ششماہی الایام کراچی

مجلہ :ششماہی الایام کراچی (علمی وتحقیقی جریدہ)
مسلسل عدد 22،جولائی، دسمبر2020ء

مدیرہ: ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نائب

مدیران
:
ڈاکٹر زیبا افتخار
صفحات
:
258 قیمت فی شمارہ:400 روپے
ناشر
:
قرطاس ، مجلس برائے تحقیق اسلامی تاریخ و ثقافت، فلیٹ نمبرA-15، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک 15، کراچی
فون
:
0300-2268075
0300-9245853
ای میل
:
nigarszaheer@yahoo.com
ویب سائٹ
:
www.islamichistory.co.nr

الایام کا یہ شمارہ نمبر 2 جلد نمبر11 ہے۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کے لیے اللہ پاک نے یہ الایام کا مشکل کام آسان کردیا ہے۔ یہ اس علمی و تحقیقی مجلے کا بائیسواں گراں قدر شمارہ ہے جس میں متعدد علم افزا مقالات اور مضامین شامل کیے گئے ہیں جن کا تعارف قارئین کرام سے کرا رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو ان کا اداریہ ہے، وہ تحریر فرماتی ہیں:
’’2020ء وبا کا سال ثابت ہوا۔ کورونا (Covid-19) نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اموات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ سارے سال جاری رہا اور لوگ اپنے پیاروں کو دفناتے رہے۔ معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اسکول، کھیل کے میدان، ہوٹل، پارک سب ویران ہوگئے۔ صنعتوں کی بندش نے لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی اور دنیا لاک ڈائون پر مجبور ہوگئی۔
وبائیں اس سے پہلے بھی آتی رہی ہیں اور شہر کے شہر ویران ہوتے رہے ہیں، کیونکہ قدیم زمانوں میں طبی سائنس اتنے عروج پر نہیں تھی، لیکن عہدِ جدید کی ترقیوں کے پیش نظر ایک سال گزر جانے کے باوجود کورونا کے وائرس کو پورے طور پر نہ سمجھ سکنا، میڈیکل سائنس کی بڑی ناکامی ہے۔
دسمبر 2019ء تا دسمبر 2020ء کے دوران بچھڑنے والوں کی اسم شماری بھی مشکل ہے۔ جانے والوں میں سیاست دان، ڈاکٹر، اساتذہ، علما اور عوام سب شامل تھے۔ الایام کی مجلسِ مشاورت کے فعال رکن پروفیسر ڈاکٹر منیر واسطی بھی 25 نومبر کو داغِ مفارقت دے گئے۔ الایام کا زیر نظر شمارہ اس اعتبار سے عجیب ہے جس میں مظہر محمود شیرانی پر ڈاکٹر منیر واسطی کا تعزیتی شذرہ شامل ہے اور پھر خود ان پر لکھا ہوا جاوید خورشید کا تعزیتی مضمون بھی!
موت اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو رستگاری نہیں، دعا ہے کہ بچھڑنے والوں کی اللہ تعالیٰ کامل مغفرت فرمائے (آمین)….۔
تحقیق ایک کارِ مسلسل ہے جو مکمل ہونے کے بعد بھی تکمیل کا دعویٰ نہیں کرتی۔ نئے نظریات و خیالات اسے سنوارتے رہتے ہیں۔ اب تحقیق کے اصول و ضوابط متعین کردیئے گئے ہیں جسے طریقِ تحقیق یا منہجِ تحقیق (Research Methodology) کہا جاتا ہے۔ جامعاتی سطح پر کی جانے والی تحقیق کے لوازمات میں سے ایک جائزۂ مطبوعات (Leterature Review) بھی ہے۔ اچھی اور معیاری تحقیق وہی مانی جاتی ہے جس میں مآخذ کی بحث کے ساتھ ساتھ جائزۂ مطبوعات شامل ہو۔
لٹریچر ریویو دراصل موضوعِ زیر بحث پر ہونے والے سابقہ علمی و تحقیقی کاموں اور مطبوعات کا جائزہ ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کی سطح کے تحقیقی مقالات میں جائزۂ مطبوعات انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ صرف سائنسی علوم میں ہی نہیں بلکہ سماجی علوم اور علومِ اسلامیہ میں بھی اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں۔ محقق جس موضوع پر کام کر رہا ہے اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس مخصوص موضوع پر اس سے قبل کیا کام ہوچکا ہے، کون کون سی کتابیں یا مقالات شائع ہوچکے ہیں، سابق محققین کیا نتائج مرتب کرچکے ہیں، ان سے کس حد تک اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے اور موضوع کو کس پہلو سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ جامعاتی سطح پر ہونے والی تحقیقات میں اگر لٹریچر ریویو کا اہتمام نہ کیا جائے تو وہ کام تحقیق کہلانے کا حق دار نہیں ہوسکتا ،بلکہ بعض اچھے محقق تو اپنے دیگر مقالات میں بھی لٹریچر ریویو کا اہتمام کرتے ہیں۔
لٹریچر ریویو کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ محقق اس موضوع پر ہونے والی سابقہ تحقیقات و تصنیفات سے واقف ہوجاتا ہے، اس کے بعد محقق کا ذہن سوالات اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے، مفروضات (Hypothesis) کے تعین میں بھی مدد حاصل ہوتی ہے۔
لٹریچر ریویو کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مغرب سے آیا ہوا فن ہے۔ درحقیقت اس کی نشاندہی مسلمانوں کی ابتدائی صدیوں میں بھی کی گئی ہے۔ جب مسعودی (م956ء) نے ’’التنبیہ والاشراف‘‘ لکھی تو اس حوالے سے ہونے والے تمام سابقہ کاموں کا تفصیلی تذکرہ کیا، صرف تذکرہ ہی نہیں بلکہ ان تمام مآخذ پر تنقیدی نظر بھی ڈالی۔ اس کے بعد بیشتر اہم مؤرخین نے یہی اسلوب اختیار کیا۔ اس کو مغرب میں Leterature Review کا نام دیا گیا جسے ریسرچ Methodology کا لازمی حصہ بنایا گیا۔ ہر وہ کتاب جو تحقیقی نوعیت کی ہو اُس کے مقدمے کا لازمی جزو لٹریچر ریویو کو سمجھا جاتا ہے۔
بعض لٹریچر ریویو اتنے بسیط (Comprehension) اور Detailed ہوتے ہیں کہ ایک علیحدہ مقالے کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں‘‘۔
اس شمارے میں جو تحقیقی مقالات شامل ہیں ان کی فہرست درج ذیل ہے:
مقالات: ’’فسطاط کی جامع عمرو بن عاص کا ایک مصحف‘‘۔ ظفر احمد، ’’مسلکِ ظاہریہ کا شیوع‘‘۔ ریحان عمر، ’’اسلامی تاریخ:چند مباحث‘‘۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر
ادبیات: ٭تراجم، ’’پانچویں صدی ہجری میں اثنا عشری کلامی فکر: ایک مطالعہ‘‘ ترجمہ: سید عبیداللہ جمیل، ٭مکتوبات: ’’مظہر محمود شیرانی بنام منیر واسطی‘‘۔ ڈاکٹر سید منیر واسطی، ٭لسانیات: ’’کلمہ نسبت ’یں‘ اور ’گیں‘ کے جمالیاتی رنگ (لسانی تناظر میں)‘‘۔ غازی علم الدین، ٭سفرنامہ: ’’کراچی سے قاہرہ… (سفرنامہ مصر، آخری قسط)‘‘۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، ’’دریائے آمو کے دیس میں (سفرنامہ ازبکستان)‘‘۔ ڈاکٹر عصمت درانی، ٭وفیات: ’’کتنی تیزی سے شام ہوتی ہے (ڈاکٹر منیر واسطی کی یاد میں)‘‘۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ’’موت العالِم موت العالَم (پروفیسر ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی کی یاد میں)‘‘۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق،(باقی صفحہ 41پر)
’’رفتید ولے نہ ازدلِ ما (بیاد ڈاکٹر ندیم شفیق ملک)‘‘۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
حصہ انگریزی کے محتویات درج ذیل ہیں:
-Mirza Mazhar Jan-i-Janan: a multi dimensioned Personality
Dr.Syed Munir Wasti.
-A Tribute to Dr.Mazhar Mahmud Shirani
Dr.Syed Munir Wasti.
-OBITUARY:Dr,Syed Munir Wasti dies silently-the Way he was living.
Dr.Jawed Ahmed Khursheed.
جو شخص بھی اس عمدہ علمی و تحقیقی مجلے کا مطالعہ کرے گا اُس کے علم میں اضافہ ہوگا اِن شاللہ۔
جریدہ سفید کاغذ پر خوب صورت طبع ہوا ہے۔
ادارہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور کی لائبریری میں الایام کا ریکارڈ موجود ہے، وہیں یہ مجلہ جمع کرادیا ہے، جو اصحاب دیکھنا چاہیں وہ اسے وہاں دیکھ سکتے ہیں۔