عید کی مبارکباد کے حقیقی مستحق وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک میں روزے رکھے۔ قرآن مجید کی ہدایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی فکر کی، اس کو پڑھا، سمجھا، اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی اور تقویٰ کی اس تربیت کا فائدہ اٹھایا جو رمضان المبارک ایک مومن کو دیتا ہے۔
قرآن مجید میں رمضان کے روزوں کی دو ہی مصلحتیں بیان ہوئی ہیں:
ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں میں تقویٰ پیدا ہو: کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (البقرہ 2 :183) تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
دوسری یہ کہ مسلمان اس نعمت کا شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے رمضان میں قرآن مجید نازل کرکے ان کو عطا کی ہے: لتکبروا اللّٰہ علٰی ماھدا کم و لعلکم تشکرون (البقرہ2 :184) اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
دنیا میں اللہ جل شانہٗ کی سب سے بڑی نعمت نوعِ انسانی پر اگر کوئی ہے تو وہ قرآن مجید کو نازل کرنا ہے… اس کا شکر ادا کرنے کی یہ صورت نہیں ہے کہ آپ بس زبان سے شکر ادا کریں اور کہیں کہ اللہ تیرا شکر ، تُو نے قرآن ہمیں دیا۔ بلکہ اس کے شکرکی صحیح صورت یہ ہے کہ آپ قرآن کو سرچشمۂ ہدایت سمجھیں، دل سے اس کو رہنمائی کا اصل مرجع مانیں اور عملاً اس کی رہنمائی کا فائدہ اٹھائیں… اگر کسی نے رمضان المبارک کے زمانے میں قرآن کو اس نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اس کی تعلیم و ہدایت کو زیادہ سے زیادہ اپنی سیرت و کردار میں جذب کرلے تو اس نے واقعی اس نعمت پر اللہ کا صحیح شکر ادا کیا ہے۔ وہ حقیقت میں اس پر مبارکباد کا مستحق ہے کہ رمضان المبارک کا ایک حق جو اس پر تھا، اسے اُس نے ٹھیک ٹھیک ادا کردیا۔
رمضان المبارک کے روزوں کا دوسرا مقصد جس کے لیے وہ آپ پر فرض کیے گئے ہیں، یہ ہے کہ آپ کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ آپ اگر روزے کی حقیقت پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگاکہ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کیا چیز ہے؟ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے اور اس کی فرماں برداری اختیار کرے۔ روزہ مسلسل ایک مہینے تک آپ کو اسی چیز کی مشق کرواتا ہے۔ جو چیزیں آپ کی زندگی میں عام طور پر حلال ہیں وہ بھی اللہ کے حکم سے روزے میں حرام ہوجاتی ہیں، اور اُس وقت تک حرام رہتی ہیں جب تک اللہ ہی کے حکم سے وہ حلال نہ ہوجائیں۔ پانی جیسی چیز جو ہر حال میں حلال و طیب ہے، روزے میں جب اللہ حکم دیتا ہے کہ یہ اب تمہارے لیے حرام ہے تو آپ اس کا ایک قطرہ تک حلق سے نہیں اتار سکتے خواہ پیاس سے آپ کا حلق چٹخنے ہی کیوں نہ لگے۔ البتہ جب اللہ پینے کی اجازت دے دیتا ہے اُس وقت آپ اس کی طرف اس طرح لپکتے ہیں گویا کسی نے آپ کو باندھ رکھا تھا اور آپ ابھی کھولے گئے ہیں۔ ایک مہینے تک روزانہ یہ باندھنے اور کھولنے کا عمل اسی لیے کیا جاتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری بندگی و اطاعت کے لیے تیار ہوجائیں۔ جس جس چیز سے وہ آپ کو روکتا ہے اس سے رکنے کی اور جس جس چیز کا وہ آپ کو حکم دیتا ہے اس کو بجا لانے کی آپ کو عادت ہوجائے۔ آپ اپنے نفس پر اتنا قابو پالیں کہ وہ اپنے بے جا مطالبات اللہ کے قانون کے خلاف آپ سے نہ منوا سکے۔ یہ غرض ہے جس کے لیے روزے آپ پر فرض کیے گئے ہیں۔
اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارکباد کا مستحق ہے، اور اُس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی گیارہ مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اٹھاتا رہے۔
آپ غورکیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اسے حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ اس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھاکر اسے ہضم کرے اور اس سے خون بن کر اس کے جسم میں دوڑے تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاق تربیت ان روزوں نے آپ کو دی ہے، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں بلکہ گیارہ مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔ یہ فائدہ اگر کسی شخص نے اس رمضان سے حاصل کرلیا تو وہ واقعی پوری پوری مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت پالی۔
(تفہیمات، چہارم، اکتوبر 1989ء، ص 166۔170)