غم بانٹتی ہوئی ریاست ،خوشیاں تقسیم کرنا ہوا معاشرہ
انسان کے شعور کی جڑیں اس کے مذہب، تہذیب اور تاریخ میں پیوست ہوں تو اسے عید کے چاند سے ماضی اور حال یاد آسکتا ہے۔ ذرا اقبال کی نظم ہلالِ عید تو ملاحظہ فرمایئے:
غرّۂ شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریر پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبحِ عیش کی تمید ہے
سرگزشت ملتِ بیضا کا تُو آئینہ ہے
اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفتِ دیرینہ ہے
جس علَم کے سائے میں تیغ آزما ہوتے تھے ہم
دشمنوں کے خون سے رنگیں قبا ہوتے تھے ہم
تیری قسمت میں ہم آغوشی اسی رایت کی ہے
حسنِ روز افزوں سے تیرے آبرو ملت کی ہے
آشنا پرور ہے قوم اپنی، وفا آئیں ترا
ہے محبت خیز یہ پیراہنِ سیمیں ترا
اوجِ گردوں سے ذرا دنیا کی بستی دیکھ لے
اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے!
قافلے دیکھ، اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ
دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ، ان کی گرفتاری بھی دیکھ
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
بارشِ سنگِ حوادث کا تماشائی بھی ہو
امتِ مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
ہاں، تملّق پیشگی دیکھ آبرو والوں کی تُو
اور جو بے آبرو تھے، ان کی خودداری بھی دیکھ
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا
اس حریفِ بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ
آج ہمارا عالم یہ ہے کہ ہر سال عید کا چاند آتا ہے مگر اسے دیکھ کر نہ ہمیں اپنی تاریخ یاد آتی ہے، نہ مسلم دنیا کا موجودہ منظرنامہ یاد آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہمارے شعور کی جڑیں اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ میں گہری نہیں ہیں۔ اس معاملے کا ایک پہلو اور ہے۔ سلیم احمد نے اپنے ایک قطعے میں اس کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے:
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
’’اجتماعی آدمی‘‘ صرف سلیم احمد کے اندر نہیں مررہا، ہم سب کے اندر مر رہا ہے۔ چنانچہ اب کوئی علامت اور کوئی استعارہ ہمارے شعور کو متحرک نہیں کرتا۔ وہ ہم سے کوئی نظم کیا ایک مضمون تک نہیں لکھواتا۔
آج سے چالیس سال پہلے عید ایک ’’روحانی واردات‘‘ تھی۔ کروڑوں مسلمان گھروں کی چھتوں اور گلیوں میں کھڑے ہوکر اس طرح عید کا چاند تلاش کرتے تھے جیسے وہ کوئی خزانہ تلاش کررہے ہوں، اور جب عید کا چاند نظر آتا تھا تو ان کو ویسی ہی خوشی ہوتی تھی جیسی کہ خزانہ ملنے پر کسی کو ہوسکتی ہے۔ اُس وقت ہمارے اندر ’’اجتماعی آدمی‘‘ زندہ تھا، چنانچہ عید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ چھوٹے طبقات میں عید کی خوشی تقریباً ایک جشن کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ’’عید‘‘ اپنے پیاروں کی ’’دید‘‘ تھی۔ چھوٹے قصبات کے ہزاروں لوگ شہروں میں ملازمت کرتے تھے۔ عید کے موقع پر وہ سب اپنے گھروں کی طرف لوٹتے تھے۔ صبح کو ایک دوست آتا تھا، دوپہر کو دوسرا، سہ پہر کو تیسرا اور شام کو چوتھا۔ دوست، دوستوں کو دیکھ کر اُن کی طرف لپکتے تھے اور ایک دوسرے سے لپٹ جاتے تھے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خوشی کا ہر تصور ’’دوسرے‘‘ سے متعلق ہے۔ اگر ہماری خوشی پر کوئی خوش ہونے والا نہ ہو تو ہماری خوشی بے کار ہے۔ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے ہمارے اندر ’’اجتماعی آدمی‘‘ زندہ تھا، چنانچہ ہم سب ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوکر خوشی کو دوبالا کررہے تھے۔ اب انسانی رشتوں میں گہرائی اور بے ساختگی باقی نہیں رہی، چنانچہ اب ہماری عید بھی پھیکی گزرتی ہے۔ اس میں کوئی جوش، کوئی ولولہ نہیں ہوتا۔ اس میں کسی کا انتظار نہیں ہوتا۔ اس میں کسی سے ملنے کی خوشی نہیں ہوتی۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے جب قریبی مہمان رخصت ہوتے تو اُن کی رخصتی پر سارا گھر اشک بار ہوجایا کرتا تھا۔ اب اوّل تو مہمان آتے ہی نہیں۔ آتے ہیں تو اُن کے آنے اور جانے سے دل میں کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ اب بڑے شہروں میں لوگوں کی اکثریت سوکر عید کا دن گزارتی ہے۔ جب انسانوں کی قسمت سو جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اجتماعی آدمی کی موت نے ہمارے اندر نہ جانے کس کس چیز کو مار دیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ ریاست بھی ہماری امیدوں اور خوشیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ لوگوں کو اورنگ زیب عالمگیر سے ہی نہیں اُس بہادر شاہ ظفر سے بھی امید تھی جس کی حکومت قلعہ معلی تک محدود ہوچکی تھی۔ چنانچہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے سپہ سالار جنرل بخت خان نے جنگِ آزادی کے دوران بہادر شاہ ظفر سے ایک سے زیادہ ملاقاتیں کیں۔ اس نے بہادر شاہ ظفر سے کہاکہ پورا ہندوستان آج بھی آپ ہی کو حکمران سمجھتا ہے اور وہ آپ کی پشت پر کھڑا ہے، آپ قلعے سے نکلیں، ہمارے پاس محفوظ علاقہ ہے، آپ وہاں سے جنگِ آزادی کی قیادت کریں، پورا ہندوستان آپ کی قیادت میں انگریزوں سے جنگ کرے گا۔ مگر دربار میں انگریزوں کے ایجنٹ موجود تھے، انہوں نے بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ جنرل بخت خان کا کیا بھروسا! کیا خبر وہ آپ کو مار کر تخت پر قبضہ کرلے۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر قلعے سے نکلنے پر آمادہ نہ ہوا اور ہندوستان مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ جنرل بخت خان ہی کو نہیں، پورے ہندوستان بالخصوص مسلم ہندوستان کو بہادر شاہ ظفر سے بڑی امیدیں تھیں۔ مگر اب جو حکمران ہمیں فراہم ہیں اُن سے کسی کو کوئی امید نہیں۔ ان حکمرانوں کے عہد میں ہماری عید بھی محرم کی طرح گزرتی ہے۔ ہمیں اپنے حکمرانوں کے نام سے کوئی خوشی ہوتی ہے، نہ کام سے کوئی مسرت ہاتھ آتی ہے۔ ان حکمرانوں نے پورے پاکستان کو ایک بڑا یتیم خانہ بناکر رکھ دیا ہے۔ حکمرانوں کا کام ریاست کے نظریے سے وفاداری نبھانا ہے، مگر پاکستان کے حکمران ملک کے نظریے سے کوئی روحانی، نفسیاتی اور جذباتی تعلق محسوس نہیں کرتے۔ ان کی رال کبھی سوشلزم پر ٹپکتی ہے، کبھی سیکولرازم اور لبرل ازم پر ٹپکتی ہے۔ انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے ملک میں اسلام نافذ کردیا تو امریکہ اور یورپ ناراض ہوجائیں گے۔ مگر انہیں اس امر کی پروا نہیں کہ اگر انہوں نے اسلام نافذ نہ کیا تو خدا ان سے ناراض ہوجائے گا۔ حکمران ملک کی آزادی اور خودمختاری کے محافظ ہوتے ہیں، مگر ہمارے حکمرانوں نے ملک کی آزادی اور خودمختاری امریکہ، یورپ اور آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوا دی ہے۔ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ قوم کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کریں، مگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کی عظیم اکثریت کو تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم کرکے انہیں ہزاروں خوشیوں سے محروم کیا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران قوم میں دکھ، غم اور اذیت تقسیم کررہے ہیں۔ دنیا میں ریاستیں عوام کو سب کچھ دے کر ان سے وفاداری کا مطالبہ کرتی ہیں، مگر ہمارے حکمران عوام سے سب کچھ چھین کر اُن سے وفاداری کے طالب ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریاست اپنے شہریوں کے ہر دن کو عید بناکر اُن سے وفاداری کی طالب ہوتی ہے، مگر ہمارے حکمران اپنے شہریوں کے ہر دن کو آزمائش بناکر اُن سے وفاداری کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ہمارے سامنے ہے کہ کورونا نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے مگر دنیاکے متعدد ملکوں کے حکمران ویکسین کی ڈھال کے ذریعے اپنے شہریوں کا دفاع کررہے ہیں، مگر پاکستان میں اب تک ایک فیصد شہریوں کو بھی ویکسین فراہم نہیں کی جا سکی ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال کی طرح اِس سال بھی پاکستانی قوم کی عید کورونا کے خوف میں بسر ہوگی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے کہ جہاں ریاست شہریوں میں غم بانٹنے کا کام کررہی ہے، وہاں معاشرہ ریاست سے زیادہ زندگی اور توانائی کا ثبوت دیتے ہوئے خلقِ خدا میں خوشیاں تقسیم کررہا ہے۔ پاکستان میں 2005ء کے زلزلے کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ زلزلہ آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ زلزلے سے ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا۔ اس منظرنامے میں ’’ریاست‘‘ کہیں بھی موجود نہ تھی مگر ’’معاشرہ‘‘ ہر جگہ موجود تھا، اور ریاست کا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ادا کررہا تھا۔ جماعت اسلامی انتخابی کامیابی کے تناظر میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے، مگر یہ جماعت زلزلے میں تقریباً ایک ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔ جماعت نے زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی امداد پر نقد اور اشیا کی صورت میں پانچ ارب روپے خرچ کر ڈالے۔ جماعت اسلامی کی ’’خدمات‘‘کی بھی قیمت لگائی جائے تو جماعت نے زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد پر بیس سے پچیس ارب روپے خرچ کیے۔ جماعت کو یہ تمام وسائل معاشرے نے مہیا کیے۔ جماعت نے معاشرے پر اور معاشرے نے جماعت پر بھروسا کیا۔ سندھ میں سیلاب آیا تو جماعت اسلامی ایک بار پھر معاشرہ ہونے کے باوجود ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے لوگوں کو سیلاب سے نکالا، ان کو غذا مہیا کی، علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کیں، انہیں ایک ایک کمرے کے مکانات بناکر دیے۔ کراچی میں جماعت نے سندھ کے متاثرہ لوگوں کی اس طرح خبر گیری کی کہ دیہی سندھ کے سادہ لوح افراد جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے نظر آئے کہ اب وہ لوٹ کر واپس گھر نہیں جانا چاہتے، اب جماعت انہیں کراچی ہی میں گھر بنوا کر دے دے۔ یہ جماعت کے لیے ممکن نہیں تھا، مگر لوگوں کے اس تعلق اور مطالبے سے اتنا تو ثابت ہو ہی گیا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور جماعت نے معاشرہ ہونے کے باوجود مظلوموں کی مدد کے سلسلے میں ماں بن کر دکھایا۔ ظاہر ہے کہ صرف جماعت اسلامی عوام کی خدمت نہیں کررہی، درجنوں ادارے کروڑوں لوگوں کی مدد کے لیے متحرک ہیں۔ یہ ادارے لاکھوں لوگوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ روزانہ لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ غریبوں، مسکینوں اور بیوائوں کی مدد کررہے ہیں۔ یہ ادارے بتا رہے ہیں کہ اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود معاشرہ زندہ ہے، بیدار ہے اور متحرک ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یہ معاشرہ صرف رمضان میں ڈیڑھ سو ارب روپے کی خیرات کرتا ہے۔ یہ معاشرہ پورے سال میں امدادی سرگرمیوں پر ساڑھے تین سو ارب روپے کی خطیر رقم صرف کرتا ہے۔ یہ ساری رقم عام لوگ فراہم کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرہ اپنی تمام کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود خلقِ خدا میں خوشیاں تقسیم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ معاشرہ کروڑوں لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ معاشرے کی یہ زندگی اسلام کی عطا ہے۔ اسلام اور اس سے متاثرہ معاشرہ نہ ہوتا تو پاکستان کے حکمرانوں نے کروڑوں لوگوں کی زندگی کو جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔