تم شاید سوچ رہے ہو کہ 1.5اور 2ڈگری کا فرق کچھ زیادہ تو نہیں ہے۔ مگر ماہرینِ موسمیات دونوں منظرناموں کے خاکے جاری کرچکے ہیں، اور خبر بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔ کئی زاویوں سے دو ڈگری کا اضافہ 1.5سے محض 33فیصد زیادہ خراب صورت حال ہی نہیں ہے بلکہ سو فیصد تباہ کُن بھی ہے۔ صاف پانی کے حصول کے لیے لوگ دہری مشکل میں پڑجائیں گے۔ مکئی کی عالمی پیداوار دوگنا کم ہوجائے گی۔ موسمی تبدیلی سے پڑنے والے اثرات بہت بُرے ہوں گے، شدید گرم دنوں اور سیلاب کا سامنا ہوگا۔ نہیں! موسم کا بدلنا اس طرح کام نہیں کرتا۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک تباہی سامنے آسکتی ہے۔ جوں جوں گرمی بڑھتی جائے گی، مچھر نئی جگہوں کی تلاش میں نکلیں گے۔ خشک علاقے چھوڑ کر مرطوب علاقوں کا رخ کریں گے، وہاں ملیریا اور دیگر بیماریاں پھیلائیں گے۔ یہ وہ مقامات بھی ہوسکتے ہیں کہ جہاںکبھی مچھروں اور ملیریا کا وجود نہ تھا۔
ہیٹ اسٹروک (گرمی کا حملہ) ایک اور بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا۔ اس کا تعلق بھی فضا میں نمی کے زیادہ تناسب سے ہے۔ ہوا خاص مقدار ہی میں نمی جذب کرسکتی ہے، اور ایک نقطے پر پہنچ کر ناقابلِ انجذاب ہوجاتی ہے، اس قدر بوجھل ہوجاتی ہے کہ مزید نمی سہار نہیں سکتی۔ اس سے کیا مسئلہ پیدا ہوتا ہے؟ بات یہ ہے کہ انسانی جسم میں ٹھنڈک کی ضرورت پسینے کے مناسب اخراج سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہوا یہ پسینہ جذب نہ کرسکے؟ اور انسانی جسم کو ٹھنڈک نہ مل سکے؟ چاہے کتنا ہی پسینہ کیوں نہ آرہا ہو۔ جب پسینے کے لیے اخراج کی کوئی جگہ باقی نہ رہے، پھر کیا ہو؟ تمھارے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا چلا جائے گا، اور اگر ٹھنڈک کا کوئی انتظام نہ کیا جائے، تو چند گھنٹوں میں ہیٹ اسٹروک سے موت آجائے گی۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ جب ان مسائل کا انبار لگتا ہے تو کیا اثرات پڑتے ہیں؟ فرد پر اس کے اثرکا جائزہ لیتے ہیں۔ فرض کرو کہ تم ایک خوشحال کسان ہو، اور مکئی کاشت کررہے ہو، سویا بین بورہے ہو، اور یہ نبراسکا (امریکی ریاست) میں سن 2050ء کا زمانہ ہے۔ بدلتے موسم کا تم پر اور تمہارے خاندان پر کیا اثر پڑے گا؟ تم امریکہ کے بالکل وسط میں ہو، ساحلوں سے دور ہو، اور بلند ہوتے سمندروں سے محفوظ ہو، مگر ’’گرمی‘‘ سے دور نہیں ہو۔ تباہ کُن طوفان آئیں گے، دریاؤں میں طغیانی آئے گی، کنارے ابل پڑیں گے۔ تمہارے کھیت کھلیان سیلاب میں ڈوب جائیں گے۔ ایسا دہائیوں میں کبھی نہ ہوا ہوگا، تمہارے والدین کبھی ایسی مصیبت سے نہ گزرے ہوں گے، مگر حالات اب یہ ہوجائیں گے کہ ایسا طوفان ایک دہائی میں ایک بار ہی آجائے توتم غنیمت جانو گے۔
یہ سیلاب تمہاری مکئی اور سویا بین کی فصلیں بہالے جائے گا، اور ذخیرہ گندم برباد کردے گا، تمہارے مویشیوں کا چارہ ضائع ہوجائے گا، اور کچھ بھی بچانا مشکل ہوجائے گا۔ جب پانی اتر جائے گا تم دیکھو گے کہ سڑکیں اور پُل ناقابلِ استعمال ہوچکے ہوں گے۔ تم سوچو گے کہ بچا کھچا اجناس کہیں منتقل بھی نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی وہ بیج تم تک آسکتے ہیں کہ جن کی تمہیں اشد ضرورت ہوگی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اراضی ناقابلِ کاشت ہوجائے گی، کھیتی باڑی ہمیشہ کے لیے خطرے میں پڑجائے گی، اور تم وہ سب کچھ بیچنے پر آمادہ ہوجاؤ گے، جو نسلوں سے خاندانی ورثہ چلا آیا ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں نے کوئی سنگین مثال چُن دی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات پہلے ہی سے سر اٹھا چکے ہیں، خاص طور پر غریب کسانوں کے ساتھ یہ سب اِس وقت بھی ہورہا ہے۔ چند دہائیوں میں یہ سب کے ساتھ ہورہا ہوگا۔ اگر تم عالمی تناظر میں دیکھو تو غریبوں کے لیے حالات انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ایک ارب غریب ترین لوگ شدید ترین مصائب میں گھرتے جارہے ہیں۔
اب تم تصور کرو کہ کسی بھارتی دیہات سے تمہارا تعلق ہے۔ تم اور تمہارا شوہر کسان ہیں۔ تمہارے بچے تقریباً وہ ساری خوراک کھا جاتے ہیں، جو تم تیارکرتی ہو۔ اگرچہ اچھے سیزن میں تم چار پیسے بچا بھی لیتی ہو، بچوں کے لیے چند دوائیں بھی خرید لیتی ہو، انہیں اسکول بھی بھیج دیتی ہو۔ لیکن اس دوران اچانک بدقسمتی سے ہیٹ ویوز (گرمی کی لہریں) گاؤں کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں، اور یہ رہنے کے قابل ہی نہیں رہتا، فصلوں کو زندہ رکھنا ممکن نہیں رہتا، باقی ملک میں بارش ہورہی ہوتی ہے مگرتمہارا گاؤں بوند بوند کو ترس رہا ہوتا ہے۔ اب کیاکروگی؟
اپنے سب سے بڑے بیٹے کو تم پہلے ہی شہر بھیج چکی ہو، تاکہ وہ اپنی گزربسر خود کرسکے۔ تمہارا پڑوسی حالات سے تنگ آکر خودکشی کرچکا ہے۔ اس ماحول میں کیا تم کھیتی باڑی جاری رکھ سکو گی؟ یا شوہر کے ساتھ نئی دنیا کی تلاش میں نکل جاؤ گی؟ بڑا دل چیردینے والا فیصلہ ہے۔ مگر یہ وہ فیصلہ ہے جس کا مسلسل سامنا آج لوگ کررہے ہیں۔
2007ء سے 2010ء تک شام میں بدترین قحط آیا تھا، پندرہ لاکھ لوگ اپنی زمینیں، گھر بار چھوڑ کرشہروں کو نقل مکانی کرگئے تھے۔
بات دراصل یہ ہے کہ بدلتے موسم نے قحط کا خطرہ تین گنا بڑھا دیا ہے۔ سن 2018ء تک ایک کروڑ تیس لاکھ شامی دربدر ہوچکے تھے۔ یہ مسئلہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ سالانہ لاکھوں پناہ گزین یورپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
جنہیں موسمی تبدیلی سے تباہی کا اندازہ لگانا ہو، وہ کووڈ نائنٹین کے اثرات کی سنگینی محسوس کریں۔ جو جانی و مالی نقصان کووڈ نے ایک خاص وقت میں پہنچایا ہے، وہ اگر مستقل ہوجائے توپھر کیا ہو؟ بلاشبہ ہمیں ساری دنیا میں کاربن کا اخراج فوراً روکنا ہوگا۔
بدلتے موسم کے سبب وسط صدی تک شرح اموات 14 افراد فی دس ہزارسالانہ ہوسکتی ہے، اگر درجہ حرارت بڑھتا رہا تویہ نمبر 75 افراد تک بھی جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وسط صدی تک موسمی تبدیلی کورونا جتنی مہلک ہوسکتی ہے۔ سن 2100ء تک یہ پانچ گنا زیادہ جان لیوا ہوسکتی ہے۔
معاشی منظرنامہ بھی تاریک ہوسکتا ہے۔ موسمی تبدیلی سے معاشی حالات کچھ اس طرح ہوسکتے ہیں: جیسے ہر دہائی میں ایک بار کورونا وبا پھیل جائے، اور سب کچھ رُک جائے۔
اگر تم خبریں سنتے ہو اور موسمی تبدیلی پر نظر رکھتے ہو تو تمہارے لیے یہ پیش گوئیاں شاید نامانوس نہ ہوں، لیکن جوں جوں درجہ حرارت بڑھتا جائے گا، ان خبروں کا ہرپہلو سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود رہے گا کہ یہ موسمی تبدیلی اچانک وارد ہوجائے۔ مثال کے طور پر اگر بڑے بڑے گلیشیرزگرمی سے پگھل جائیں، اور بہت بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوجائیں، خاص طور پر میتھین جو برف کی تہوں میں دبی ہوئی ہے، تو پھر بڑی تباہی آسکتی ہے۔
سائنسی بے یقینی کے باوجود، کہ جو کچھ ہونے جارہا ہے، بہت زیادہ بُرا ہوسکتا ہے، ہم بچاؤ کے لیے دو کام کرسکتے ہیں: موافقت پیدا کرسکتے ہیں، مطابقت پیدا کرسکتے ہیں۔ یعنی موسمی تبدیلی حالات کو جس جانب لے جارہی ہے، اُن حالات سے موافقت پیدا کرنی ہوگی۔ گیٹس فاؤنڈیشن کی زرعی ٹیم نے اسے اپنا ہدف بنالیا ہے۔ اس پر تحقیق ہورہی ہے کہ کسی طرح کاشت کاری کو قحط اور سیلاب جھیلنے کے قابل بنایا جاسکے۔
دوسری چیز ہے ’’گھٹاؤ‘‘۔ کاربن اخراج میں مسلسل گھٹاؤ ازحد ضروری ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملک سب سے زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں۔ انہیں سن 2050ء تک یہ اخراج صفر کرنا ہوگا۔ اس کے بعد متوسط درجے کے ملک، اور پھر غریب دنیا کی باری آئے گی۔
واضح رہے کہ جو ملک کاربن فری معیشت جتنی جلدی مستحکم کریں گے وہی آنے والی دہائیوں میں بڑی معیشت بن کر اُبھریں گے۔ امیر ملکوں میں آگے بڑھ کر یہ کرنے کی صلاحیت اور موقع سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ ملک ابھرتی ہوئی معیشتوں میں بھی اپنے لیے بھرپور مواقع پائیں گے۔
میں نے صفر تک پہنچنے کے لیے کئی رستے اختیار کیے ہیں۔ یہ رستے دشوار ہیں۔ آئیے اُس سفرکی جانب چلتے ہیں، جو ہرگز آسان نہیں ہے۔