موسمی آفتیں صفر کیوں؟ پہلا باب (پہلا حصہ)

ہمیں ’’صفر‘‘ کاربن تک سفر کرنا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ اس کی وجہ بڑی ہے۔ گرین ہاؤس گیس فضا کی گرمی جکڑلیتی ہے، اور زمین کا درجہ حرارت بڑھادیتی ہے۔ جتنی زیادہ گیسیں ہوتی ہیں، درجہ حرارت اُتنابڑھ جاتا ہے۔ جو گرین ہاؤس گیسیں ہوا میں شامل ہوجاتی ہیں، اُن کا ایک پانچواں کاربن ڈائی آکسائیڈ حصہ فضا میں دس ہزار سال تک ٹھہرا رہتا ہے۔
اس وقت منظر نامہ یہی ہے کہ کاربن فضا میں شامل ہوتی جارہی ہے، گرمی بڑھتی چلی جارہی ہے، اور انسانی زندگی کی بقا مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کے کتنی گرمی کتنا نقصان پہنچائے گی، مگر ہمارے پاس پریشان ہونے کی بڑی ٹھوس وجہ موجود ہے۔کیونکہ ’’صفر کاربن ‘‘ پرپہنچنے کے بعد بھی گرین ہاؤس گیسیں طویل عرصہ فضا میں رہیں گی، اور درجہ حرارت بھی بڑھتا رہے گا۔
مجھے تسلیم کرنا ہوگا،کہ میں ’’صفر‘‘ کی اصطلاح بھرپور معنی میں استعمال نہیں کررہا، اور مجھے جو کچھ کہ میں سمجھانا چاہ رہا ہوں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ صنعتی دور سے پہلے، اٹھارہویں صدی کے وسط میں، زمین پر کاربن کا چکر غالبا قدرے توازن میں تھا، پودے اور درخت وغیرہ وہ ساری کاربن جذب کرلیتے تھے، کہ جتنی خارج ہوتی تھی۔
مگر پھر ہم نے قدرتی ایندھن جلانا شروع کردیا۔ یہ ایندھن کاربن سے بنتا ہے، جو زیر زمین ذخیرہ ہوتا ہے، شکریہ اُن پودوں کا جو مرجھانے کے بعد طویل عرصہ میں تیل، کوئلہ، اور قدرتی گیس بن جاتے ہیں۔ جب ہم یہ ایندھن نکالتے ہیں اور اسے جلاتے ہیں، فضا میں زیادہ سے زیادہ کاربن شامل کردیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ’ صفر‘ تک پہنچنے کاکوئی حقیقی رستہ موجود نہیں، جو ایندھن سے پہنچنے والے اس نقصان کا مکمل خاتمہ کرسکے یا ایسی ساری سرگرمیوں کا رستہ روک سکے، جوگرین ہاؤس گیسیں پھیلارہی ہیں(جیسے سیمنٹ کی تیاری، کھاد کا استعمال، اور پلانٹس سے میتھین گیس کا اخراج وغیرہ)۔ بجائے اس کے، ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اخراج میں کمی لائیں اور کسی طرح فضا سے کاربن مٹائیں، اور اس طرح ’صفر‘ کا مستقبل ممکن بنائیں۔
دوسرے الفاظ میں ’’صفر تک پہنچنے‘‘کا مطلب واقعی ’’صفر‘‘ نہیں ہے۔ اس کا مطلب ’’صفر کے قریب‘‘ پہنچنا ہے۔ یہ کوئی پاس فیل امتحان نہیں کہ جہاں اگر ہم سو فیصد حاصل کرلیں تو سب ٹھیک ہوجائے، یا اگر ہم ننانوے فیصد نمبر حاصل کرلیں توسب برباد ہوجائے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ جتنی کاربن کم ہوگی اُتنے زیادہ فائدے حاصل ہوں گے۔
کاربن اخراج میں پچاس فیصد کمی سے بھی درجہ حرارت کا بڑھنا رکے گا نہیں، البتہ تھم جائے گا۔ یہ موسمی تباہی ملتوی کردے گا۔مگرہمیشہ کے لیے روک نہ سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بدترین صورتحال سے بچنے کے لیے مزید گیسوں کا اخراج نہ صرف روکنا ہوگا،بلکہ فضا میں پہلے سے موجود کاربن کو مٹانا بھی ہوگا۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اخراج کی نسبت کاربن کا خاتمہ زیادہ سے زیادہ ممکن بنایا جائے۔ باتھ ٹب کی مثال کی جانب پلٹتے ہیں، ہمیں نہ صرف پانی کا بہاؤ روکنا ہوگا بلکہ نکاسی کا بھی مناسب انتظام کرنا ہوگا۔
موسمی تبدیلی روز کی خبر ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے: یہ ہنگامی مسئلہ ہے، اور یہ اس توجہ کا مستحق ہے جو اسے ہر نئی سرخی کے ساتھ دی جاسکے۔ لیکن کوریج میں الجھاؤ اور تضاد بھی پایا جاسکتا ہے۔ میں اس ہنگامہ میں ہی اپنی بات کہنے کی کوشش کررہا ہوں۔ کئی برسوں سے میں چوٹی کے ماہرین موسمیات اور ماہرین توانائی سے اکتساب کررہا ہوں۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی گفتگو ہے۔ کیونکہ محققین اس موضوع پر مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، نئے ڈیٹا اور کمپیوٹرماڈل نئے اکتشافات سامنے لارہے ہیں۔ ممکنہ، غالبا، اور ممکن کا اتار چڑھاؤ نظرمیں ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوگیا ہوں کہ موسمی تباہی سے بچنے کے لیے ’صفر‘ تک کا سفر ناگزیر ہے۔
یہاں تھوڑا بھی بہت ہے
میں یہ جان کر بہت حیران ہوا، کہ عالمی درجہ حرارت میں ذرا سا بھی اضافہ کیا بلا ہے! محض ایک سے دو ڈگری سیلسئیس حقیقت میں بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے۔ موسمیاتی اصطلاحوں میںچند ڈگری اونچ نیچ کا مطلب بہت بڑی تبدیلی ہے۔ آخری برفانی دور میں، معمول کا درجہ حرات آج سے صرف چھ ڈگری کم تھا۔ ڈائنوسارز کے دور میں، درجہ حرارت شایدچارڈگری سیلسئس زیادہ تھا، مگر مچھ دائرہ قطب شمالی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ یہاں یہ یاد رکھنا اہم ہے، کہ یہ چند ڈگری کا اتار چڑھاؤ درجہ حرارت میں بڑے خوفناک ردووبدل کا امکان دھندلاسکتا ہے۔ گو کہ صنعتی دور سے پہلے کی نسبت آج درجہ حرارت ایک درجہ اوپر گیا ہے، چند مقامات پر یہ ڈگری دو سے بھی اوپر چلا گیا ہے، یہ وہ مقامات ہیں جہاں دنیا کی بیس سے چالیس فیصد آبادی بستی ہے۔
کچھ مقامات باقی جگہوں کے مقابلہ میں زیادہ گرم کیوں ہیں؟ چند براعظموں میں مٹی زیادہ خشک پڑگئی ہے، وہ ماضی کی طرح ٹھنڈی اور نم نہیں رہی۔ براعظم آج پہلے جیسی نمی خارج نہیں کررہے۔
آخر زمین کی گرمی کا گرین ہاؤس گیسوں سے کیا تعلق ہے؟ بنیادی باتوں سے شروع کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سب سے عام گرین ہاؤس گیس ہے، اور بھی گیسیں ہیں جیسے نٹریس آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ۔نٹریس گیس کو ہنسانے والی گیس بھی کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مالیکیول کے لیے مالیکیول ہے۔ دیگر بہت سی ایسی گیسیں ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ گرمی پیدا کرتی ہیں۔ میتھین جب فضا میں پہنچتی ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ سے 120گنا زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے۔ لیکن میتھین کاربن کی طرح فضا میں زیادہ دیر ٹھیرتی نہیں ہے۔ چیزوں کو سادہ رکھنے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اکثر لوگ مختلف گرین ہاؤس گیسوں کو بیان کرنے کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اصطلاح ہی استعمال کرلیتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کی فضا میں ٹھیرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت کاربن میں ہے۔ لیکن،ظاہر ہے کہ یہ مناسب نہیں، کہ دیگر گیسوں کو بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اصطلاح میں سمجھا جائے، یہ ایک ناقص پیمائش ہے۔ اہمیت دراصل گیسوں کی تعداد یا اخراج کی مقدارکی نہیں بلکہ درجہ حرارت میں مجموعی طورپر اضافہ اور انسانوں پر اس کے اثرات کی ہے۔ اس اعتبار سے، میتھین گیس کاربن کے مقابلہ میں بہت زیادہ مہلک ہے۔ یہ درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ کرتی ہے۔ جب آپ ساری گیسوں کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، زیادہ خطرناک گیسوں کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔
اس کے باوجود، ہمارے پاس اخراج کی پیمائش کے عمدہ طریقے موجود ہیں، اور موسمی تبدیلی کے مباحث میں ان کا ذکر گاہے بہ گاہے ہوتا رہتا ہے۔
اکاون ارب ٹن سالانہ اخراج ساری گیسوں کا مجموعی تخمینہ ہے۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حصہ 37 ارب ٹن ہے۔ اس میں خالص کاربن دس ارب ٹن ہے۔ گیسوں کے بارے میں پڑھتے ہوئے آپ کی آنکھیں کئی بار حیرت سے پھیل جاتی ہیں۔ یہ گیسیں 1850سے ڈرامائی انداز میں خارج ہونا شروع ہوئیں۔ یہ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا، جیسے قدرتی ایندھن کا بہت زیادہ جلایا جانا۔
یہ گیسیں حدت کیسے پیدا کرتی ہیں؟ مختصر جواب یہ ہے کہ، یہ گرمی جذب کرلیتی ہیں اور پھر اسے فضا میں شامل کردیتی ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے کہ جیسے دھوپ میں کھڑی گاڑی اندر سے گرم ہوجاتی ہے، اور اندر کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔
مگریہ وضاحت مزید سوال سامنے لے آتی ہے۔ کس طرح سورج کی گرمی فضا میں کاربن کی حدت سے گزر کر زمین پر پہنچتی ہے؟ اور پھر اسی گیس میں شامل بھی ہوجاتی ہے؟ کیا کاربن بڑے یک رخے آئینے کاکام کرتی ہے؟ جب کاربن اورمیتھین حرارت جذب کرسکتی ہیںتوآکسیجن کیوں نہیں؟ جواب کے لیے ذرا کیمیا اور طبیعات میں جانا ہوگا۔ سارے مالیکیولز حرکت کرتے ہیں۔ جتنی تیز وہ حرکت کرتے ہیں اُتنے زیادہ گرم ہوجاتے ہیں۔ جب خاص قسم کے مالیکیولز ویو لینتھ کی کسی یقینی سطح پر ریڈئیشن سے ٹکراتے ہیں، اُس کا رستہ روک لیتے ہیں، اُس کی توانائی جذب کرلیتے ہیں، اور حرکت مزید تیز کردیتے ہیں۔ مگر ساری ریڈیشن درست ویو لینتھ میں نہیں آتی، اور بیشتر منزل تک مکمل حالت میں پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح سورج کی روشنی گیسوں میں شامل ہونے سے بچ رہتی ہے، زمین تک پہنچ جاتی ہے، اور گرمی پہنچاتی ہے۔ یہ زمانوں سے ہورہا ہے۔
یہاں ایک مسئلہ ہے: زمین طویل عرصہ اس توانائی کوذخیرہ نہیں کر سکتی۔ اگر وہ ایسا کرے زمین کی حدت ناقابل برداشت ہوجائے۔ اس کے بجائے زمین کچھ توانائی واپس خلا کی طرف واپس بھیج دیتی ہے۔مگر یہ کسی خلائے بسیط میں جانے کے بجائے گرین ہاؤس گیسوں کے مالیکیولز سے ٹکراجاتی ہے، اور اُن کی حرکت تیز کردیتی ہے، درجہ حرارت بڑھادیتی ہے۔ باقی گرین ہاؤس گیسوں میں شامل ہوجاتی ہے، یہ وہ ہوتی ہے جو ویو لینتھ کی زدمیں آجاتی ہے۔ یہ بھی خوش کُن حقیقت ہے کہ اگر گرین گیسیں نہ ہوتیں، توزمین پر شدید سردی ہوجاتی، جینا دشوار ہوجاتا۔
سو یہ سوال کے جواب کا پہلا حصہ ہے’’ہمیں صفر تک کیوں پہنچنا ہے؟‘‘ کیونکہ کاربن کا ہر وہ ذرہ جو ہم فضا میں شامل کرتے ہیں، گرین ہاؤس کے مہلک اثرات میں شدت لاتا ہے۔
جواب کا دوسرا حصہ اُن اثرات پر مبنی ہے، جو یہ گیسیں موسم اور ہم پر مرتب کررہی ہیں۔
وہ جو ہم کرتے ہیں مگر جانتے نہیں۔۔۔
سائنس دانوں کو اس بارے میں ابھی بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ہے، کہ آیا موسمی تبدیلیاں کیسے اور کیوں آرہی ہیں۔ آئی پی سی سی رپورٹس نے تسلیم کیا ہے کہ درجہ حرات کا بڑھنا چڑھنا غیر یقینی سا ہے، اور یہ جاننا بھی بعید از قیاس ہے کہ بڑھتے چڑھتے درجہ حرارت کیا اثرات مرتب کریں گے۔ ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہمارے کمپیوٹر ماڈلز اُس کمال پر نہیں پہنچے ہیں، کہ جہاں بدلتے موسم کا مزاج گرفت میں لاسکیں۔ موسم کی پیچید گیاں دماغ ہلادینے والی ہیں، بہت کچھ ایسا ہے کہ جس کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں، جیسے بادل گرمی پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، یا یہ کہ بہت زیادہ گرمی ماحولیات پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ محققین یہ علمی رخنے دور کرنے کی سعی کررہے ہیں۔
تاہم، بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں، جن کے بارے میں سائنس دان اعتماد سے بتاسکتے ہیں، کہ آیا اگر ہم ’’صفر کاربن‘‘ تک نہ پہنچ پائے توکیا ہوگا۔ چند بنیادی باتیں یہ ہیں:
زمین گرم ہورہی ہے؛ ایسا انسانی سرگرمیوں کے سبب ہورہا ہے۔ اس سے درجہ حرات بڑھ رہا ہے اور صورتحال خراب سے خراب تر ہورہی ہے۔ یہ یقین کرنے کی خاطر خواہ وجہ موجود ہے کہ یہ صورتحال بالآخرایک نکتہ پر تباہ کن ہوجائے گی۔ کیا وہ نکتہ تیس سال میں آئے گا؟ یا پچاس سال میں؟ درستی سے کہنا مشکل ہے۔ جوعرصہ بھی ہو، یہ مسئلہ اور اس کی نوعیت ایسی ہے، کہ اس کے حل کے لیے آج ہی سے عمل کرنا ہوگا۔
ہم پہلے ہی ماقبل صنعتی دورکے مقابلے میں ایک درجہ ڈگری سیلسئیس درجہ حرارت بڑھاچکے ہیں، اور اگر ہم نے کاربن اخراج کم نہ کیا، وسط صدی تک 1.5سے3 ڈگری سیلسئس حدت بڑھ سکتی ہے، یہ صدی کے آخر تک4سے 8 ڈگری سیلسئس ہوسکتی ہے۔ یہ اضافی حدت موسم اور ماحول میں کئی طرح کی تبدیلیاں لائے گی۔ سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی۔ موسم بہت زیادہ گرم ہوجائے گا۔ مگر یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ موسمی تبدیلیوں سے کس چیز پر کیا اثر پڑے گا۔ مثال کے طور پر جب کہیں ہیٹ ویو چلتی ہے، تو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ واقعی فقط موسمی تبدیلی کے سبب سے ہے۔ ہم صرف یہ دیکھ سکتے ہیں کہ موسم کس قدر بدل رہا ہے، اور ہیٹ ویو کس قدر شدید ہورہی ہے۔ سمندری طوفانوں میں بدلتے موسم کا کتنا حصہ ہے، یہ کہنا مشکل ہے، تاہم یہ یقینی ہے کہ بڑھتے درجہ حرارت نے طوفان کی نمی اور شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ موسمی تبدیلیوں سے کیا واقعات وقوع پذیر ہوں گے، اور اُن کی شدت کیا ہوگی۔
ہم اور کیا کچھ جانتے ہیں؟
ایک بات یقینی ہے۔ زیادہ گرم دنوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ میں امریکا کے سارے شہروں کا اعدادو شمار دے سکتا ہوں، مگر یہاں Albuquerque, New Mexico کا انتخاب کروں گا۔ کیونکہ اس جگہ سے مجھے خاص نسبت ہے۔ پال ایلن اور میں نے یہاں 1975میں مائیکروسوفٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ ستر کی دہائی میں، کہ جب ہم اس کام کا آغاز کررہے تھے،سال میں چھتیس بار یہاں کا درجہ حرارت نوے ڈگری فارن ہائیٹ سے اوپر چلا جاتا تھا۔ وسط صدی تک اس شہر کا تھرمو میٹر دگنی بار نوے ڈگری فارن ہائیٹ سے اوپر جائے گا۔ صدی کے آخر تک یہ شہر 114دن کی شدید گرمی برداشت کرے گا۔
ہر کوئی یکساں طور پر گرمی اور رطوبت سے متاثر نہیں ہوگا۔مثال کے طور پر سیاٹل کا علاقہ، جہاں پال اور میں نے 1979میں مائیکروسوفٹ کو منتقل کیا تھا، میں موسم نسبتا معتدل ہی رہے گا۔ صدی کے اواخر میں غالبا کسی وقت سال میں چودہ دن نوے ڈگری فارن ہائیٹ تک سوئی حرکت کرے گی۔ بہت سے علاقوں میں عالمی حدت سے حالات بہتر بھی ہوجائیں گے۔ وہ ٹھنڈے علاقے کہ جہاں لوگ نمونیہ، ہائپوتھرمیا، اور فلوسے مرجاتے ہیں،موسم قدرے سازگار ہوجائے گا۔ مگر مجموعی طور پر دنیا بھر کا موسم تکلیف دہ حد تک گرم ہوجائے گا۔ اضافی گرمی کے اثرات ہلادینے والے ہوں گے: جیسے سمندری طوفان شدید ہوجائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے، زمین سے فضا میں زیادہ بھاپ شامل ہوتی ہے۔ یہ بھاپ گرین ہاؤس گیس ہوتی ہے، مگر یہ کاربن یا میتھین کی مانند نہیں ہوتی، یہ فضا میں زیادہ دیر نہیں ٹھیرتی۔ یہ بارش یا برفباری کے ہمراہ پھر سطح زمین پر گر جاتی ہے۔ جب بھاپ بارش میں شامل ہوتی ہے، توانائی کی بڑی مقدار خارج کرتی ہے، اور بجلی کڑکتی ہے، بادل گرجتے ہیں۔
یہاں تک کہ سب سے طاقت ور طوفان بھی چند روز سے زیادہ گرجتا برستا نہیں، لیکن اس کی بازگشت برسوں قائم رہ سکتی ہیں۔طوفان اور سیلاب تباہ کُن ہوتے ہیں، عمارتیں ڈھادیتے ہیں، سڑکیں تباہ کردیتے ہیں، بجلی کی وہ لائنیں خراب کردیتے ہیں کہ جن کی از سر نو تعمیر میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ بڑ ے بڑے طوفان کہیں بہت زیادہ بارشیں اور کہیںقحط برپا کررہے ہیں۔ زیادہ گرم ہوا زیادہ نمی مانگتی ہے، اور جیسے ہی ہوا مزید گرم ہوتی ہے مٹی سے نمی کھینچ لیتی ہے۔ رواں صدی کے آخر تک، جنوب مغربی امریکا میں مٹی دس سے بیس فیصد نمی گنواچکی ہوگی، اور یہاں قحظ کا خطرہ بیس فیصد بڑھ چکا ہوگا۔
شدید گرم موسم کا مطلب جنگلوں میں متواتر اور تباہ کن آگ کا بھڑکنا ہے۔ گرم ہوا پودوں اور مٹی سے نمی کھینچ لیتی ہے، اور ہر چیز آگ پکڑنے لگتی ہے۔ دنیا بھر میں صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ مگر کیلیفورنیا کی مثال بڑی ڈرامائی ہے۔ ستر کی دہائی کے مقابلے میں جنگل کی آگ پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق اس صورتحال میں نصف حصہ بدلتے موسم کا ہے، یہ جنگلات خشک ہورہے ہیں، اس لیے آگ آسانی سے پھیلتی چلی جاتی ہے۔ وسط صدی تک امریکا جنگلات کی آگ سے دگنا نقصان اٹھاچکا ہوگا۔
بڑھتی گرمی کا ایک اثر سمندروں پر پڑے گا، وہ بلند ہوجائیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شمال کی برف پگھل رہی ہے، جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی گرم ہوکر پھیلتا ہے۔ سن 2100تک دنیا بھر کے سمندروں کا پانی چند فیٹ بلند ہوجائے گا۔ یہ بظاہر کم لگ رہا ہے مگر ساحلی شہروں پر اثر انداز ہوگا۔یہ صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ بنگلہ دیش ایک نمایاں مثال ہے، یہ سخت موسموں کی لپیٹ میں رہا ہے، اس کی سیکڑوں میل کی ساحلی پٹی خلیج بنگال کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بدلتا موسم یہاں کی زندگی مزید مشکل بنارہا ہے۔ شکر ہے کہ یہاں کے بیس تیس فیصد لوگ پہلے ہی زیر آب زندگی گزارنے کے عادی ہیں، اُن کے لیے آزمائشیں نئی نہ ہوں گی۔
مختصرا یہ کہ زیادہ گرمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ پیڑ پودوں اور جانوروں پر اثرا نداز ہورہے ہیں۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق، دوڈگری سیلسئیس کا اضافہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی آٹھ فیصد جغرافیائی بودو باش مٹادے گا، سولہ فیصد سبزہ، اور اٹھارہ فیصد حشرات الارض کا جغرافیہ زندگی کے قابل نہ رہے گا۔
ہماری خوراک کے لیے، تصویر کچھ ملی جلی بنتی ہے۔ ایک جانب، گندم اور دیگر کچھ فصلیں کاربن زدہ فضا میں بھی کم پانی ملنے پرتیزی سے پھلتی پھولتی ہیں۔جبکہ دوسری جانب مکئی زیادہ گرمی برداشت نہیں کرپاتی، اور یہ امریکا کی نمبر ون فصل ہے، سالانہ پچاس ارب ڈالر کی پیداوار ہے۔
عالمی سطح پر، موسمی تبدیلی کے خوراک، فصلوں، اور اُن کی پیداوار میںاثرات مختلف ہیں۔ وسط صدی تک جنوبی یورپ میں گندم اور مکئی کی پیداوار نصف تک گھٹ سکتی ہے۔ صحرائے افریقا میں کسان پیداوار میں بیس فیصد کمی کا سامنا کرسکتے ہیں، اور لاکھوں ایکڑ اراضی خشک پڑسکتی ہے۔ خوراک کی قیمتیں بیس فیصد تک بڑھ سکتی ہیں۔ چین میں شدید قحط آسکتے ہیں، کہ جس کا زرعی نظام دنیا کی آبادی کے ایک پانچویں حصہ کو گندم، چاول، اور مکئی مہیا کرتا ہے۔ یہ صورتحال خوراک کا عالمی بحران پیدا کرسکتی ہے۔
زیادہ گرمی اُن جانوروں کے لیے جو ہم کھاتے ہیں، اور جن کا دودھ پیتے ہیں، دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔ گرمی ان کی پیداواری صلاحیت کم کردے گی اور عمریں بھی گھٹادے گی۔ ڈیری مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی۔ سمندری خوراک پر انحصار کرنے والے بھی مشکل میں پڑجائیں گے۔ کیونکہ شدید گرمی میں، کسی سمندری حصہ میں زیادہ آکسیجن ہوگی اور کہیں کم ہوگی، مچھلیاں مقامات بدلتی رہیں گی، اور خوراک کی فراہمی ممکن نہ ہوپائے گی۔ ساحلی سنگستان coral reefمکمل طور پر فنا ہوسکتے ہیں، اور اس طرح ایک ارب سے زائد انسان سمندری خوراک کی کمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔
(جاری ہے)