آہ !شکیل فاروقی

آہ! اس کورونا نے ہم سے کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیاں چھین لی ہیں۔ کیسے کیسے ہیرے جیسے احباب ہم سے جدا ہوگئے۔ سوچیں تو ایک کہکشاں تھی جو ویران ہوگئی۔ ایک چمن تھا جو اجڑ گیا۔ کیسی کیسی شوخ و شنگ محفلیں تھیں جو خاموش ہوگئیں۔ جب یاد آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کس کس کا ذکر کریں۔ شروعات میں ہی ہم سب کا بہت ہی خوبصورت اور پیارا دوست اسلام الدین ظفر ہم سے روٹھ گیا۔ لرزتے ہاتھوں اور بہتی آنکھوں سے ظفر بھائی پر کالم لکھا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ بھائی شکیل فاروقی پہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں! ایک گل دستہ ہے حسین پھولوں کا، جس میں ہر رنگ اور ہر خوشبو کی چاندنی پھیلی ہوئی ہے۔ خون جگر سے اشک پیازی بن کر قلم کے ذریعے قرطاس پر بکھر رہا ہے۔ انگلیاں فگار ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں! شکیل بھائی کی شخصیت کے اتنے رنگ اور اتنی خوشبوئیں ہیں کہ سب کا احاطہ کرنا وہ بھی ایک کالم میں، محال است و جنوں است۔ اس کے لیے اگر کوئی ہمت کرے تو کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ پھر بھی اپنی سی کوشش کرتا ہوں، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات-
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
بھائی شکیل فاروقی سے میرا تقریباً سات سال کا فرق ہے۔ ظاہر ہے اتنے لمبے فرق کی وجہ سے نہ تو میں انہیں جانتا تھا، نہ ہی وہ مجھ سے واقف تھے۔ میں ریٹائرمنٹ کے بعد تنہائی کا شکار ہوگیا اور اپنی گھریلو مصروفیات میں الجھ کر رہ گیا، ساتھ ہی میری سماجی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی محدود ہوگئیں۔ اسی دوران اتفاقاً سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے ایک دعوت نامہ موصول ہوا جس میں ایک ادبی نشست ”ایک مصنف ایک کتاب“ کا ذکر تھا۔ یہ محفل اسٹاف کلب جامعہ کراچی میں ہوئی۔ ہم بھی اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ اس محفل میں ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے مچھلی پانی میں دوبارہ واپس آگئی ہو۔ اپنے اندر ایک نئی حرارت، ایک نئی زندگی، ایک نیا جوش موجزن ہوتا ہوا پایا۔ اس محفل کے روحِ رواں شکیل بھائی تھے۔ اتنے نفیس انسان تھے کہ پہلی ملاقات میں ہی ایسا لگا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہمارے اندر بہت سی قدریں مشترک تھیں، ہم نہ صرف جامعہ کراچی کے طالب علم رہے تھے بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ سے بھی تعلق تھا، اور اس حوالے سے انجمن طلبہ جامعہ کراچی سے بھی وابستہ رہے تھے۔ ان سب باتوں کے علاوہ ادب و شعر و سخن اور تقریر و تحریر کے معاملے میں بھی ہم مزاج تھے۔
اس پروگرام کا آغاز بھی شکیل بھائی نے ہماری تلاوتِ قرآن سے کروایا۔ پروگرام مجموعی طور پر بہت ہی زوردار تھا۔ ہمیں ایسا چسکا لگا کہ اس کے بعد شاید ہی کوئی پروگرام ہم سے چُھوٹا ہو۔ دوپہر ساڑھے تین بجے کا وقت آغازِ پروگرام کے لیے مقرر کیا جاتا تھا اور ٹھیک 4 بجے پروگرام شروع ہوجاتا تھا۔ شکیل بھائی نے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے بہت دل چسپ طریقے ایجاد کرلیے تھے۔ سب سے پہلے آنے والے پانچ افراد کو تحفتاً کوئی نہ کوئی کتاب دی جاتی تھی۔ تلاوت کے بعد نعت خوانی بھی ہوتی تھی، اس کے بعد شکیل بھائی جامعہ کراچی کی تاریخ کو بہت خوبصورت انداز میں گوش گزار کرتے تھے جسے حاضرین کبھی بھلا نہ سکیں۔ اس کے بعد کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر سا تعارف ہوتا تھا، اور پھر صاحبِ کتاب کو اظہارِ خیال کا موقع دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مصنف اپنی کتاب کے چند اقتباسات پڑھ کر سناتا اور پھر سوال جواب کی دلچسپ محفل شروع ہوجاتی تھی۔ اس طرح حاضرین کو کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا تھا۔ بعد ازاں تحفے تحائف اور جامعہ کے سووینیرز مہمانوں کو تقسیم کیے جاتے، اور اختتامی کلمات اور دعاؤں پر اس خوبصورت نشست کا اختتام ہوتا تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد ریفریشمنٹ ہوتا اور ریفریشمنٹ کے دوران غیر رسمی گفتگو بھی جاری رہتی تھی۔ اس محفل کی تصویری جھلکیوں اور گروپ فوٹوز کا بھی انتظام تھا۔ عشاء کے لگ بھگ ہم سب کی واپسی ہوتی تھی، مگر اس حال میں کہ جانے کو دل نہ کرتا تھا۔ اُسی رات یا دوسرے دن شکیل بھائی اس محفل کی تصویروں کے ساتھ خوبصورت رپورٹنگ سے سوشل میڈیا کو چار چاند لگا دیتے تھے۔
ایسی ہی ایک محفل انھوں نے جامعہ کراچی کی یونینز کی یاد تازہ کرنے کے لیے منعقد کی، اور گزشتہ سالوں کی یونینز کے متفرق نمائندوں کی پذیرائی کی، اور مجھے یہ عزت اور شرف دیا کہ سب سے قدیم طالب علم اور اسپیکر انجمن طلبہ ہونے کے ناتے مہمانِ خصوصی بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ دل جیتنا تو کوئی اُن سے سیکھے۔ اس تقریب میں جمعیت اور لبرل وغیرہ سب کے نمائندے شریک تھے جو اس بات کی غمازی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا فن جانتے تھے۔ مگر برا ہو اس کورونا کا کہ اس نے دوسری تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس محفل کو بھی نظر لگا دی اور ہم سب پھر قرنطینہ کی تنہائی کا شکار ہوگئے۔
اسی دوران ایک مرتبہ شکیل بھائی نے جامعہ کراچی میں واقع اپنے بنگلے میں جمعیت کے جامعہ کراچی کے سابقین کی بہت خوبصورت محفل سجائی اور ساتھ ہی ایک بہترین عشائیہ بھی دیا۔ اس محفل میں شکیل بھائی اور ہمارے علاوہ قیصر خان، سیف الدین، انجم رفعت، خلیل اللہ فاروقی، طہارت، سلیم مغل اور بہت سے دیگر ساتھی شریک ہوئے جن کے اب نام بھی یاد نہیں۔
ہم رمضان میں عمرہ اور عید حرمین شریفین میں کرکے واپس آئے تو شکیل بھائی کو تبرکات دینے ان کے گھر گئے۔ ہم نے انہیں بھابھی کے ساتھ اپنے گھر آنے کی دعوت دی، جسے انہوں نے معذرت کے ساتھ قبول کیا۔ دراصل ان کی والدہ کی عمر 90 سال سے زائد ہے اور فالج کی وجہ سے بستر پر محدود ہیں۔ لہٰذا ان کی دیکھ بھال کی وجہ سے ان کی بیگم کا گھر سے نکلنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا۔ البتہ جواباً انہوں نے ہمیں بیگم کے ساتھ مدعو کیا، مگر کچھ ناگزیر وجوہات اور کورونا کی وجہ سے ہم نہ جاسکے۔ کاش کہ ہم نے اُن کی خواہش زندگی میں ہی پوری کی ہوتی۔ اس بات کا ملال ہمیں ہمیشہ رہے گا۔
2018ء کے جامعہ کراچی کے کانوکیشن (جس میں اُس وقت کے گورنر سندھ جناب محمد زبیر مہمان خصوصی تھے) کی بہت خوبصورت کمپیئرنگ کی۔ اس محفل میں انھوں نے ہمیں بھی یاد رکھا۔
اکثر شہر کی ادبی اور سماجی محفلوں میں شکیل بھائی کو بطور مہمان اور مقرر مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ اکثر ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ ایسی ہی ایک محفل جناب فراست رضوی کے شعری مجموعہ ”سلام فلسطین“ کی رونمائی کی تقریب خانہ فرہنگ ایران میں منعقد ہوئی، جس میں ایرانی قونصل جنرل اور دیگر سفارتی عملے نے بھی شرکت کی۔ ہم بھی شریک ہوئے۔ شکیل بھائی نے مصنف اور مجموعہ کلام پر بہت خوبصورتی سے روشنی ڈالی۔ یہ بھی ان کے ساتھ ایک یادگار محفل تھی۔
گزشتہ سے پیوستہ سال ہم نے بہت خوبصورت کشمیری شال خریدی اور شکیل بھائی کو ہدیہ کی۔ حسبِ معمول شال تو انہیں بہت پسند آئی اور اس کا رنگ بھی ان کا پسندیدہ رنگ تھا، مگر کہنے لگے: ظفر بھائی! کراچی میں اتنی سردی کہاں پڑتی ہے کہ اس کا استعمال کرسکیں۔ ہم نے کہا: پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔ اتفاق سے اس سال سردی معمول سے کچھ زیادہ ہی پڑی اور سائبیریا کی یخ بستہ ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ ایسے میں انہوں نے ہماری اس شال کا خوب خوب استعمال کیا بلکہ فون کرکے ہمارا شکریہ بھی ادا کیا کہ وہ شال جس خلوص سے ہم نے انہیں دی تھی اللہ نے سرخرو کیا۔
ایک بہت ہی خوبصورت شام ہمارے مشترکہ دوست پروفیسر ڈاکٹر عابد اظہر صاحب نے ڈاکٹر قدیر خان انسٹی ٹیوٹ آف جینٹک انجینئرنگ کے خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد کی، جس کے مہمانِ خصوصی ہمارے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان اور سرپرست اعلیٰ انسٹی ٹیوٹ آف جینٹک انجینئرنگ ڈاکٹر قدیر خان صاحب تھے، اور حسبِ معمول کمپیئرنگ کے فرائض شکیل فاروقی صاحب انجام دے رہے تھے، اور تقریب تھی سابق شیخ الجامعہ جناب پیرزادہ قاسم کے مجموعہ کلام ”بے مسافت سفر“ کی رونمائی کی۔ ہمارے علاوہ موجودہ شیخ الجامعہ عراقی صاحب، سینیٹر حسیب خان صاحب اور دیگر بہت سارے اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات بھی شریک تھے۔ پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ کتاب اور صاحبِ کتاب کی رونمائی اور تقاریر کے بعد مہمانِ خصوصی ڈاکٹر قدیر خان، سینیٹر حسیب خان، شیخ الجامعہ عراقی صاحب و دیگر حضرات نے بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر طلبہ و طالبات میں ان کے تحقیقی مقالہ جات کے حوالے سے تقسیمِ انعامات و اسناد بھی ہوئی، جس کے بعد ایک بہت ہی پُرلطف عشائیہ ہمارا منتظر تھا جس سے ہم سب نے انصاف کیا۔ یہ شام بھی ایک بہت ہی یادگار شام ثابت ہوئی جس کے روحِ رواں بھائی شکیل فاروقی تھے۔
حسنِ اتفاق دیکھیں کہ ہماری ملاقات جامعہ کے ایک اور پروگرام میں اس طرح ہوئی کہ ہم اور بھائی اسلام الدین ظفر اور شکیل فاروقی بھائی ایک ہی چھت کے نیچے اسکول آف بزنس کے آڈیٹوریم میں جمع تھے۔ شکیل بھائی کمپیئرنگ کررہے تھے اور ہم لوگ اگلی نشستوں پر بیٹھے لطف اندوز ہورہے تھے۔ موضوع تھا ”اکیسویں صدی کا چیلنج اور مسلم نوجوان“، اور مہمانِ خصوصی اور کلیدی مقرر تھے جنوبی افریقہ سے آئے ہوئے سید سلمان ندوی صاحب، جو کہ حضرت سید سلیمان ندوی مرحوم کے صاحبزادے تھے۔ بہت اہم، معلوماتی اور دلچسپ پروگرام تھا، جس کے بعد سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی۔ بعد ازاں ہم سب ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہونے کے لیے مخصوص کمرے میں گئے اور ساتھ ہی غیر رسمی گفتگو بھی چلتی رہی۔ یہ بھی ایک بہت ہی یادگار تقریب تھی جس میں کورونا کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہمارے دونوں دوست بیک وقت ہمارے ساتھ موجود تھے، اور ہمیں نہیں معلوم تھا کہ بہت جلد یہ دونوں حضرات ہمیں داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ افسوس صد افسوس۔
شکیل بھائی سے بالمشافہ آخری ملاقات فاران کلب میں منعقدہ ایک اور تقریب میں ہوئی، جو ڈاکٹر آفتاب مضطر صاحب کی کتاب ”اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے“ کی رونمائی کے سلسلے میں تھی۔ شکیل بھائی نے یہاں بھی کتاب اور صاحبِ کتاب پر بہت ہی مدلل اور معروضی حقائق پر مبنی تبصرہ کیا، جسے نہ صرف صاحبِ کتاب بلکہ تمام حاضرین نے بھی سراہا۔
اُن سے آخری رابطہ اُس وقت ہوا جب انھوں نے ہماری خیریت کے لیے فون کیا۔ اس وقت ہم خود کورونا کی وجہ سے اسپتال میں داخل تھے اور آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ بہت مختصر گفتگو ہوپائی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں گھر پر فون کیا جب ہم اسپتال سے گھر منتقل ہوچکے تھے۔ اس کے بعد ہم نے انہیں فون کیا تاکہ جامعہ کراچی اسٹاف کلب میں ہونے والی محفلیں دوبارہ آباد کی جاسکیں کیونکہ کورونا کا زور ٹوٹ رہا تھا اور حکومت کی طرف سے پابندیاں بھی نرم ہوگئی تھیں۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ اور پھر شکیل بھائی بھی کورونا کی تیسری لہر کی زد میں آگئے۔ ان کا آکسیجن لیول خطرناک حد تک کم ہوگیا، یہاں تک کہ انھیں وینٹی لیٹر پر ڈالنا پڑگیا۔ اسی دوران انہیں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا اور انجیو پلاسٹی کرنی پڑی، مگر حالت بگڑتی گئی، اور گردوں نے بھی جواب دے دیا۔ ڈائیلائسس بھی ہوا۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اور بالآخر شکیل بھائی جنت الفردوس کو روانہ ہوگئے اور ایک زمانے کو سوگوار چھوڑ گئے۔
ہمیں افسوس ہے کہ کوشش کے باوجود ہمارا اُن سے رابطہ نہ ہوسکا، کیونکہ وہ ایسی حالت میں نہ تھے کہ بات بھی کرسکیں۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور فیس بک بھائی شکیل فاروقی کے تعزیتی پیغامات اور ان کے لیے دعاوں سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ اَن گنت پیغامات ہیں اور سب ہی محبت اور عقیدت سے بھرپور۔ محبت ایسی ظالم شے ہے کہ جسے کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔
یادوں کے چڑھتے دریا میں
آنکھوں کے بند ہی ٹوٹ گئے
شکیل بھائی سینڈیکیٹ اور اکیڈمک کمیٹی کے رکن بھی رہے، انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر بھی۔ انہوں نے اپنے کئی شاگردوں کو پروفیسر اور ڈاکٹریٹ کے مرتبے تک پہنچایا۔ اپنے ڈپارٹمنٹ جینیٹکس کو بطور صدرِ شعبہ بھی بہت خوبی سے چلایا۔ انہوں نے اسٹاف ڈیولپمنٹ کا ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے سرٹیفکیٹ بھی لیا ہوا تھا، اور سردار یاسین ڈویلپمنٹ سینٹر کی تعمیر و ترقی میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا۔ ٹیچر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ کا قیام بھی انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ وہ یو ایس ایڈ کے ٹیچر ایجوکیشن کے ریسرچ کے ادارے کے سرگرم رکن تھے۔ پی ٹی وی سے انہوں نے ”میزان“ کو 2006ء سے میزبان کی حیثیت سے چلایا، جس کا علمی رتبہ اُن تمام سوقیانہ کمرشل مذہبی پرگراموں سے بہت بلند تھا جو کہ نجی چینلز پر نشر ہوتے تھے۔ اخبار ”نئی بات“ میں شرف جامی کے نام سے کالم نگاری بھی کرتے رہے۔ ہفت روزہ ”وجود“ میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں ”وجود“ پر پابندی لگ گئی۔
21 اکتوبر 2019ء کو آرٹس آڈیٹوریم میں یوم اساتذہ کے سلسلے میں ”تکریمِ اساتذہ“ کے نام سے ہونے والی تقریب میں شکیل بھائی اسٹیج سیکریٹری تھے اور ہم سمیت بہت سے سابقینِ جامعہ کراچی بھی بڑی تعداد میں اس پروگرام میں شریک تھے۔ زمانہ طالب علمی میں جمعیت سے متاثر رہے اور اسی کے پلیٹ فارم سے پہلے طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور اتنی اچھی کارکردگی دکھائی کہ اگلے ہی سال پورے پینل کے ساتھ صدر انجمن بھی بھاری ووٹوں کے فرق کے ساتھ منتخب ہوگئے۔ مگر جنرل ضیاءالحق نے طلبہ یونینز پر پابندی لگادی۔ ایسے میں شکیل بھائی نے اس کے خلاف تحریک چلائی اور دو سال جیل بھی کاٹی۔ آپ اس تحریک کے بھی روحِ رواں تھے۔ مگر یونینز بحال نہ ہوسکیں، اور یوں شکیل بھائی تاحیات صدر انجمن جامعہ کراچی کے منصب پر فائز رہے، یہاں تک کہ کورونا نے سلسلہ حیات ہی منقطع کردیا۔
ایک متحرک زندگی گزارنے والا اچانک ہی رخصت ہوگیا یقین نہیں آتا۔ بس ایسا لگتا ہے کہ وہ خوش گفتار اور خوش لباس ہمارا بھائی مسکراتا ہوا سامنے سے آجائے گا۔ لیکن وہ تو اب خواب ہوگیا۔ ایسا خواب جس کی تعبیر ہزاروں شاگردوں اور دوستوں کی شکل میں موجود ہے۔ اپنی پوری زندگی جامعہ کراچی کی نذر کرنے والے شکیل فاروقی کی تدفین بھی جامعہ کراچی کے قبرستان میں ہوگئی۔
ہم اسی گلی کی ہیں خاک
یہیں خاک اپنی ملائیں گے
نفیس اردو بولتے تھے اور اشعار کا استعمال بھی خوب کرتے تھے۔ طبیعت میں روانی اور مزاج میں ایک لطیف شوخی پائی تھی۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ شکیل بھائی صرف اسی کے دوست ہیں۔ شکیل بھائی ایسی ہی ہستیوں میں شامل تھے۔ شہد جیسی میٹھی زبان اور خوبصورت دل، اور جب ان سے ملو تو یوں لگے کہ زندگی کے سارے دکھ ختم ہوگئے ہیں۔ اب ایسے لوگ کہاں؟ یہ شعر ان پر ہی صادق آتا ہے:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں
مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیٹا (عدیل فاروقی جارجیا امریکہ میں زیر تعلیم)، ایک بیٹی (ماحولیاتی سائنس میں بی ایس کیا) اور بیوہ اور ضعیف والدہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی نے 1975ء میں حیدرآباد بورڈ سے میٹرک، 1978ء میں کراچی بورڈ سے انٹر، جبکہ1983ء میں جامعہ کراچی سے بی ایس سی، 1984ء میں پی جی ڈی اور 1986ء میں جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کیا۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی نے14 مارچ 1988ء کو جامعہ کراچی کے شعبہ جینیات میں بحیثیت لیکچرار اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور 30 اکتوبر 1995ء کو اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ڈاکٹر شکیل فاروقی نے 1994ء میں کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ سے پی ایچ ڈی کیا اور جولائی 2020ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ جینیات سے ریٹائر ہوئے۔
جاتے جاتے بالآخر ہم اپنی بیگم کے ساتھ شکیل بھائی کے گھر واقع اسٹاف ٹاون تعزیت کے لیے گئے جہاں ہماری بیگم نے شکیل بھائی کی بیگم سے تعزیت کی اور زندگی ہی میں ملاقات نہ کرپانے کی معذرت بھی۔ اور ان کی بیٹی اور والدہ سے بھی ملاقات کی۔ ہم نے بھی ان کے بیٹے عدیل فاروقی سے تعزیت کی جو امریکہ سے تشریف لائے ہیں۔ جب ہم ان کے لان میں رات 11 بجے تنہا بیٹھے تھے تو ہمارے چاروں طرف ایک مہیب سناٹا تھا۔ ہماری آنکھوں میں آنسو تھے اور ہم اُس وقت کو یاد کرکے سسکیوں سے رو رہے تھے جب شکیل بھائی کے اسی لان میں ہم سب دوست اکٹھے تھے، ساتھ ہی باجماعت نماز پڑھی، ساتھ ہی پُرتکلف عشائیہ سے لطف اندوز ہوئے۔ رات گئے تک گپ شپ چلتی رہی۔ وہ شام بھی بہت خوبصورت تھی۔ آج ہم اکیلے بیٹھے تھے اور جس کے گھر آئے اُس کو نظریں ڈھونڈ رہی تھیں، مگر ناکام لوٹ آتی تھیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے جانے والا لوٹ کر تو نہیں آسکتا، مگر کم از کم لواحقین کا کچھ نہ کچھ دکھ کم ہوجاتا ہے اور دوبارہ زندگی کو برتنے کا حوصلہ مل جاتا ہے، اور اس مرہم سے کچھ نہ کچھ زخم کے بھرنے کا سامان ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے تعزیت کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین۔
آخر میں ہم شکیل بھائی کے چند خوبصورت اشعار پیش کرتے ہیں جو کہ حسب حال ہیں:
رونقیں ہم سے تھیں اے اہلِ جفا
دیکھیے سناٹا کیسا آج ہے
تختی مرے مکان پہ میری لگی رہی
میں گھر میں اپنے اجنبی ہوتا چلا گیا
حکیم ا لامت جناب محمد اختر مرحوم کا یہ شعر بھی حسب ِحال ہے جو شکیل بھائی کے صاحبزادے عدیل فاروقی نے اپنے والد کی یاد میں ہمیں سنایا:
پی کر شراب دردِ دل ہمارےجام و مینا سے
بہت روئیں گے کرکے یاد اہلِ میکدہ مجھ کو
خونِ جگر میں ڈوبی اس دردناک تحریر کو سمیٹتے ہوئے ہم بس اتنا ہی کہیں گے کہ
یکتائے فن کی ساری مہارت سپردِ خاک
بس یاد رہ گئی ہے، زیارت سپردِ خاک
الفت کا آفتاب، زمیں بوس ہوگیا
کرنی پڑے گی ہم کو، محبت سپردِ خاک