بائیڈن سرکار کے پہلے 100 دن، امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

امریکی عسکری ہدف ہند بحرالکاہل منتقل کرنے کے لیے ایشیائی نیٹو کا قیام

29 اپریل کو صدر جو بائیڈن حکومت کے 100 دن مکمل ہوگئے۔ نئے امریکی صدر کی کارکردگی جانچنے کی اس کسوٹی کے موجد FDR کے نام سے مشہور صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ ہیں جنھوں نے بدترین کساد بازاری یا گریٹ ڈپریشن کے بعد 4 مارچ 1933ء کو اقتدار سنبھالا تھا۔ بے روزگاری عروج پر اور بازار حصص میں شدید ترین مندی تھی۔ بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے لاکھوں خاندانوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لٹ چکی تھی۔ 8 نومبر 1932ء کو ہونے والے ان انتخابات میں FDRنے ری پبلکن صدر ہربرٹ ہوور (Herbert Hoover) کو بری طرح سے شکست دی تھی۔ بے روزگاری کا خاتمہ، امریکیوں کی بچت کا تحفظ اور خوشی و خوشحالی ان کے منشور کے بنیادی نکات تھے۔ اُس وقت انتخابات سے انتقالِ اقتدار کا عبوری دور تقریباً چار مہینے کا تھا۔ اس عرصے میں صدر ہوور نے معیشت کی بہتری کے لیے کئی صدارتی آرڈیننس جاری کیے۔ سبکدوش ہونے والے صدر کی خواہش تھی کہ صدارتی احکامات کی صورت میں انھوں نے جو پالیسی وضع کی ہے اس کا تسلسل برقرار رکھا جائے اور FDR اپنے منشور پر عمل درآمد معطل کردیں۔
صدر روزویلٹ نے اپنے پیشرو کی یہ تجویز مسترد کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام نے انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کے انقلابی منشور پر ووٹ دیے ہیں اور وہ عوام سے کیے گئے وعدوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ منشور پر عمل درآمد کے لیے تیز رفتار قانون سازی کی ضرورت تھی، چنانچہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس (پارلیمان) کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو تین مہینے سے کچھ زیادہ یعنی 100 دن جاری رہا، جس کے بعد FDR نے ”خوف نہیں امید“ یا Hope over fearکے عنوان سے انتہائی جذباتی خطاب کیا جس میں انھوں نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دن کی قانون سازی اور اس کے معیشت پر متوقع اثرات کا جائزہ پیش کیا، اور وہیں سے ”پہلے سو دن“ کی اصطلاح وضع ہوئی۔
علمائے سیاست کا خیال ہے کہ نئے صدر کی کارکردگی جانچنے کے لیے 100 دن کا سنگِ میل کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ امریکہ میں اٹارنی جنرل سمیت پوری کابینہ کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ مجالسِ قائمہ کے روبرو سماعت ہی میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں، جس کے بعد ایوان میں رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے۔ کابینہ کی تکمیل میں دوماہ لگتے ہیں، تب کہیں جاکر نئی انتظامیہ کام شروع کرتی ہے۔ چار سالہ اقتدار مجموعی طور پر 1461 دنوں پر محیط ہے اور اس اعتبار سے ابتدائی 100دن مدتِ اقتدار کا 7 فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن امریکہ میں گزشتہ 88 سال سے نئے صدر کے پہلے 100 دنوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔
اس تمہید کے بعد اب جناب بائیڈن کے سو دنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ عام طور سے پہلے سو دن کی کارکردگی پر ذرائع ابلاغ تجزیے پیش کرتے ہیں اور صدر خود کچھ نہیں کہتے۔ لیکن اِس بار نئی حکومت کی کامرانیوں اور مواقع و امکانات کے جائزے کے لیے کانگریس کی اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی نے صدر بائیڈن کو امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی۔ یہ تقریب اس اعتبار سے منفرد تھی کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار کانگریس کے دونوں ایوانوں کی سربراہی خواتین کے ہاتھوں میں ہے، اور خطاب کے دوران دو خواتین یعنی ایوان زیریں کی اسپیکر نینسی پلوسی اور سینیٹ کی صدر نشیں کملادیوی ہیرس صدر کی پشت پر تھیں۔ یہ دونوں صدر بائیڈن کی پُرجوش حامی ہیں۔ گزشتہ سال جب صدر ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تو پیچھے بیٹھی اسپیکر نے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے تقریر کے اختتام پر صدارتی خطاب کا مسودہ پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اس منظر کو کروڑوں لوگوں نے ٹی وی پر براہِ راست دیکھا۔
کورونا وبا کی وجہ سے اس بار مہمانوں سمیت صرف 200 افراد کو مدعو کیا گیاتھا، حالانکہ سینیٹرز اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان کی مجموعی تعداد ہی 535 ہے۔ عام طور سے کانگریس سے صدر کے خطاب میں ارکانِ پارلیمان کے علاوہ وزرا، سپریم کورٹ کے جج، فوج کے سربراہان، دوست ممالک کے سفرا، اور کاروباری شخصیات سمیت ایک ہزار مہمانوں کو مدعو کیا جاتاہے۔
ایک گھنٹہ چار منٹ دورانیے کی اس تقریر میں صدر جوبائیڈن نے امریکی معیشت کو درپیش مشکلات اور بہتری کے مواقع و امکانات پر تفصیل سے روشنی ڈالی، ساتھ ہی 6 جنوری کو کانگریس کی عمارت پر یلغار اور بڑھتی ہوئی نسلی کشیدگی کے تناظر میں جمہوریت کو حائل خطرات کا بھی ذکر کیا۔ اس دوران انھوں نے خارجہ امور کے باب میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان مکالمہِ اربع یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف Quad، چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا سرسری سا تذکرہ کیا۔ یہی ہمارا آج کاموضوع ہے۔
لیکن اس سے پہلے امریکہ کے بارے میں چند چشم کشا حقائق، جن کا ذکر سماجیات کے علما تو بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن سینیٹر برنی سینڈرز کے سوا کسی بھی سیاست دان میں اس اعتراف کی جرات نہ تھی۔ صدر بائیڈن نے کہا:
٭امریکہ میں شوہر یا ظالم محبوب (بوائے فرینڈ) کی فائرنگ سے ہر ماہ پچاس خواتین ہلاک ہورہی ہیں۔
٭کورونا وبا کی وجہ سے 20 لاکھ نوکری پیشہ خواتیں گھر بیٹھ رہیں کہ نہ تو گھر میں کوئی ہے جو بچوں کی دیکھ بھال کرسکے اور نہ وہ آیا کے اخراجات برداشت کرسکتی ہیں۔
٭امریکہ کے غریب طبقے کا افلاس اب اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ مفت خوراک کے مراکز پر ایک تھیلا راشن کے لیے کاروں کی کئی میل طویل قطار نظر آتی ہے۔
٭امریکہ کے ایک کروڑ گھروں اور 4لاکھ تعلیمی اداروں میں فراہم کیا جانے والا پانی سیسے (Lead)سے آلودہ ہے۔
٭کورونا وبا کے دوران 2 کروڑ امریکی بے روزگار ہوگئے لیکن اسی عرصے میں ملک کے 650 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان لوگوں کی مجموعی دولت کا حجم اب 4 ہزار ارب ڈالر ہے۔
٭ گزشتہ برس امریکہ کی 55 کارپوریشنوں کا مجموعی منافع 40 ارب ڈالر تھا، لیکن ان میں سے کسی ادارے نے ایک پائی ٹیکس ادا نہیں کیا۔
مکالمہ اربع کا نام لیے بغیر جناب بائیڈن نے کہا کہ ہم بحرجنوبی چین میں نہ صرف عسکری موجودگی برقرار رکھیں گے بلکہ چینی صدر کو بتادیا گیا ہے کہ امریکہ ہند و بحرالکاہل (Indo-pacific) میں نیٹو کی طرز پر موثر عسکری قوت رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اپنے خطاب میں صدر نے تفصیل نہیں بتائی لیکن اس غیر مبہم بیان سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ کواڈ کو نیٹو کے انداز میں منظم کیا جائے گا۔ کواڈ (چار) ممالک کے درمیان بحرالکاہل کی نگرانی کے لیے فوجی تعاون 2007ء سے جاری ہے، جسے جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو ایبے نے ایشیائی قوس جمہوریت یا Asian Arc of Democracy قرار دیا تھا۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سالیون کا شمار کواڈ کے معماروں میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں حضرات اوباما انتظامیہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔
کواڈ کا تزویراتی (Strategic)ہدف بحرالکاہل خاص طور سے بحر جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کے لیے کواڈ ممالک وقتاً فوقتاً بحری مشقیں کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی پہلی مشق 1992ء میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی، جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت سے اسے مالابار بحری مشق پکارا گیا۔ بعد میں اس سرگرمی کا نام ہی مالابار مشق پڑگیا۔ اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے بڑا مظاہرہ 2020ء میں ہوا جب 3 سے 6نومبر تک خلیج بنگال اور 17 سے 20 نومبر تک بحرعرب میں دوستانہ میچ ہوا۔
گزشتہ دس بارہ سال میں بیجنگ نے بحر جنوبی اور مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے بنا کر ان پر اڈے قائم کردیے ہیں۔ عسکری ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کچھ تنصیبات جوہری نوعیت کی بھی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لینا آسان نہیں، لہٰذا کواڈ کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔
ملائشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحر ہند سے ملاتی ہے۔ کواڈ بندوبست کے تحت اس آبنائے کے شمالی دہانے کی نگرانی ہندوستانی نائوسینا (بحریہ) کو سونپی گئی ہے، جبکہ اس کے جنوب مشرقی کونے پر آسٹریلوی بحریہ نظر رکھتی ہے۔ بحر انڈمان سے خلیج بنگال تک بھارتی بحریہ کے جہاز گشت کررہے ہیں۔ جزائر انڈمان پر امریکی و بھارتی بحریہ کی تنصیبات بھی ہیں۔
گزشتہ ماہ کواڈ کا مجازی (Virtual)سربراہی اجلاس ہوا جس میں چاروں ملکوں نے بحرالکاہل و بحرہند تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔ کواڈ کی سرگرمیاں بحرالکاہل اور بحرہند تک محدود ہیں لیکن امریکہ اور کواڈ اتحادی گوادر کو چینی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والی مالابار مشقیں بحرعرب میں بھی کی گئی تھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحفظات نہ ہوں تب بھی کواڈ اتحادیوں کو گوادر سے دلچسپی ضرور ہے۔
نیٹو اتحاد کی سب سے اہم شق یہ ہے کہ کسی بھی رکن پر حملہ یا اس کی سلامتی کو خطرہ تمام رکن ممالک پر حملے کے مترادف ہے، اور نیٹو اپنے رکن کے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کا پابند ہے۔ نائن الیون واقعے کو امریکہ نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا، چنانچہ افغانستان پر پوری نیٹو نے حملہ کیا، حتیٰ کہ ترکی نے بھی اپنے دستے بھیجے کہ نیٹو چارٹر کے تحت انقرہ اس کا پابند تھا۔ نیٹو کے انداز میں تنظیم پر اگر کواڈ نے بھی ”دوست کا دشمن، دشمن“ کا اصول اپنالیا تو برصغیر میں دھماکہ خیز صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد۔ دلّی کشیدگی ماضی میں کئی بار خونریز جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایشیائی نیٹو سے پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور علاقے کے کئی دوسرے ملک سفارتی آزمائش کا شکار ہوسکتے ہیں جو امریکہ اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔
امریکی صدر نے ایک بار پھر افغانستان سے انخلا کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد ہونے والی کارروائی کے اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو انصاف مل گیا اور القاعدہ کو کمزور کردیا گیا، چنانچہ ہمارے بہادر جوان احتشام و افتخار کے ساتھ واپس آرہے ہیں۔
اسامہ بن لادن کو انصاف ملنے کی بات کو خود امریکہ کے بہت سے قانونی ماہرین بھی تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی وزارتِ دفاع نے ایبٹ آباد آپریشن کی جو تفصیلات بیان کی تھیں اس کے مطابق جب امریکی چھاپہ ماروں کا اسامہ بن لادن سے سامنا ہوا اُس وقت القاعدہ کے سربراہ اپنی خواب گاہ میں بالکل غیر مسلح تھے۔ وہیں ان کی اہلیہ بھی محو خواب تھیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ کسی خطرے میں پڑے بغیر اسامہ بن لادن کو صحیح سلامت گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ اس صورت میں نائن الیون اور دوسری دہشت گرد کارروائیوں کی شفاف تحقیقات ممکن تھیں، لیکن انھیں موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار کر تحقیق و تفتیش کے باب کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔
افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے مراکز اب افغانستان سے یمن، صومالیہ، شام اور افریقہ کے کچھ دوسرے علاقوں کو منتقل ہوچکے ہیں جہاں القاعدہ اور داعش کی سرگرمیاں بڑھتی نظر آرہی ہیں۔ صدر بائیڈن نے امریکیوں کو یقین دلایا کہ افغانستان سے فارغ ہونے والے عسکری، سراغ رساں اور مالی وسائل کو دوسرے علاقوں میں سرگرم دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مسلم اویغوروں کا نام لیے بغیر امریکی صدر نے کہا کہ چینی ہم منصب سے گفتگو کے دوران انھوں نے یہ بات غیر مبہم اور دوٹوک انداز میں واضح کردی ہے کہ امریکہ باہمی تعلقات کے حوالے سے انسانی حقوق کی پامالی پر اپنی آنکھیں بند نہیں رکھے گا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے ”سب سے پہلے امریکہ“ کے باب کو بند کرتے ہوئے ”قائدانہ کردار کے ساتھ امریکہ کی واپسی“ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے، جمہوریت، آزادانہ تجارت اور انسانی حقوق کا علَم بردار بن کر کھڑا ہے اور اب اُن قوموں اور حکومتوں کا کڑا احتساب کیا جائے گا جو ان اقدار کی پامالی کی مرتکب ہوں گی۔
…………………………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔