پاکستان کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں اِن دنوں خوش ذائقہ، خوش رنگ پھل تربوز کثیر تعداد میں نہ پایا جائے۔ مختلف رنگوں اور مختلف حجم کا یہ بھاری بھرکم پھل گلی کوچوں، دریائوں اور نہروں کے کنارے صبح و شام کھایا جاتا ہے۔ نہر میں بند بوری میں ڈال کر ٹھنڈا کیا گیا، یا فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کیا گیا میٹھا اور خوش ذائقہ پھل مزے کو دوبالا کردیتا ہے۔
وہ تربوز جو باہر سے سیاہ، اندر سے خوش رنگ سُرخی اور مٹھاس لیے ہوئے ہو، زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور جلد ہضم ہوجاتا ہے۔ یہ پھل برصغیر ہند و پاک ہی نہیں بلکہ افریقہ، ایشیا، یورپ کے تمام ممالک میں کثیر مقدار میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو موسم گرما اس پھل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے لیکن سعودی عرب اور یورپ و امریکہ میں یہ پھل ہر موسم اور ہر وقت میسر ہوتا ہے۔ کئی کئی کلو وزن کے تربوز ایک نرم و نازک بیل کے ساتھ پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ قدرتِ کاملہ اس کو جاذب نظر رنگ، مٹھاس اور پیاس بجھانے والا میٹھا پانی مہیا کرتی ہے۔ بظاہر خشک زمین پر پھیلی بیلوں میں سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے بڑے تربوز سینکڑوں من خوش ذائقہ مشروب ہے۔ یہ پھل کھیتوں میں خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ عرب میں مصر کا تربوز، مشرق وسطیٰ میں بیروت کا تربوز، یورپ میں اسپین کا تربوز، امریکہ میں ورجینیا کا تربوز، ہندوستان میں پانی پت کا تربوز مثالی سمجھا جاتا تھا، لیکن موجودہ دور میں دنیا کے ہر کونے میں یہ خوش ذائقہ پھل میسر ہے۔ پاکستان میں وہ تربوز جو باہر سے سیاہ اور اندر سے سرخ ہو، پسند کیا جاتا ہے، لیکن اس پھل کا یہ معیار اب ختم ہوچکا ہے، سبز رنگ کے گول کے بجائے لمبوترے تربوز بھی کئی کلو وزنی ہوتے ہیں جو اپنے ذائقے کے اعتبار سے بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان دنوں چین کے تربوز کا بیج بویا جاتا ہے جس سے فصل بھی زیادہ ملتی ہے اور تربوز میٹھا ہوتا ہے۔
تربوز کھانے میں بھی ہمارے ہاں قدیم اطباء نے مختلف احتیاطیں اور حفظِ ماتقدم کا تذکرہ کیا ہے۔ اکثر قدیم اطباء کا خیال ہے کہ جب غذا میں چاول کھائے جائیں تو تربوز کا استعمال نہ کیا جائے، اس سے ہیضہ (Food Poisoning) کا خطرہ ہوتا ہے۔ بعض اطباء کا خیال ہے کہ تربوز خالی معدہ کھایا جائے، کھانے کے بعد نہ کھایا جائے۔ چوں کہ تربوز کی گِری دیر ہضم ہوتی ہے لہٰذا رات کو کھانے سے بعض اوقات پیٹ میں درد، کراکر اور بدہضمی کی شکایت کا احتمال ہوتا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ احتیاطی تدابیر اصولاً درست ہوں، مگر دیکھا گیا ہے کہ سعودی عرب اور یورپ میں لوگ ہر قسم کی غذا کے ساتھ تربوز کا استعمال بطور سوئٹ ڈش کھانے کے بعد یا کھانے کے دوران بے دھڑک کرتے ہیں اور کوئی منفی اثر نہیں دیکھا جاتا۔ ممکن ہے اُن علاقوں کی آب و ہوا یا غذائی دستور کوئی منفی اثر پیدا نہ کرتا ہو۔
تربوز کے فوائد:
یہ خوش ذائقہ پھل موسم گرما میں اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ لُو لگنے والے مریض اس کا استعمال کرکے حیاتِ نو پاتے ہیں۔ تربوز بے جا پیاس کا خاتمہ کرتا ہے، ہاتھ پائوں کی جلن کو روکتا ہے، دل کو فرحت دیتا ہے، پیشاب کی جلن ختم ہوتی ہے، یرقان کے مریضوں کے لیے عمدہ دوا اور غذا ہے۔ اکثر مریض شکایت کرتے ہیں کہ رمضان میں یا موسم گرما میں دھوپ میں کام کرنے کی وجہ سے منہ کا ذائقہ کڑوا ہوجاتا ہے، تربوز کا استعمال اس کیفیت کا خاتمہ کرتا ہے۔ ایسے مریض جو کہ دائمی قبض کا شکار ہوتے ہیں اُن کے لیے نہایت مفید اور بے ضرر دوا ہے۔ تربوز کا مع بیج استعمال پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ گھبراہٹ، بے چینی، بار بار پانی کی طلب اور دل کے دھڑکے کا خاتمہ کرتا ہے، سوزاک اور پیشاب کی جلن والے مریضوں کے لیے عمدہ تحفہ ہے۔ اکثر لوگ موسم گرما میں بے جا گرم غذائوں مثلاً کباب، سموسے، برگر، شوارما، مچھلی، انڈوں کے استعمال سے عارضی طور پر خون میں حدت پیدا ہونے کی وجہ سے ’’بلڈپریشر‘‘ کا شکار ہوتے ہیں، تربوز کا استعمال ایسے مریضوں کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ چوں کہ تربوز اپنی برودت کی وجہ سے خون کی حدت کم کرتا ہے، بعض لوگ فوراً سردی محسوس کرتے ہیں اور تحقیق کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اُن کا بلڈ پریشر کم ہوگیا ہے۔
قدیم دور سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تربوز کو نمک کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے، ممکن ہے کہ کم مٹھاس والے تربوز نمک لگنے سے خوش ذائقہ محسوس ہوں، مگر تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ تربوز کو قدیم دور سے نمک لگا کر اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ بلڈپریشر کم نہ ہو۔ ایسے لوگ جو بلڈپریشر کے مسلمہ مریض ہیں اُن کے لیے تربوز بہترین غذا اور دوا ہے۔نوجوان نسل جن میں بے اعتدالی کی وجہ سے پیشاب کی جلن، جریان، احتلام کی شکایت عام ہے وہ تربوز کے استعمال سے شفا پاتے ہیں۔ نکسیر کے مریضوں کے لیے تربوز کا استعمال پیغامِ شفا ثابت ہوتا ہے۔ ایسے مزدور جو دھوپ یا حبس میں کام کرتے ہیں اُن کی آنکھوں میں جلن ہوجاتی ہے، پیشاب جل کر آتا ہے، تربوز کا استعمال اُنہیں دوا سے بے نیاز کردیتا ہے۔ خواتین کے امراض کثرتِ طمث یا دودھ کی کمی کے لیے بھی تربوز کا استعمال بے حد مفید ہے۔
عام طور پر تربوز کے موٹے اور بھاری چھلکے سے پانی لینے کے بعد اسے ضائع کردیا جاتا ہے۔ بکریاں، بھینسیں اور گائیں اس کو بطور چارہ کھاتی ہیں، اس سے اُن کے دودھ میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن بعض قدیم طبی کتب میں اس طرح درج ہے کہ اس کے موٹے چھلکے کو اوپر سے چھیل لیا جائے، اندر سے جو نرم حصہ نکلتا ہے بعض لوگ اسے سالن کے طور پر پکا کر استعمال کرتے ہیں۔ اسے جگر کے امراض، بھوک کی کمی، اور تبخیر معدہ والسر میں بھی مفید بتایا گیا ہے۔ اسی طرح گودے کو پانی میں اُبال کر پچھنے لگاکر اس کا مربہ تیار کیا جاتا ہے جو خوش ذائقہ بھی ہے اور جگر کے امراض میں بے حد مفید بھی۔
تربوز کے بیج پہلے سیاہ ہی تصور کیے جاتے تھے، اب نیم سرخ اور سیاہ ہیں۔ ان کا مغز ’مغز تربوز‘ کہلاتا ہے، اس کا استعمال شربتِ بزوری میں مفید ہے۔ عام طور پر یہ مغز تربوز طبی دوا کے طور پر حافظہ کی بہتری، معدے و جگر کی گرمی اور ہاتھ پائوں کی جلن رفع کرنے کے لیے دیگر ادویہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ عربی کا محاورہ ہے ’’ہر میٹھی چیز گرم ہے مگر تربوز حار نہیں، بارد ہے‘‘۔ دوسرے درجہ میں سرد تر ہے۔ موسم گرما کا یہ تحفہ اللہ کی طرف سے شفا کا مٹکا ہے۔ لطف اٹھائیے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے۔
nn