’’رئیسانہ حکمرانی میں در آنے والے نئے رجحانات اور سندھ میں بہتر حکمرانی کا خواب‘‘

معروف کالم نگار اور اینکر پرسن نثار کھوکھر نے بروز ہفتہ 17 اپریل 2021ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں پی پی پی کی سندھ میں طرزِ حکمرانی کے حوالے سے جو چشم کشا خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’اس روز لاڑکانہ پولیس کے اس سربراہ کا اتنی عجلت میں تبادلہ کیا گیا کہ موصوف کی جگہ پر دوسرا افسر مقرر کرنے کا بھی انتظار نہیں کیا گیا۔ عام طور پر پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرریوں پر آئی جی سندھ کے دستخط ہوا کرتے ہیں، لیکن لاڑکانہ پولیس کے سابق سربراہ مسعود بنگش کے آرڈر پر ’فار‘ کرکے دستخط کسی اور افسر کے کیے گئے تھے۔ جو افراد اس سطح کے اہلکاروں کے تبادلوں اور تقرریوں کی باریکیوں سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ انگریزی لفظ ’ان سیریمونیل‘ والا تبادلہ ہوا تھا، یعنی بگ باس کے ہاں سے صرف ’’ہاں‘‘ ہوئی تھی اور آرڈر جلدی سے واٹس ایپ کراکر بعدازاں اسے وائرل کردیا گیا۔ مسعود بنگش سندھ کے مختلف اضلاع میں بطور پولیس افسر تعینات رہے ہیں، اور مجرموں سے براہِ راست مقابلے یا پھر اُن کے ساتھ ہاف فرائی، فل فرائی کرنے کے حوالے سے ان کی شہرت رہی ہے۔ (ہاف فرائی کا مطلب ہے ملزم / مجرم کو پولیس کے ساتھ خودساختہ مقابلے میں گولیاں مارکر عمر بھر کے لیے معذور یا مفلوج بنادینا، اور فل فرائی کا مطلب ہے ملزم کو پولیس کے ساتھ مقابلہ ظاہر کرکے ہلاک کردینا، مترجم)۔ سیاسی افراد میں ان کی ساکھ اور وقعت اُس وقت بڑھی جب سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے موصوف کو اپنے ضلع خیرپور میرس میں تعینات کروایا۔ بعد میں ان کی تقرری ضلع گھوٹکی میں ہوئی۔ ضلع لاڑکانہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ تین برس پیشتر اُس وقت آئے جب سندھ پر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو خراب حکمرانی کی شکایات ملیں، اور انہوں نے اپنے ضلع لاڑکانہ کو دیگر کے اثرات سے باہر نکالا اور اپنے ضلع میں حسبِ منشا افسران کی تقرریاں کرانے لگے۔ ان ایام میں بلاول بھٹو کی زیادہ تر ملاقاتیں گھوٹکی کے سردار محمد بخش مہر کے ساتھ رہا کرتی تھیں۔ جب محمد بخش مہر، بلاول بھٹو کے ہاں مسعود بنگش کی اپنے ضلع گھوٹکی میں تقرری کی سفارش لے کر پہنچے تو بلاول نے دوستانہ حجت میں بزبانِ انگریزی محمد بخش مہر سے کہا کہ اگر مسعود بنگش اتنا اچھا افسر ہے تو یہ افسر مجھے اپنے ہاں لاڑکانہ میں چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت عرصے کے بعد لاڑکانہ میں کسی پولیس افسر کی تقرری بغیر کوئی بریف کیس (نوٹوں سے بھرے ہوئے) دیے ہوئے ممکن ہوسکی تھی، لیکن شرط یہ رکھی گئی تھی کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز ان (مسعود بنگش) کے کارِ سرکار میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اور عملاً پھر ہوا بھی اسی طرح۔ بعدازاں لاڑکانہ کے ایم پی ایز اور ایم این ایز یہ فریاد لے کر بلاول بھٹو کے ہاں گئے کہ یہ افسر ہماری تو سنتا ہی نہیں، بلکہ ہمارے مخالف وڈیروں یا ایم پی ایز وغیرہ کی اتنی زیادہ سنتا ہے کہ فیصلے کرانے کی غرض سے بھی (نجی معاملات اور لڑائی جھگڑے وغیرہ کے امور نمٹانے کی خاطر) انہی کے ہاں بھیجتا ہے۔ اسی طرح سے بلاول بھٹو نے لاڑکانہ میں پنجاب سے آنے والے ایک افسر کو بطور ڈپٹی کمشنر مقرر کرایا اور اسے بھی بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کام کرنے کی ہدایت کی۔ اُس وقت وفاقی حکومت اور وفاقی بڑے بھائی (شریف برادران) پیپلز پارٹی پر اتنے زیادہ برہم تھے کہ ادی وڈی (آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور) کو راولپنڈی، اسلام آباد میں گرفتار کراکے پیشیاں بھگتوا رہے تھے اور دوسری جانب سندھ میں اومنی گروپ کے دفاتر پر چھاپے پڑوا کر یہ تاثر دے رہے تھے کہ حکومتِ سندھ کسی کام کی نہیں ہے اور صرف ایک نجی کمپنی اسے چلا رہی ہے۔
اُن دنوں بلاول بھٹو نے اپنے ضلع میں تو اچھی ساکھ کے حامل افسران لگوائے، لیکن خود سندھ بھر میں مختلف معاملات کی نگرانی کرتے رہے اور اپنی پارٹی کے اندر دیگر بارسوخ افراد کو عملی طور پر ڈرائیونگ سیٹ سے اُٹھاکر پیچھے بٹھا دیا۔ ان ایام میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے اندر ستائے گئے متاثرہ رہنمائوں کی لابی میں خوشی کی لہر ایک دوڑی ہوئی تھی کہ انہیں بھی برس ہا برس کے بعد ایوانِِ اقتدار میں حصہ اور اہمیت ملنی شروع ہوئی تھی۔ بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی کے کسی ایم این اے، ایم پی اے کے بجائے اپنے سیاسی سیکریٹری کو لاڑکانہ کے معاملات دیکھنے اور نگرانی کی ذمہ داری سونپ دی۔
لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گھر، یا اس کا آبائی حلقہ ہے جہاں پر جب بھی کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اب اقتدار کی اصل باگ (لگام) کس کے ہاتھوں میں آئی ہوئی ہے۔ لاڑکانہ کے امور حکمران جماعت پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کے حالیہ بارہ تیرہ برس میں مختلف منیجرز کے توسط سے چلاتی اور تبدیل کرتی رہی ہے۔ جب وفاق میں رئیس وڈے (سابق صدر آصف زرداری) کا راج تھا تو انہوں نے اپنی کمپنی کے ایک منیجر اور لاڑکانہ کے باشندے ڈاکٹر (ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو کی جانب اشارہ لگتا ہے، مترجم) کو لاڑکانہ کے معاملات نمٹانے کی ذمہ داریاں سونپیں، اور پھر ایک عجیب منظر دیکھا گیا کہ اقتدار کے قریب رہنے والے افراد نے ہوا کا بدلتا ہوا رُخ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب موصوف کی طرف دوڑیں لگانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ جنہیں کچھ بلڈرز نے اپنی جانب سے ایک بنگلہ بھی گفٹ کیا کہ سائیں لاڑکانہ میں آپ کا مستقل قیام بے حد ضروری ہے۔ انہی دنوں مالی معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ رئیس وڈے (زرداری صاحب) کو مع ثبوتوں کے یہ بتایا گیا کہ آپ کے منیجر نے اوگاڑی (وصولی) تو کی ہے لیکن کمپنی میں کچھ بھی جمع نہیں کروایا گیا ہے۔ رئیس (سابق صدر زرداری) نے بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اس ڈاکٹر منیجر کو اتنی دور کرڈالا کہ جو مقامی رہنمائوں کی ملاقاتیں کرایا کرتا تھا اور وفود کو منگوایا کرتا تھا خود اُس کا اپنا داخلہ تک نئوں دیرو ہائوس لاڑکانہ میں بند کردیا گیا، بلکہ ضلع لاڑکانہ میں اس کے آنے کی بھی ممانعت کردی گئی، اور بالآخر اسے ملک تک چھوڑنا پڑا۔ بعد میں معافیوں تلافیوں کے بعد ڈاکٹر موصوف کو سندھ آنے کی اجازت دی گئی۔ اس ڈاکٹر کے خلاف مالی بے قاعدگیوں کے ثبوت بھی اس مقامی رہنما نے فراہم کیے جس کی خود اس منیجر ڈاکٹر نے رئیس وڈے کے ساتھ ملاقات کرائی تھی، وگرنہ پہلے وہ پارٹی رہنمائوں کی منت سماجت کرتا پھرتا تھا کہ کسی طرح سے اسے باڈی گارڈز کے اسکواڈ میں شامل کرنے کا ایک موقع دیا جائے۔ رئیس وڈے (سابق صدر زرداری) کے منیجر کے تجربے کے بعد اسی مقامی طور پر کم اہمیت کے حامل رہنما کو آگے لایا گیا اور اسے تبادلوں، تقرریوں سے لے کر ٹھیکوں وغیرہ تک کا منیجر مقرر کیا گیا، اور لوگوں نے ایک مرتبہ پھر بدلتی ہوئی ہوائوں کا رخ دیکھتے ہوئے اس کی جانب دوڑ لگانی شروع کردی، جو لوگوں سے میل ملاقاتوں سے لے کر اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سیاست میں اس طرح سے لے کر آیا کہ اب موصوف کو سیاست سے آئوٹ کرنا مشکل ہوچکا تھا، لیکن بلاول کی ٹیم کے انٹر ہونے کی وجہ سے دوبارہ سابقہ ٹیم سائیڈ پر ہوگئی اور بلاول کی ٹیم آگے آگئی۔ بدقسمتی سے بلاول کی ٹیم اپنی بدتر حکمرانی کی چھاپ خود پر سے اُتارنے کے بجائے خود بھی ماضی کے بھوتارکی سسٹم کو بڑھاوا دینے کا باعث بنی، اور اس ٹیم کے اندر ایک رہنما کا بھانجا اس قدر آگے نکل گیا کہ اس کے خلاف ثبوت بلاول تک جا پہنچے۔
ان مقامی مناظر کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پر پی ڈی ایم سے الگ جاکھڑے ہونا اور اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کو تسلیم کرنا ہی دراصل ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا ہے، اور اب ایک مرتبہ پھر سے نہ صرف لاڑکانہ بلکہ سندھ بھر کے فیصلے کرنے میں پہلے والی ٹیم اس قدر زیادہ سرگرم اور متحرک ہوگئی ہے کہ لوگ مبینہ طور پر ’’بریف کیس پوسٹنگس‘‘ کے انتظار میں بھرے ہوئے بریف کیسوں کے ساتھ اس ٹیم کے آگے پیچھے پھر رہے ہیں کہ انہیں ان کی من پسند پوسٹوں پر تعینات کیا جائے۔ اب خود بلاول کی ٹیم پیچھے ہٹ گئی ہے۔ سندھ کے رئیسانہ راج میں آنے والے ایسے نئے رجحانات کے بعد مقامی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ سندھ کابینہ میں ردوبدل بھی اب بلاول کے بجائے دوسروں کی مرضی سے ہوگا، جس کی وجہ سے فی الحال اسے مؤخر بھی کیا گیا ہے، جبکہ پارٹی ایم پی ایز، ایم این ایز کی اکثریت بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ انہیں کچھ ریلیف دیا جائے کہ آئندہ کچھ عرصے کے بعد الیکشن بھی آرہے ہیں، لہٰذا ان انتخابات کی تیاری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ابھی سے نچلی سطح کے اقتدار کے مزے لینے کا موقع فراہم کیا جائے، جس کا اثر مقامی سطح پر ڈائون ہوگا۔ سرکاری نوکریاں خاص طور پر ماسٹری (اساتذہ کی ملازمتیں یعنی پی ایس ٹی، جے ایس ٹی وغیرہ) کی تقرری کے مراحل بھی اب اسی ٹیم کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ کیوں کہ رئیس وڈا تمام بھوتاروں کو آزمانے کے بعد اب سرِعام فرما رہے ہیں کہ آپ سے بہتر انتظام تو میری محترمہ ہمشیرہ صاحبہ (فریال تالپور) چلا رہی ہیں اور وہ خود کو ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر بھی ثابت کرچکی ہیں۔ لیکن مجبوری ہے کہ انہیں سرِعام وزیراعلیٰ سندھ مقرر نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ بقول ایک ایم پی اے کے، وزیراعلیٰ تو سندھ میں سید ہی بہتر لگتے ہیں۔