اصلاحِ نفس کے لیے ایک آدمی اللہ والے کی خدمت میں حاضر ہوا اور شیخ کے تجویز کردہ اوراد و وظائف کو پابندی کے ساتھ پڑھنے لگا۔ شیخ کے گھر سے ایک خادمہ اس کے لیے کھانا لایا کرتی تھی۔ چند دنوں کے بعد وہ اصلاحِ نفس کرنے والا آدمی نفس کے جال میں پھنسنا شروع ہوگیا۔
وہ آہستہ آہستہ خادمہ کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔ جب خادمہ کھانا لے کر آتی، وہ اسے دیکھتا رہتا۔ خادمہ اللہ والوں کی نوکر تھی۔ اس نے صاف صاف شیخ صاحب کو بتلادیا کہ حضور آپ کا فلاں مرید میرے عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ اب اس کو اوراد و وظائف سے کیا نفع ہوگا! پہلے اس کا یہ مسئلہ حل کریں۔ شیخ صاحب یہ سن کر خاموش ہوگئے اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے کہ الٰہی مجھے اس مسئلے کا حل عطا فرما۔ چند دنوں کے بعد شیخ صاحب نے خادمہ کو اسہال کی دوا دی اور ساتھ حکم دیا کہ تجھے جتنے دست آئیں سب کو ایک طشت میں جمع کرتی رہنا۔ یہاں تک کہ اس کو بیس دست ہوئے جس سے وہ انتہائی کمزور اور لاغر ہوگئی، چہرہ پیلا ہوگیا، آنکھیں دھنس گئیں، رخسار اندر کو بیٹھ گئے، ہیضے کے مریض کی طرح خادمہ کا چہرہ بھی مکروہ سا ہوگیا اور تمام حسن جاتا رہا۔
شیخ نے خادمہ سے کہاکہ آج اس کا کھانا لے جا۔ اور خود بھی آڑ میں چھپ کر کھڑے ہوگئے۔ اس عاشق مرید نے جیسے ہی خادمہ کو دیکھا، کھانا لینے کے بجائے اس کی طرف سے چہرہ پھیرلیا اور کہا کھانا وہاں رکھ دو۔ شیخ فوراً آڑ سے نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ اے بے وقوف آج تُو نے اس خادمہ سے رخ کیوں پھیرلیا؟ اس کنیز سے کیا چیز گم ہوگئی جو تیرا عشق آج رخصت ہوگیا؟ پھر شیخ نے حکم دیا کہ وہ پاخانے کا طشت اٹھالا۔ جب اس نے وہ طشت سامنے رکھ دیا تو شیخ نے مرید کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ اے بے وقوف اس خادمہ کے جسم سے سوائے اتنی مقدار پاخانہ کے اور کوئی چیز خارج نہیں ہوئی، معلوم ہوا کہ تیرا عشق درحقیقت یہی پاخانہ تھا، جس کے نکلتے ہی تیرا عشق غائب ہوگیا۔
درسِ حیات: اے لوگو! جس گھنگھرو والی زلفِ مشک بار پر آج تم فریفتہ ہو، یہی زلف تم کو ایک دن بوڑھے گدھے کی دُم کی طرح بری معلوم ہوگی۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ ”حکایاتِ رومیؒ“)