آزادکشمیر اور چینی کمپنی کے درمیان واٹر یوز چارجز معاہدہ

خود انحصاری اور سیلف گورننس کی طرف اہم قدم

آزادکشمیر میں انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ابھی انتخابی شیڈول کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا مگر سیاسی جماعتوں نے امیدواروں سے ٹکٹوں کے لیے درخواستوں کی وصولی اور امیدواروں کے انٹرویو کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اس عمل میں پوری طرح سرگرم ہیں، جبکہ ریاستی جماعت کے طور پر مسلم کانفرنس بھی ان جماعتوں کا تعاقب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مستقبل کی سیاسی صورت گری کی پیش گوئی کرنا گوکہ ابھی قبل ازوقت ہے، مگر ان حالات میں آزاد کشمیر میں پارلیمانی نظام کا ماضی کے تسلسل میں جاری رہنا بھی غیر معمولی ہے جب خود وزیراعظم راجا فاروق حیدر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ میں آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم ہوں‘‘۔ فاروق حیدر کے اس بیان نے آزادکشمیر کے موجودہ سیاسی نظام اور جغرافیائی اسٹیٹس کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردئیے تھے۔ بالخصوص مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل ہونے کے بعد تمام نظریں پاکستان پر مرکوز تھیں کہ جوابی حکمتِ عملی کے طور پر پاکستان آزادکشمیر کے اسٹیٹس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ آزادکشمیر کے موجودہ انتظامی ڈھانچے کو ختم کرکے اسے وفاقی اداروں میں نمائندگی دی جائے گی۔
گلگت بلتستان کی طرح آزادکشمیر کے انتخابات بھی پرانے نظام اور انتظام کے تحت ہورہے ہیں۔ سرِدست یہاں کے نظام اور جغرافیائی ہیئت میں تبدیلی کا کوئی منصوبہ اسلام آباد میں زیر غور نہیں۔ اس تاثر کے مضبوط ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں نے نیم دلی ختم کرکے روایتی طریقے کے تحت انتخابی سیاست کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کورونا کے حالات کی وجہ سے اِس بار انتخابی مہم میں زور پیدا ہونے کا امکان کم ہے، مگر گلگت بلتستان کے انتخابات میں کورونا کی پروا کیے بغیر انتخابی مہم چلانے کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔
انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی حکومتِ آزاد کشمیر اور چینی کمپنی تھری گارجرکی ذیلی کمپنی کوہالہ ہائیڈرو الیکٹرک کمپنی کے درمیان اسلام آباد میں واٹر یوز چارجز کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ آزاد کشمیر کی طرف سے سیکرٹری برقیات ظفر خان، اور چینی کمپنی کی طرف سے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر اور وفاقی وزیر پانی وبجلی حماد اظہر بھی موجود تھے۔ اس طرح انتخابی مہم میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) واٹر یوز چارجز کے معاہدے کو آزادکشمیر کے عوام کے لیے اپنا ایک بڑا تحفہ بناکر پیش کریں گی۔ اس کا کریڈٹ لینے میں کون کامیاب ہوتا ہے قطع نظر اس بات کے یہ آزادکشمیر کے وسائل میں ایک قابلِ ذکر اضافے کا باعث ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت واٹر یوز چارجز کی مد میں آزادکشمیر کو سالانہ ڈھائی ارب ملیں گے، جبکہ آٹھ ہزار مقامی افراد کو روزگار بھی حاصل ہوگا۔ کمپنی ماحولیات کے مضر اثرات کو ختم کرنے کے لیے واٹر باڈیز کی تعمیر اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے جامع پلان تیار کرکے عمل درآمد کرنے کی پابند ہوگی۔ منصوبے کی لاگت پانچ کھرب روپے ہے جو 1100میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا، جبکہ اس سے سالانہ 5 ارب یونٹ بجلی پیدا ہوگی۔ تیس سال کے بعد یہ منصوبہ آزادکشمیر حکومت کو منتقل ہوگا۔
کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پن بجلی کا ایک بڑا منصوبہ ہے جو اپنی ابتدا سے ہی اس لحاظ سے تنازعات کا شکار رہا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے علاقے کے دو تاریخی دریائوں نیلم اور جہلم کے فطری دھارے تبدیل ہونا یقینی تھا۔ اس عمل کے ماحولیات پر تباہ کن اثرات مرتب ہونے کے خدشات بھی موجود تھے۔ دریائوں کے رخ موڑنے سے پیدا ہونے والے مضر اثرات کو کم یا ختم کرنے کے لیے متبادل منصوبہ یا تو کاغذوں میں موجود ہی نہیں تھا، یا اس پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تھا۔ اب حکومتِ آزاد کشمیر اور چینی کمپنی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں واٹر باڈیز سمیت دوسرے اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اور امید ہے کہ معاہدے پر من وعن عمل بھی ہوگا۔ واٹر یوز چارجز کے معاملے پر چینی کمپنی سے ہونے والا معاہدہ آزادکشمیر حکومت کا خود انحصاری اور سیلف گورننس کی طرف اہم قدم ہے۔
اس ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بڑے منصوبوں پر عمل درآمد اور وسائل کے ذخائر کے استعمال میں دوردراز کا خیال تو رکھا جاتا ہے مگر مقامی لوگوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے مقامی لوگ احساسِ محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور کبھی کبھار یہ احساسِ محرومی ردعمل کی شکل بھی اختیار کرجاتا ہے۔ اس محرومی کو ایکسپلائٹ کرنے کے لیے بھارت موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ جونہی کسی علاقے میں ترقی کی دوڑ یا وسائل کی تقسیم میں نظرانداز کرنے کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں بھارت اپنا پاندان اُٹھائے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ بلوچستان میں اس کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ اس لیے بہتر پالیسی یہی ہے کہ وسائل پر پہلا حق مقامی لوگوں کا ہونا چاہیے، اور اس بات کو اصول کے طور پر اپنانا چاہیے۔ واٹر یوز چارجز کا معاہدہ اسی احساس کا شاخسانہ ہے۔ اس سے جہاں آزادکشمیر کی سرزمین پر تعمیر ہونے والے اس بڑے پروجیکٹ میں آزادکشمیر کے عوام کو شراکت کا احساس ہوگا، وہیں آزادکشمیر حکومت کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا، اور یہ وسائل عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے بننے والے منصوبے جہاں ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کا سامان ہوں گے، وہیں واٹر باڈیز کی صورت میں یہ سیاحت کے فروغ کا باعث بھی بنیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاہدے پر من وعن اور فوری عمل درآمد کا آغاز کیا جائے۔