کورونا وبا، کچھ لوگ مزے لُوٹ رہے ہیں

گزشتہ ہفتے جب وال اسٹریٹ جرنل میں بوگاٹی اسپورٹس کار کا پورے صفحے کا اشتہار شایع ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ کار صرف بارہ سیکنڈ میں 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے تب مجھے اندازہ ہوا کہ اب ہر معاملے میں انتہا سے گزرنے کا دور شروع ہوچکا ہے۔ کورونا کی وبانے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو انتہائی مشکلات سے دوچار کیا ہے مگر دوسری طرف چند ہزار ایسے بھی ہیں جنہیں جی بھر کے منافع بٹورنے کا موقع ملا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر دولت کے حصول اور ممکنہ حصول نے انتہائی خطرناک عالمگیر وباکی گنجائش پیدا کی ہے۔ حالات اس رجحان کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ بوگاٹی برانڈ کا مالک واکس ویگن گروپ سال بھر میں اس طرح کی صرف پچاس گاڑیاں بناسکتا ہے مگر توقع کی جاتی ہے کہ مزید آرڈر ملنے میں دیر نہیں لگے گی۔
گزشتہ برس امیزون گروپ کے بانی جیف بیزوس اور ٹیسلا کے بانی ایلون مَسک نے حالات کے بدلنے پر اپنے اسٹاکس کی ویلیو بڑھنے کی بدولت اپنے ذاتی اثاثوں میں کم و بیش 60 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن بنایا۔ شیئرز کی موجودہ قیمتوں کے اعتبار سے ان میں سے ہر ایک کی انفرادی دولت 170 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
کورونا وباکی پیدا کردہ صورتِ حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ راتوں رات غیر معمولی حد تک دولت حاصل کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ فوربس میگزین کے مطابق دنیا بھر میں ارب پتیوں کی تعداد 2775 ہوچکی ہے۔ امریکہ کا مرکزی بینک فیڈرل ریزرو جتنی زری قوت رکھتا ہے اُتنی ہی زری قوت انفرادی حیثیت میں غیر معمولی دولت کمانے والوں کی بھی ہے۔ جب کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کے باعث امریکی معیشت کے لیے انتہائی خطرناک حالات پیدا ہوئے تب فیڈرل ریزرو بورڈ نے معیشت کو سہارا دینے کے لیے نوٹ جاری کرنے والے میکینزم کو زیادہ متحرّک کیا۔ فیڈرل ریزرو نے اب تک کم و بیش 3100 ارب ڈالر مالیاتی نظام میں داخل کیے ہیں۔ بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹ چھاپے جانے کے نتیجے میں سُود کی شرح نیچے آئی ہے اور لوگوں کے لیے قرضوں کا حصول بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال نے اسٹاک مارکیٹس کو بہت اچھی پوزیشن میں پہنچادیا ہے۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا پیمانہ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز 500 انڈیکس گزشتہ سال کی نسبت 45 فیصد کی حد تک اوپر جاچکا ہے۔ ڈو جونز انڈسٹریل انڈیکس 41 فیصد تک بڑھوتری کا حامل ہوچکا ہے جبکہ ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز رکھنے والا نیسڈیک کمپوزٹ انڈیکس 62 فیصد اوپر جاچکا ہے!
فیڈرل ریزرو بورڈ کی مہربانی سے بازارِ زر کی گرم بازاری غیر معمولی نوعیت کی ہوچکی ہے۔ بازارِ زر میں سیالیت بڑھ جانے سے بینکوں کے لیے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والا کا بہترین موقع پیدا ہوا ہے اور اُن کی حِرص بھی بڑھ گئی ہے۔ اس میں تھوڑا بہت خطرہ بھی پوشیدہ ہے۔ سُود کی شرح خاصی نیچے آچکی ہے۔ ایسے میں بینکوں کے لیے زیادہ منافع کمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرضے دیں۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ اُن میں سے سبھی تو قرضے واپس نہیں کریں گے۔
زیورخ (سوئٹزر لینڈ) میں کچھ عجیب ہوا ہے۔ زیورخ کے ایک بڑے بینک کریڈٹ سوئز، جسے غیر معمولی حد تک احتیاط پسند اور قدامات پرست کہا جاتا ہے، اپنے ٹاپ ایگزیکٹیوز میں سے دو کو فارغ کیا، دوسرے بہت سے ملازمین کی بھی چُھٹّی کی، منافعِ منقسمہ میں بھی دو تہائی کٹوتی کردی اور اپنے اسٹاکس کے بڑے حصے کو واپس نہ خریدنے کا اعلان کردیا۔ اس سے بینک کے اسٹاک ہولڈرز تو، ظاہر ہے، خوش نہیں ہوئے مگر کریڈٹ سوئز نے گرین سِل کیپٹل نامی کمپنی کے حوالے سے ایک جوا کھیلا۔ اس کمپنی کا صدر دفتر برطانیہ میں ہے۔ گرین سِل کیپٹل بعض انتہائی پیچیدہ مالیاتی معاملات میں الجھی ہوئی تھی مگر اطمینان بخش بات یہ ہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اُس کے مشیر تھے۔ یہ کمپنی بیٹھ گئی
گرین سِل کیپٹل ناکامی سے دوچار ہوئی۔ کریڈٹ سوئیز نے اس گھوٹالے میں 3 ارب ڈالر سے ہاتھ دھوئے۔ کئی دوسرے بینکوں کو بھی غیر معمولی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد کریڈٹ سوئس امریکہ میں قائم ایک پرائیویٹ فیملی فنڈ آرکیوز میں 4.7 ارب ڈالر کھوئے۔ اس معاملے کی پُراسراریت نے بہت بڑے پیمانے پر سٹّے بازی اور قرض کو راہ دی۔ آرکیوز بہت زیادہ قرضے لینے کے نتیجے میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھا اور اپنے قرض خواہوں کو کچھ بھی ادا نہ کرسکا۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹریشن رکھنے والے صنعتی و مالیاتی اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر قرضے لیے اور اب وہ قرضے واپس کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کی تیزی دیکھتے ہوئے کی جانے والی سرمایہ کاری بالعموم دھوکے جیسی ہوتی ہے۔ کئی چھوٹے اداروں نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سکت سے بڑھ کر قرضے لیے یا سرمایہ کاری وصول کی اور اب دیوالیہ قرار دیئے جانے کی منزل تک آ پہنچے ہیں۔ اپنی گنجائش اور سکت سے بڑھ کر قرضے لینے اور لوگوں کو سرمایہ کاری پر مائل کرنے والوں کا انجام بُرا ہی دیکھا گیا ہے اور یوں لوگوں کی کمائی ڈوب جاتی ہے۔
ریگیولیٹرز کہاں ہیں؟
امریکی اسٹاک مارکیٹ میں دکھائی دینے والی تیزی بہت سی کہانیاں بھی سُناتی ہے۔ بہت سے چھوٹے کاروباری اداروں نے اپنے حوالے سے بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کیں جس کے نتیجے میں لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور سرمایہ لگایا۔ اسٹاکس کی اصل قدر و قیمت سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر کی جانے والی سٹّے بازی نے معاملات کو شدید خرابی سے دوچار کیا ہے۔ امریکی اسٹاک مارکیٹ کی نگرانی پر مامور ادارے اور حکام اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں غیر معمولی سٹّے بازی ہونے دیتے ہیں اور پھر وہ معاملہ اچانک جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
یورپ میں بھی معاملات کو کسی اور زاویے سے دیکھا جارہا ہے۔ کریڈٹ سوئس کو جو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا ہے اُس کے حوالے سے لوگوں کا خیال ہے کہ بازارِ زر کے نگرانوں نے اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے نہیں کیا۔
گرین سِل کی ناکامی نے امریکہ اور جرمنی میں تحقیقات کی راہ ہموار کی ہے۔ جرمنی میں کبھی بڑی فائنانس کمپنیوں میں شمار ہونے والی کمپنی وائر کارڈ کی عبرت ناک ناکامی اور پھر اس کے خلاف دھوکا دہی کے الزام کے تحت تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ یورپ میں بھی بینکوں اور فائنانشل ریگیولیٹرز نے برابر کی نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ چند بینکوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے کمپنی کے شیئرز کی ڈیلنگ میں کانفلکٹ آف انٹریسٹ سے متعلق اصولوں کی پاس داری نہیں کی مگر یہ بھی فائنانشل ریگیولیٹرز کی ناکامی کی وجوہ میں سے ایک ہے۔
اگر معاملات درست کرنے پر توجہ نہ دی گئی تو وائر کارڈ، گرین سِل اور آرکیوز جیسے گھوٹالے اور بھی ہوں گے۔ ہوم ٹاؤن انٹرنیشنل جیسی کمپنیوں کا جو حشر ہوا ویسا ہی حشر دوسروں کا بھی ہوتا رہے گا۔ یہ تمام ادارے حد سے گزرنے کے دور میں علامات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دھوکا دہی کے واقعات کے ساتھ ساتھ غیر معمولی سطح پر خطرہ مول لینے کا رجحان بھی پنپ رہا ہے۔ متعلقہ ادارے محض تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں انتہائی معمولی قدر رکھنے والے شیئرز کی آمد جس رفتار سے جاری ہے اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد ایک اور بڑا کریش آسکتا ہے۔
بحرِ اوقیانوس کے دونوں طرف یعنی امریکہ اور یورپ میں بے لگام مالیاتی معاملات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچانے والے حالات سے بچنا ممکن ہو۔ سب سے بڑھ کر غریب کے غریب تر ہونے اور امیر کے امیر تر ہوتے جانے کے رجحان کا سدِباب کیا جانا چاہیے۔