چالیس برس قبل ہندوستان کے احباب سے میرا رابطہ شروع ہوا۔ دہلی کے خالد صابر صاحب سے فرمائش کرکے ’’الرسالہ‘‘ بذریعہ ڈاک منگوانا شروع کیا۔ ایک صفحے پرصرف ایک مضمون اور وہ بھی کہانی کے انداز میں۔ یوں لگتا جیسے بچپن میں سنی اور پڑھی جانے والی کہانیاں زندہ ہوگئیں۔ افسانوی رنگ کی جگہ چلتے پھرتے واقعات اورحقیقی دنیا کے زندہ کردار۔ یوں پہلا تاثر تو یہ بنا کہ گویا شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان، اور رومی کی حکایات کے جدید ایڈیشن شائع ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ ہر صفحہ نصیحت، دانائی اور حکمت سے بھرپور، اور ہر سطر دلچسپ اور دلنشین… کئی برس ’’الرسالہ‘‘ انڈیا سے بذریعہ ڈاک آتا رہا۔ اسی دوران میں مولانا کی دیگر کتب بھی پڑھنے کو ملیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ پڑھ کر احساس ہواکہ مولانا اس میدان میں نہ ہی اُترتے تو بہتر تھا۔ ایک فرد کے لیے تو مولانا باکمال طبیب ثابت ہورہے تھے، لیکن ملت اور اُمت کے لیے ان کی دانائی کا رنگ پھیکا پھیکا سا لگا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مولانا وحیدالدین پہلے آدمی ہیں جنہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اقامتِ دین کی فکر سے اختلاف کرکے کوئی نیا نقطۂ نظر دیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اس معاملے میں اوّل آدمی تو پروفیسرقمرالدین خان ہیں جو جماعت کی تاسیس کے بعد پہلے ناظم شعبہ تنظیم مقرر ہوئے۔ آپ نے علی گڑھ سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کررکھا تھا۔ 1942ء ہی میں جماعت سے الگ ہوکر مولانا مودودیؒ کو چیلنج کرتے ہوئے کتاب لکھی “Political Concept in the Quran”۔ پروفیسر صاحب کی تعبیر یہ تھی کہ ’’قرآن کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے، قرآن نہ کوئی تصورِ ریاست اور نظریۂ اقتدارِ اعلیٰ پیش کرتا ہے،نہ قرآن میں کوئی عدالتی ڈھانچہ ہے اور نہ کوئی مالیاتی نظام۔ اسلام اخلاقی تعلیمات کا ایک مجموعہ ہے۔ ’’قرآن کے بعض الفاظ سے جو سیاسی تصورات کشید کیے گئے ہیں وہ چند سیاسی مہم جو لوگوں کی ذہنی اُپچ ہے۔ ‘‘
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے قمرالدین صاحب کے اس ’’تحقیقی کام‘‘ کا کوئی جواب نہ دیا، البتہ پروفیسر عبدالحمید صدیقی مرحوم نے اس کا تفصیلی جواب تحریر کیا۔ اس کا ایک جملہ یہ تھا: ’’اسلام ایک کیش مرداں ہے لیکن پروفیسر صاحب نے اس کو مذہب گوسفنداں بناکر پیش کیا ہے۔‘‘
اسی دوران میں مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری بھی جماعت سے الگ ہوئے۔ اقامتِ دین کے بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ کر ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ کو پیارے ہوگئے۔ وہاںاجتہادی مسائل اور قدیم آراء کو ماڈرن بنانے کاکام شروع کردیا۔ ایک ایک کرکے روشن خیالی، رخصتوں اور پسپائی کے دروازے کھولتے رہے۔
1990ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ حریت، شاہ بانوکیس، بھارت میں مسلم کُش فسادات، گولڈن ٹمپل کا سانحہ، یادوں کی رتھ یاترا اور بابری مسجد کے تنازعے سے پورے ہندوستان میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس دوران ہندوستان کی طلبہ تنظیم…Student Islamic Movement of India نے ممبئی میں طلبہ کی ایک بڑی کانفرنس میں مجھے مدعو کیا۔ کانفرنس کیا تھی، جوش و جذبے کا طوفان بعنوان ’’اقدام اُمت کانفرنس‘‘… ہندوستان جا کر اقدام اُمت کانفرنس کے پوسٹر دیکھے، ان پر سرخی جمی تھی ’’ہندوستان منتظر ہے ایک اور شہاب الدین غوری کا‘‘۔ بلند آہنگ تقریریں تھیں اور عزم و ہمت اور قربانی کے عہد باندھے جارہے تھے۔ ان جوان جذبوں کی پشت پر ہندوستان کی تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے ’’بابری مسجد ایکشن کمیٹی‘‘ تدبر اور دانائی، جوش کو ہوش میں قید رکھنے کے لیے موجود تھی۔
دوسری طرف مولانا وحیدالدین خان ’’الرسالہ‘‘ میں ہندوستان کی اجتماعی مسلم فکر کے برعکس صبر سے زیادہ پسپائی کا درس دے رہے تھے۔ ہندوستان کے عام مسلمان محسوس کررہے تھے کہ مولانا کی یہ آراء انتہاپسندانہ ہندو سوچ کو ایک فاتحانہ دلیل فراہم کررہی ہیں۔
دورۂ ہندوستان میں خیال تھاکہ مولانا وحید الدین خان سے ملاقات کرکے کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سنا جائے۔ اُن سے ملاقات دہلی میں تو نہ ہوسکی لیکن کچھ عرصے بعد یہ موقع لاہور میں مل گیا۔ جماعت اسلامی ہی کے ایک ساتھی شیخ کرامت صاحب مرحوم نے جن کا کویت میں پبلشنگ ہائوس تھا، مولانا وحید الدین خان کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ وہاں تو ملاقات اجتماعی ہی رہی، البتہ ائیرپورٹ پر انہیں الوداع کہنے والوں میں، مَیںبھی تھا۔ ائیرپورٹ لاؤنج میں آمنے سامنے بیٹھ کر تبادلۂ خیال کا ایک اچھا موقع ملا۔ جب انہیں پتا چلاکہ میں جماعت اسلامی کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہوں اور کئی سال سے ’’الرسالہ‘‘ کا قاری بھی ہوں تو وہ میری طرف متوجہ ہوئے۔ جب میں نے ان سے کہاکہ میں نے ’’عسر اور یسر‘‘ (Advantage and Disadvantage)کا سبق ان سے صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ سیکھا ہے، تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد میں نے اپنا اصل سوال کرڈالا کہ آپ ملت کو جس صبر کی تلقین کرتے ہیں، اقدام سے قبل تیاری کے مرحلے کی حد تک تو وہ قابلِ قبول ہے، لیکن آپ تیاری کا لائحہ عمل دینے کے بجائے پسپائی کا فارمولا بیان کردیتے ہیں جس کا قرآن اور سیرت میں تو کوئی سراغ نہیں ملتا۔ میری اس بات پر کچھ دیر تو وہ خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں اقدام کا مخالف نہیں ہوں۔ میں صحیح تیاری اور مناسب وقت کے ساتھ اقدام کا قائل ہوں۔ لیکن جب میں نے عرض کیاکہ آپ کا یہ نقطۂ نظر توآپ کی تحریروں میں واضح نہیںہے۔ اس پر کہنے لگے کہ وہ کام تو بہت سے لوگ کررہے ہیں، اگر میں نے بھی وہی شروع کردیا تو جو چیز میں لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ کنفیوژن کا شکار ہوجائے گی۔ اس صاف جواب سے مجھے لگاکہ اس بحث کومزید بڑھانا بے سود ہے۔ یہ بھی مولانا کی بڑی خوبی تھی کہ وہ ہمیشہ بحث سے بچ نکلتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھ سے میری تعلیم اور کام کے بارے میں بھی پوچھا، جب میں نے بتایاکہ میں جماعت کے کام کے علاوہ ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلاتا ہوں تو انہوں نے پوچھاکہ آپ یہ دونوں فل ٹائم کام کیسے کرلیتے ہیں؟ تو میں نے پاک ٹیل کے اس بڑے موبائل سیٹ کی طرف اشارہ کیا جو اُس وقت میرے ساتھ تھا کہ اس کی بدولت مجھے بڑی سہولت رہتی ہے اور میں کہیں پر بھی ہوں جماعت اسلامی اور اپنے کاروباری دفتر سے جڑا رہتا ہوں۔ اس ملاقات کے بعد چند ماہ بعد ’’الرسالہ‘‘ کا شمارہ ملا، اس میں مولانا وحید الدین خان صاحب نے لاہور ائیرپورٹ لاؤنج میں مجھ سے ملاقات کا ذکر کیا۔ لیکن ملاقات میں اصل سوالات کے بجائے موبائل سیٹ کی بدولت انسانی زندگی میں جو آسانیاں اور امکانات پیدا ہورہے ہیں، ان کاذکر تھا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب اپنے رب کے حضور پیش ہوچکے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے ساتھ آسان معاملہ فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،آمین۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے۔ قومی اور ملّی مسائل کو زمینی حقائق کی عینک سے عجلت، جہالت، اشتعال، جذباتی پن اور شارٹ کٹ وغیرہ قرار دینا تو اچھا تھا، لیکن مسلم حکمرانوں، بادشاہوں، سیاسی اشرافیہ اور متکبرین کی کمزوریوں اور اغیار کی سازشوں سے آنکھیں بند کرلینا یک رخا پن تھا۔کاش وہ اپنے اسباق کو حکمتِ عملی تک محدود رکھتے تو ملت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتے۔
) امیر العظیم،سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان-5مئی 2021ء رونامہ ”جنگ “کراچی)