیے مسرتوں کا پیام بھی لائی ہے اور غم کے سندیسے بھی۔ خوشی تو یہ کہ اللہ کے عائد کردہ ایک فرض کی تکمیل ہوگئی، اطاعت و بندگی کا تقاضا پورا ہوا، قرآن سننے سنانے کی سعادت حاصل ہوئی، رحمتیں سمیٹنے، مغفرت کا سامان کرنے کے مواقع ملے… یقیناً یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
عید… غم کا سندیسہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِن دنوں اپنے رب سے قریب اور اسی کے ہوکر رہے۔ اپنے خالق و مالک کو بارہا اپنے سامنے پایا، اس کی بارگاہ میں سجودِ نیاز خم کیے، اس کے حضور اپنے سب رنج و دکھ، سب ضرورتیں اور حاجتیں، سب مرادیں اور تمنائیں پیش کرتے رہے۔ وہ سناتے رہے اور شہ رگ سے قریب آقا ان کی دعائیں، صدائیں، آہ و زاری، منت و سماجت، توبہ و استغفار سنتا رہا، قبول کرتا رہا اور اپنے بندوں کو نوازتا رہا۔ ان بندوں کے لیے قرب کے مواقع… رمضان کے شب و روز ختم ہوگئے۔ ان کے لیے عید کی رات شبِ فراق سے کم نہ ہوگی۔ رمضان کی سعادتیں پھر نصیب ہوں یا نہیں… زادِ راہ جمع کرنے کا موقع مل سکے یا دفترِ عمل لپیٹ کر رکھ دیا جائے!!
لیکن اے بندۂ مومن! ہلالِ عید کا تیرے نام پیغام یہی ہے کہ یہ جدائی تیری آتشِ شوق کو بھڑکانے، محبوب کی یاد دل میں سجائے رکھنے، آنکھوں میں گیارہ ماہ انتظار کے دیپ جلائے رکھنے اور رمضان سے حقیقی محبت کے اظہار اور اس میں کیے گئے وعدوں کو نبھاتے رہنے کے لیے ہے۔ بلاشبہ محبت کا چراغ وصل کے مسرور کن تصور سے روشن رہتا ہے اور اس کے مطالبات، تقاضوں اور تمنائوں کو پورا کرتے رہنا کس قدر مسرت انگیز عمل ہے۔ رمضان میں محبت کرنے والے اہلِ ایمان کو اب آئندہ گیارہ ماہ اسی تصورِ جاناں میں بسر کرنے ہیں، اور وصل کی اس امید میں تڑپتے رہنا ہے… مگر شرط یہ ہے محبت کرنے والوں کے لیے کہ ان گیارہ مہینوں، عرصۂ فراق میں رمضان سے وفاداری، محبت اور اخلاص کی لَو مدہم ہو، نہ اُس کی بخشش و عطا کی توہین ہونے پائے۔ اس کے تقاضے اور مطالبے ہمہ وقت ذہن و عمل کے ساتھ رہیں۔
عیدالفطر۔ اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے۔ لتکبرو اللّٰہ علیٰ ما ہدا کم… رمضان کے مہینے میں ہدایت کی شاہراہِ مستقیم پر چلنے کے بے شمار مواقع عطا کرنے والے اللہ کے احسانِ عظیم کا بس ایک ہی تقاضا… ہر شاہراہ پر، ہر گلی، محلے، بازار و دکان، ہر گھر اور مکان میں، زمین کے ہر کونے اور ہر گوشے میں اعلان عام اللہ اکبر… اللہ ہی بڑا ہے۔ اللہ اکبر… اللہ ہی بڑا ہے۔ لاالٰہ الا اللہ… اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی، اطاعت و فرماںبرداری، سجدہ و رکوع، حمد و ثنا، عزت و عظمت، شان و شوکت، غلبہ و اقتدار، حکم و اختیار کا سزاوار نہیں۔ واللہ اکبر… فی الحقیقت وہی بڑا ہے۔ سب سے بڑا۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ، برو بحر، شجر و حَجر، شمس و قمر، زمین و آسماں، گلستان و بیاباں… سب زبانِ حال و قال سے یہی گواہی دے رہے ہیں کہ وہی، صرف وہی، سب سے بڑا ہے۔ اللہ اکبر وللہ الحمد۔ اور سب عظمتیں، تعریفیں، بزرگیاں اسی کے لیے ہیں۔
یوم عید پر یہ نغمہ سرائی، اعلانِ کبریائی… اہلِ ایمان کے لیے پیام ہے کہ رمضان کی تیس روزہ تربیت کا تقاضا ہے کہ ہر بندۂ مومن اب اس کبریائی کے حقیقی غلبے و تسلط کے لیے کمربستہ ہوجائے۔ رمضان کے شب و روز ذکر و تلاوت کے نغمے الاپنے والا اب اللّٰہُ… اللّٰہُ… اللّٰہُ کے ذکرِ حقیقی کا فرض سرانجام دے، اور اللہ کی کبریائی کا علَم تھام کر ہر شیطان کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگے، اور ذکر و تلاوت کی خانقاہ اور حجرۂ اعتکاف سے نکل کر رسمِ شبیری ادا کرے۔
یومِ عید… اہلِ ایمان کے لیے رمضان کی سعادتوں کے حصول پر اظہارِ تشکر کا دن ہے۔
فسبح بحمد ربک… بندۂ مومن سرِنیاز خم کردے اور اپنے حمد و ثنا کے سزاوار رب کے حضور، اُس کی اَن گنت بخششوں اور عطائوں کے اظہارِ شکر کے لیے تسبیح… تسبیح کے دانوں پر بھی، اور دشمنانِ حق کے ٹھکانوں پر بھی… نفس کے بت خانوں اور شیطان کے آستانوں پر بھی… کفر کے قانون، معاشرے کے رسوم و رواج، بے حیائی کے مراکز، ظلم و جبر کے ایوانوں پر بھی… حتّٰی لاتکون فتنۃ… فتنوں کی مکمل سرکوبی تک!
یومِ عید… رمضان کے مہینے میں اپنی محرومیوں اور کوتاہیوں پر اظہارِ ندامت اور مغفرت طلبی کا دن ہے۔ کوتاہیوں کے احساس کے ساتھ عرقِ ندامت اپنی جبینوں پر سجاکر، بہت بخشنے اور معاف کرنے والے مالک کے حضور اعترافِ قصور و خطا کا دن ہے۔ واستغفروہ انہ کان توابا۔
یومِ عید… مردانِ وفا کے لیے انعام کا دن ہے۔
اے بندۂ مومن! یہ تیری وفائوںکے صلے کا دن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہے تیرے لیے: جب عید کا دن آتا ہے تو خدا کے فرشتے تمام راستوں کے نکڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں: اے مسلمانو! چلو رب کے پاس، جو بڑا کریم ہے، جو نیکی اور بھلائی کے راستوں کا شعور اور توفیق دے کر تم پر احسان کرتا ہے، اور پھر نیکی کی شاہراہوں پر چلنے کا بہت بڑا اجر و انعام بھی عطا کرتا ہے۔ تمہیں اس کی طرف سے رات کو قیام اللیل کا حکم دیا گیا، تو تم نے تراویح و تہجد پڑھے۔ تم کو دن میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا، تو تم نے روزے رکھے۔ تم نے فی الحقیقت اپنے رب کی اطاعت کے تقاضے پورے کیے۔ یہ سنبھالو اپنے انعامات!
یقیناً عیدالفطر اخلاص و وفا کے پیکر بندۂ مومن کے اظہارِ استحقاق کا دن بھی ہے۔ اس نے صرف اور صرف اللہ کے لیے روزے رکھے، خواہشات سے منہ موڑا، اپنے نفس کو لگام دی اور حکم الٰہی کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہ دن ایک مزدور کا اپنے آقا سے حقِ خدمت وصول کرنے کا دن ہے۔ بلاشبہ یہ دن الصوم لی وانا اجزی بہٖ کے الٰہی وعدے کی تکمیل کی طلب و تقاضے کا موقع ہے۔ اللہ نے بھی اعلان کردیا اپنی بخشش و رضا کا اور بندۂ مومن کی مغفرت و اجرِ عظیم کا… نہ صرف یہ، بلکہ یہ جنت جو بندۂ مومن کے لیے بنائی گئی، اسے عطا ہوئی۔ ایک حدیث کے مطابق ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک اس مخلص و وفادار بندے کے لیے مسلسل سجائی جاتی رہے گی۔
عیدالفطر… اہلِ ایمان کی بخشش کا دن ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جب لوگ عید کی نماز پڑھ چکتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے: سنو لوگو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا۔ پس اب کامیاب و کامران اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ یہ دن تمہارے لیے انعام کا دن ہے۔ اس دن کو فرشتوں کی دنیا یعنی آسمان میں انعام کا دن کہا جاتا ہے۔
عیدالفطر… اہلِ ایمان کی یک جہتی اور اتحاد کا مظہر ہے۔ سب اہلِ اسلام روشن صبح کے نکھرے اجالوں میں اجلے کپڑوں اور اجلے دامن کے ساتھ… ایک ہی نغمہ و ترانۂ عظمتِ الٰہی گاتے… کھلے میدانوں میں ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر، ایک ہی مالک کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ کشادہ سینوں میں محبت و اخوت کے زمزمے رواں، نفرتیں دور، دشمنیاں ختم اور اخلاص و محبت کا اظہار، مصافحے، معانقے، مبارک باد… یہ سب امت کے جسدِ واحد اور بنیاِن مرصوص ہی کی تو تصویریں ہیں۔
عیدالفطر یومِ تجدید پیغامِ رمضان ہے۔
ضبطِ نفس… نفس کو لگام پہنا کر، دنیا کی خواہشات، حرص و طمع اور طلب و جستجو کی غلامی سے رہائی دلاکر… اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع داری کا خوگر اور غلام بنائے رکھنے کی تجدید… اللہ کی عزت و عظمت اور بالادستی پر ایمان و یقین کی مضبوطی کی تجدید… خود احتسابی، اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، خطائوں، معصیتوں اور نافرمانیوں کا جائزہ لے کر توبہ و استغفار کے تیس روزہ طرزِعمل کی تجدید… ندامت اور شرمساری کے احساس کے ساتھ مغفرت طلبی کی تجدید… جہنم سے آزادی کے حصول کے بعد، آزادی کی برقراری اور دوبارہ جہنم کی غلامی اور رسوائی کے طوق پہننے سے اجتناب کی تجدید… بے ریا اور مبنی براخلاص عملِ صوم و صلوٰۃ کے رویّے کی تجدید… تقویٰ کی شاہراہ پر چلنے کی عملی تربیت کے حصول کے بعد زندگی کے کارزار میں طویل سفر کے آغاز پر فقط اللہ ہی سے ڈرنے، اس کو نفع و ضرر پر قادر سمجھنے اور اسی کے خوف سے ہر معصیت سے بچتے رہنے کی تجدید… والعصر ان الانسان لفی خسرکی روشنی میں زندگی کا ہر لمحہ قیمتی خواب سمجھتے ہوئے، جواب دہی کا احساس تازہ کرتے ہوئے، شعوری طور پر گزارنے کے احساس کی تجدید… مقصدِ زندگی… اللہ ہی کی اطاعت و بندگی، تسلیم و رضا، اس کے دین کے غلبے و نفاذ، اس کے کلمے کی سربلندی، اس کی کبریائی کے اظہار کے لیے مسلسل اور اَن تھک جدوجہد کے شعور کی تجدید کا دن ہے!
عیدالفطر… رمضان المبارک کے ایک بڑے مقصد فرضیت… لعلکم تشکرون… شکر گزاری اور احسان شناسی کے عملی اظہار اور زندگی کے ہر لمحے میں رب کی عطا کردہ ہر نعمت و احسان پر شکر گزاری اور اعتراف… مسلسل اور اَن تھک جدوجہد کے شعور کی تجدید کا دن ہے۔
عیدالفطر… اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر دشمنی کے عملی اظہار کے ذریعے تکمیلِ ایمان کا موقع ہے۔ یہ دن اہلِ ایمان سے محبتوں، دوستیوں، وفا شعاریوں کی تجدید اور نفرتیں دور کرنے، اللہ کی خاطر دینے، لینے اور اپنی نفرتوں اور محبتوں کو اللہ کے حوالے سے ترتیب دینے کا دن ہے۔
عیدالفطر… اللہ کے سب سے بڑے اور خود انسان کے اپنے کھلے اور ظاہر دشمن شیطان سے مستقل اور اٹل ترکِ تعلق کا دن ہے۔ جب بندۂ مومن رمضان میں اپنے رب کے اس قدر قریب ہوگیا کہ اس نے اپنا سب کچھ ،بلکہ وانا اجزیٰ بہ کی صورت خود اپنے آپ کو بندے کے حوالے کردیا، خود اس کے اخلاص و وفا کی جزا بن گیا۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ یہی بندۂ مومن شیطان جیسے رقیبِ روسیاہ سے دوستی کرلے اور ہرجائی کا داغ اپنی قبائے محبت پر سجالے… ہرگز نہیں۔ نخلع ونترک من یفجرک… اے اللہ! کبھی نہیں… تیرا یہ مخلص، وفادار بندہ تیرے ہر نافرمان کو قطعاً چھوڑ دے گا اور تعلق و رشتے کا ہر حوالہ منقطع کرلے گا… یہی تو وہ اقرار ہے، جو وہ ہر شب نماز وتر میں کرتا ہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین… نہیں، نہیں! اے اللہ ہرگز نہیں! میں تیرا ہی وفادار ہوں، ویسے ہی جیسے رمضان میں رہا۔ زندگی کے ہر شب و روز اور لمحے میں تیرا ہی بندہ اور تیری ہی مدد و نصرت و توفیق کا طالب رہوں گا۔ عیدالفطر… بندۂ مخلص و مومن کے لیے اس اعلان پر جم جانے کا دن ہے۔
عیدالفطر… ہمدردی و غم گساری کے مہینے کی عطا کردہ تربیت کے مطابق صدقۂ فطر کی ادائیگی، صلۂ رحمی، پڑوسیوں اور مہمانوں کے حقوق کی ادائیگی، تحفے تحائف دینے، خوشیوں کے پیام پہنچانے اور مبارک دینے کے ذریعے اخوت و محبت کے اظہار کا نقطۂ عروج ہے۔ معاشرے کے محروم، لاچار، مسکین اور فقیر، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے، فاقے دور کرنے، غم اور دکھ ہلکے کرنے اور ان میں خوشیاں بانٹ کر… اس کنبے کے مالک و سربراہ کو خوش کرنے کا دن ہے۔
عیدالفطر… یوم عزم ہے!
رمضان میں نازل ہوکر اسے جشنِ بہاراں بنانے والے قرآنِ عظیم کی تلاوت و سماعت کرکے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بعد، اس پر تدبر و تفکر کرنے، اس کی تفہیم و توضیح و تفسیر سے مسلسل فیض یاب ہوتے رہنے کا، اور اپنے دلوں کے قفل توڑ کر، اپنے فکر و شعور کی جِلا، اس کی تطہیر و تعمیر کا، اور اس کے نزول کے حقیقی مقصد سے اپنی زندگی کا مکمل نظام بنانے، اور اپنے ہر معاملے کو اسی کے تابع کرنے کا، اور اسے لے کر اٹھنے، اس کے غلبہ و نفاذ اور اس کی حکمرانی و کارفرمائی اور ساری دنیا پر اس کے سائے کو پھیلا دینے، اس کے پیغام کو عام کردینے اور اس کی سربلندی کا فریضہ ادا کرنے اور کرتے رہنے کا عزم کرنے کا دن!
عیدالفطر دن ہے… اتباع و نفاذِ شریعت کے عزم کا…
اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و اطاعت، ان کے ہر حکم و مرضی پر راضی، مطمئن و مسرور رہنے کے عزم کا، بندگی کے جملہ تقاضوں کو ہر جگہ، ہر وقت، ہر لحظہ پورا کرتے رہنے کے عزم کا…
عیدالفطر دن ہے انی امروصائم کے تصور کے ذریعے ہربرائی سے کنارہ کش اور مجتنب رہنے کے عزم کا… الصوم جنۃ کے حصار میں رہ کر بھلائیوں اور نیکیوں کا طلب گار بن کر حق و صداقت اور ہدایت کی صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کا۔
عیدالفطر دن ہے… ہر مشکل، پریشانی، ہر مصیبت میں اسی مالک و آقا کے حضور دستِ سوال دراز کرنے، اس کی بارگاہ میں سجدہ ریزہ ہونے، اسی کے سامنے دکھڑے سنانے، اسی سے غم، رنج اور دکھ دور کرنے کی درخواست کرنے، اسی سے دعا و مناجات کرنے، اس سے دست گیری، مدد اور نصرت طلب کرنے، اسی سے کفیل و حسیب ہوجانے، خود اس کا بن جانے اور اسے اپنا بنالینے کے عزم کا!!
اے روزہ دار! بندۂ مومن!
آج عیدالفطر کے روز… ذرا ٹھیر جا… خوشیوں کے ان اَن گنت لمحوں میں ذرا پیچھے مڑ کر ضرور دیکھ لے… تُو نے تیس دن خوب زادِ سفر اکٹھا کیا… بے بہا اجر… رب کی رضا، رحمت و مغفرت اور جہنم سے آزادی کا سامان کرلیا… بہت محتاط و ہوشیار رہنا! کہیں ساری ریاضتیں، عبادتیں، تلاوتیں، ذکر و تسبیح، سجدے اور قیام اکارت نہ جائیں۔ شیطان اپنی چال نہ چل دے! دنیا کی زیب و زینت تجھے پھر سے اپنے جال میں نہ پھانس لے۔ رمضان نے تجھے اس جہنم سے بھی نکالا اور اُس جہنم سے بھی بچایا۔ اب ذرا سنبھل سنبھل کر، کہیں عیدالفطر کے روز ہی تُو خود کو ساری پابندیوں سے آزاد نہ سمجھ لے۔ خبردار! اب شیطان بھی آزاد ہوگئے اور جہنم کے دروازے بھی کھل گئے، روزے کا حصار بھی باقی نہیں رہا، اور رحمت کا سائبان بھی کچھ سرک گیا۔ اب تجھے رمضان میں جمع کردہ زادِ سفر اور رحمتوں کے خزانے کو سنبھال سنبھال کر رکھنا ہے اور اس ماہِ عظیم کی برکتوں، سعادتوں اور تربیت کے سہارے زندگی کے میدان میں اپنی حفاظت کرنا ہے۔ لہٰذا رمضان کی پابندیوں سے خود کو آزاد نہ سمجھنا۔
عید اس کے لیے نہیں… لیس العید لمن شرب واکل… جس نے محض کھایا، پیا، لذیذ و متنوع سحری، مرغن اور مشتہی افطاری… روزہ بھی اور نافرمانی کا ہر رویہ، ہر طرزِ عمل، بداخلاقی، فساد اور پستیِ کردار کا ہر مظاہرہ… اللہ کی اطاعت و بندگی کا کہیں نہ اقرار، نہ اظہار۔ اسے عید منانے کا کوئی حق نہیں۔ عید تو اس کی ہے… انما العید لمن اخلص للہ العمل… جس نے اپنی ذات اور اپنے ہر عمل کو اللہ ذوالجلال کے لیے خالص کرلیا، جو سب سے کٹ کر صرف اسی کا بن گیا… اپنی زندگی کا مرکز و محور اور مطمح نظر اس کو اور اس کے حکم کی بجا آوری کو بنالیا!!
عید اس کے لیے نہیں… لیس العید لمن رکب المطایا… جو شان و شوکت، فخر و غرور کے اظہار کے طور پر، اپنی عظمت و کبریائی کی خاطر سواریوں پر چڑھا، عیش و عشرت میں غرق اور یادِ خدا سے غافل ہوا… انما العید لمن ترک الخطایا… اصل عید تو اس کی ہے اور جشن منانے کا حق دار بھی وہی ہے، جس نے خطاکاری سے اجتناب اور اس کے ہر راستے سے گریز کیا، اور اسے اپنی عمومی زندگی کا طرزِعمل بنایا۔
عید اس کے لیے نہیں… لیس العید لمن لبس الجدید… جس نے فقط نئے اور خوب صورت لباس میں اپنے جسم و روح کی ناپاکی، گندگی اور غلاظت کو چھپایا۔ اس کا فقط ظاہر ہی اجلا ہوا۔ دل روشنی اور سعادت سے محروم رہا۔ نہ تطہیرِ فکر ہوسکی، نہ تعمیرِ افکار… قلب و نظر کے اندھرے دور ہوسکے، نہ دل کے سیاہ داغ دھل سکے… تن تو اجلا بن گیا، من پاکیزہ و صاف اور روشن نہ بن سکا!!
عید تو اس کے لیے ہے… انما العید لمن خاف الوعید… جس نے اللہ کی آیات، احکامات، فرامین و ہدایات، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو پڑھا، سنا، سیکھا، سمجھا، صدقِ دل سے ایمان لایا، اپنے دل اور عمل پر اسے نافذ کیا، اور اس کی سزا کے خوف سے لرزہ براندام رہا۔
عیدالفطر کا دن… جائزے اور تقابل کا دن ہے۔ اللہ کی رحمتوں اور اپنی لغزشوں کے تخمینے، جائزے اور موازنے کا دن… کہ اے بندۂ مومن! اپنے رحیم و کریم رب کے مقابل تُو کہاں کھڑا ہے؟ کیا تیرے دامن میں کوئی بھی ایسا عمل ہے، جو اس کی لامحدود عنایتوں کے مقابل وفاداری کا حوالہ بن سکے؟ پھر آخر… ماغرک بربک الکریم… اپنے رب کریم و رحیم کے مقابل تجھے کس چیز نے اس قدر سرکش و باغی اورجری اور بے وفا بنادیا اور دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے؟ تیرے لیے عیدالفطر کا پیغام یہی ہے کہ رمضان کی طرح پلٹ آ، اسی عفوبندہ نواز کے دامن میں! سر جھکادے اسی آقا و مولا کی بارگاہ میں اور اسی در کا سوالی بن جا اور اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجا، اس کے دامنِ رحمت سے لپٹ جا اور اسی شجرِ عاطفت سے وابستہ رہ اور امید ِبہار رکھ، کہ اس کے سوا کوئی جائے پناہ و امان نہیں!!
عیدالفطر… فی الحقیقت اے بندۂ مومن، تیرے طویل امتحان کا آغاز ہے۔ رمضان المبارک کی تربیت گاہ میں حاصل کردہ تعلیم و تزکیہ کا نصاب تجھے اس امتحان میں سرخرو کرسکتا ہے۔ اگر تُو اس عزم و تجدید اور تجدید ِ وفا کے جذبے سے عید منائے، تو تُو بڑا نیک نصیب ہے۔ تُو ہی عید منانے کا حق دار ہے۔ عیدالفطر… تیرے لیے… منزل نہیں، نشانِ منزل ہے، جہاں سے نیکیوں کا سفر ایک بار پھر شروع ہورہا ہے۔ عیدالفطر کے روز شروع ہونے والا تیرا یہ سفر یقیناً تیری حقیقی منزل، جنت تک پہنچ کر ہی ختم ہوگا،اِن شا اللہ!!