’کسی محبوب کو وبا نہ لگے‘
کورونا کی وبا کا زور بڑھتا ہی جا رہا ہے۔اس آپا دھاپی میںایسا رونا دھونا مچا کہ اردو والوں سے ہنوزطے نہ ہو سکا کہ اسے کرونا لکھا جائے یا کورونا؟خیر خیر،غیر زبانوں سے در آنے والے اسمِ معرفہ کے ساتھ اردو میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے۔ ہم تو ابھی تک یہ بھی نہ طے کر پائے کہ ہمارے اپنے دوست اور برادر ملک ترکی کے صدر صاحب کا خاندانی نام اردگان ہے، اردوغان ہے یا ایردوان۔
بہر حال، کورونا یا کرونا کے ہجے جو بھی ہوں، اہلِ اُردو سے درخواست ہے کہ ہجے کی طرف زیادہ توجہ دینے کی بجائے وبا سے بچنے کی طرف کچھ توجہ کیجیے، کیوں کہ مندرجہ بالا ہجے میں سے کسی بھی ہجے سے وبا کی شدّت کم ہوگی نہ بڑھے گی۔ بقول مولانا حالیؔ:
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
ذرادیکھیے کہ اس وبا کی طغیانیاں ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کتنی شدید ہو گئی ہیں۔ وہاں آکسیجن کی قلت ہو جانے کی وجہ سے بھی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ اللہ بنی نوع انسانپررحم فرمائے اور اس وبا سے پوری دنیا کو نجات دلائے۔ آمین۔
وبا کے اس طویل دورانیے میں اردو زبان میں جہاں اس موضوع پر معلوماتی اور تحقیقی مضامین تحریر کیے گئے وہیں شعر و ادب پر بھی اس وبا کا شدید حملہ ہوا ۔ ہمارے دوست اور بھائی پروفیسر ڈاکٹر شاہد رفیع نے تو ’کورونائی ادب‘ کے نام سے اچھا خاصا ذخیرۂ انتخاب بھی کر لیا ہے۔ کوئی ناشر بھائی اسے شائع کرنا چاہے تو ہاتھ کھڑا کر کے آواز دے۔
لاہور سے سید عدیل اعجاز صاحب نے ایک پاکستانی نوجوان کی کورونائی نظم ہمیں تحریری و بصری صورت میں ارسال فرمائی ہے ساتھ ہی ایک سوال داغا ہے۔نظم میں شاعر نے پورے بھارت کو اپنا محبوب قرار دیتے ہوئے (’اپنا محبوب پورا ہندوستان‘) دُعا کی ہے:
کیا پتا کل کوئی دُعا نہ لگے
کسی محبوب کو وبا نہ لگے
نظم پڑھنے ، سننے اور(شاعر کی شکل) دیکھنے کے بعد محسوس ہوا کہ یہنظم خلا میں پہنچ کر یا کسی خلائی جہاز میں بیٹھ کر کہی گئی ہے۔بے وزنی کی کیفیت پوری نظم میں رچی بسی ہوئی ہے۔تاہم عدیل صاحب کا سوال صرف شعر کے دوسرے مصرعے سے متعلق ہے:
’’جناب! وبا لگتی ہے یا انسان وبا کا شکار ہوتا ہے؟ آپ کی رہنمائی درکار ہے‘‘۔
ہمیں تو درج بالا شعر کا مفہوم ہی سمجھنے کے لیے رہنمائی درکار ہے۔ کیا پتا شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟ شاعر شاید یہ کہنا چاہتا ہے کہ آج کل جس کو بھی ’وبا لگنے کی دُعا‘ دو، فوراً لگ جاتی ہے۔ لہٰذا ہر محبوب کو (جو بالعموم ظالم اور قاتل ہی ہوتا ہے) جلدی جلدی ’وبا لگنے کی دُعا‘ دے ڈالو، کیا پتا کل کوئی دُعا نہ لگے۔
’وبا‘ کی جگہ ہمارے تمام ورقی اور برقی ذرائع ابلاغ انگریزی اصطلاحات Epidemesis اور Epidemic اتنی بے تکلفی اور فراوانی سے استعمال کر رہے ہیں ، گویا ہمارے قارئین اور ناظرین ’وبا اور وبائی بیماری‘ کے الفاظ تو سمجھنے سے قاصر رہیں گے مگر انگریزی کی یہ ادق اصطلاحات فی الفور سمجھ لیں گے۔اس پر اصطلاحات استعمال کرنے والوں کا یہ اصرار بھی ہے کہ:
’’اردو لشکری زبان ہے۔انگریزی الفاظ استعمال کرنے سے اردو کا وجود خطرے میں پڑے گا نہ اس کی توقیر کم ہوگی‘‘۔
مگر،ہر اردو ، عربی، فارسی، ہندی اور ترکی اصطلاح کی جگہ صرف اورصرف انگریزی اصطلاحات استعمال کرنے پر مصر لوگ یہ نہیں بتاپاتے کہ لفظ ’وبا‘ استعمال کرنے سے ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ وبا زیادہ پھیل جائے گی؟ وبائی تباہ کاریاں بڑھ جائیں گی؟یا ہم عالمی وبائی برادری سے کٹ کر تنہا اپنے قرنطینہ میں بیٹھے کے بیٹھے رہ جائیں گے؟
وبا عربی الاصل لفظ ہے۔ اردو زبان کی جڑیں عربی زبان میں گہرائی تک پیوست ہیں۔ خواہ کتنی ہی کوشش کی جائے اردو کو عربی سے کاٹ کر رکھا جاسکتا ہے، نہ اس کا مزاج مکمل فرنگی بنا یا جا سکتا ہے۔ اردو کا فطری تعلق عربی، فارسی، ترکی اور ہندی سے تھا، ہے اور رہے گا۔
جب کوئی بیماری عام ہو جائے تو ’وبا‘ کہلاتی ہے۔ بالعموم مراد متعدی بیماریوں سے ہوتی ہے، یعنی وہ بیماریاں جو چھوت چھات سے لگ جاتی ہیں۔ مریض اگر کسی صحت مند شخص کو چھو دے تو مرض کے جراثیم اُس شخص کے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں۔اگر ایسا کوئی مرض بیک وقت آبادی کے اکثر لوگوں میں پھیل جائے تو اس صورتِ حال کو وبائی صورتِ حال کہتے ہیں۔مرض کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھنے لگے تو کہا جاتا ہے کہ وبا کی شدّت میں اضافہ ہو گیا۔ اردو زبان میں وبا کے ساتھ جو محاورے اور روز مرے استعمال کیے جاتے ہیں ، اُن میں ’’وبا لگنا‘‘ (مذکورہ نام نہاد نظم کے علاوہ) کہیں پڑھا، نہ کسی لغت میں پایا، نہ فصحاکی کسی تحریر میں دیکھا۔’’لگنا‘‘ کا لاحقہ ’’وبا‘‘ کے ساتھ نہیں لگتا۔روگ لگتا ہے، مرض لگتا ہے اور بیماری لگتی ہے۔ بعض لوگوں کو بیماری لگتے ہی موت کا ڈر بھی لگنے لگتا ہے۔
وبا کے جو محاورے اور روزمرے اردو میں استعمال ہوتے ہیں اُن میں وبا پھیل جانا، وبا کا شکار ہوجانا اور کسی جگہ وبا آجانا وغیرہ شامل ہیں۔ کنایتاً کسی علّت، عادت یا کسی چلن کے معاشرے میں عام ہو جانے کو بھی وبا کہتے ہیں۔ شوقؔ قدوائی کا اعلان سماعت فرمائیے:
دل کو پہلو میں ٹٹولو تو پھپھولا پاؤ
یہ وبا پھیل گئی ہے ترے بیماروں میں
رندؔ کو بھی وباسے ہلاک ہونے والوں کا دلی دُکھ ہے:
مرتے ہیں سیکڑوں مے خوار شرابیں پی کر
فصلِ گُل کاہے کو آتی ہے، وبا آتی ہے
وبا سے ملتا جلتا ایک لفظ ’وبال‘ بھی ہے، جس کے عام معنی عذاب، بھگتان یا اپنے کیے کی سزا پانے کے ہیں۔ کسی بُرے کام کی دنیاوی سزا مل جانے کو اُس کام کا وبال پڑنا کہا جاتا ہے۔ صباؔ کو دیکھیے کہ کیسے تالیاں بجا بجا کر خوش ہو رہے ہیں:
پڑ گیا اُن پر مرے پیچ میں لانے کا وبال
کیا پریشان ترے گیسوؤں کا حال ہوا
کوئی چیز ناگوار گزرتی ہو یا مصیبت اور بوجھ محسوس ہونے لگے تو اُسے ’وبالِ دوش‘ یا ’وبالِ جان‘ قرار دیا جاتا ہے۔ بقولِآتش:
گردن بھی اپنی دوش پہ اپنے وبال ہے
کیا چھین کر حریف سے تلوار توڑیے
آج ہفت روزہ ’فرائیڈے اسپیشل‘ کے ایک مستقل سلسلے’حاصلِ مطالعہ‘ پر نظر ڈالی تو ’بیادِ مجلسِ اقبال‘ کے عنوان پرنگاہ پڑگئی۔ نہ جانے کب سے یہ عنوان شائع ہو رہا ہوگا۔اس عنوان کا مفہوم بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ مطلب تو شاید ’ محفلِ اقبال کی یاد میں‘ بنتا ہے۔ مگر یہ کون سی محفل یا کون سی مجلس ہے جس کی یاد منائی جا رہی ہے؟ سوچیے تو سوچتے رہ جائیے،جواب دینے کون آئے گا؟ خودجا کر پوچھیے تب بھی شاید کوئی جواب نہ دے پائے گا۔وہم و گمان کے گھوڑے دوڑانے والا قاری اپنے ظن و قیاس کے تَوسن کو سن ۱۹۳۸ء تک دوڑاتاچلا جائے گا کہ ممکن ہے اقبالؔ کی وفات حسرت آیات پر عزاداروںنے کوئی مجلسِ عزا برپا کی ہو اور اُسی مجلس کی یاد میں یہ سلسلہ قائم کر دیا گیا ہو۔
عنوان تو’بیادِ اقبالؔ‘ بھی ہو سکتا تھا، یعنی اقبالؔ کی یادمیں،کیوں کہ اس مستقل سلسلے کے تحت کلامِ اقبال سے ایک شعر مع تشریح پیش کیا جاتا ہے، تاکہ نئی نسل اقبالؔ کو بالکل ہی بھول نہ جائے،تھوڑا بہت یادبھی کر لیا کرے۔ ورنہ اقبالؔ کو بھلانے کی تو مہم چل رہی ہے۔
علامہ اقبالؔ کے فارسی مجموعہ کلام ’پیامِ مشرق‘ کی ایک غزل کا مقطع ہے:
(باقی صفحہ 41پر)
بیا بہ مجلسِ اقبالؔ و یک دو ساغر کَش
اگرچہ سر نہ تراشد قلندری داند
(اقبالؔ کی بزم میں آؤ اور معارف و معرفت کے ایک دوجام چڑھاؤ، گو کہ سرنہیں مُنڈاتا، مگر قلندری کے اسرار و رموز جانتا ہے۔)
ممکن ہے کہ مذکورہ صفحے پر اُسی مجلس کی یاد منائی جا رہی ہو، جس میں اقبالؔ بلاتے ہی رہ گئے مگر ابوسعدیؔ صاحب (جو یہ صفحہ مرتب کرتے ہیں) بوجوہ نہیں جا سکے۔ ویسے بھی آج ۳۰ اپریل ہے۔ اقبال ؔ آج سے نو دن قبل یعنی ۲۱ اپریل ہی کو وفات پا چکے تھے۔اب مجلسِ اقبالؔ کی صرف یاد ہی منائی جا سکتی ہے۔بقول ضمیرؔ جعفری:
بپا ہم سال میں اِک مجلسِ اقبالؔ کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
ذکرِ اقبال ؔ ہو یا محفلِ اقبالؔ، عام طور پر اقبالؔ کے مندرجہ بالافارسی شعر کے مصرعِٔ اولیٰ میں سے پہلے ٹکڑے کو عنوان بنایا جاتا ہے: ’’بیا بہ مجلسِ اقبالؔ‘‘۔ یعنی اقبالؔ کی مجلس میں آؤ۔ ’’بیادِ مجلسِ اقبال‘‘ سے یہ عنوان بہتر ہے۔ تبدیل کر لیجیے۔