کوفہ کے باشندوں نے مامون کے پاس اپنے گورنر کی شکایت کی اور کہا کہ اس کا تبادلہ کردیجیے۔ مامون نے حیران ہوکر کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ میرے گورنروں میں اس سے زیادہ عادل اور اس سے زیادہ راست باز کوئی نہیں‘‘۔
اس پر ایک شخص بولا: ’’امیرالمومنین! اگر ہمارا گورنر واقعی ایسا ہے تو پھر آپ کو اہلِ ملک کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے اس سے ہر شہر کو مستفید کرنا چاہیے۔ اگر ایسا کریں تب بھی کوفہ کے حصے میں اس کے تین سال سے زائد نہیں آئیں گے‘‘۔
مامون اس پر ہنس پڑا اور حاکم کا تبادلہ کردیا۔
ایک اور شخص مامون کو راستے میں ملا اور کہنے لگا: ’’میں ایک عرب ہوں‘‘۔
’’یہ کوئی عجیب بات نہیں‘‘۔ مامون نے کہا۔
’’میں حج کو جانا چاہتا ہوں‘‘۔ وہ شخص بولا۔
’’راستہ سامنے ہے، چلے جائو‘‘۔ مامون نے جواب دیا۔
’’میرے پاس پیسے نہیں‘۔‘ وہ کہنے لگا۔
’’تو تم پر حج فرض ہی نہیں رہا‘‘۔ ماموں نے کہا۔
اس پر اُس شخص نے برجستہ کہا: ’’میں آپ سے فتویٰ نہیں ہدیہ لینے آیا تھا‘‘۔
مامون ہنس پڑا اور اسے انعام دیا۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ ”تراشے“)