مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی ،قرآن کریم کی رُو سے ہر انسان محنت کش ہے

یکم مئی 1886ء کو ’’ھے مارکیٹ اسکوائر‘‘ شکاگو امریکا میں ایک بڑا حادثہ رونما ہوا جس کا اثر نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا پر پڑا۔ ایک صنعتی پلانٹ کے مزدوروں نے پولیس ایکشن کے خلاف ہڑتال کی اور مذکورہ بالا اسکوائر پر جمع ہوئے۔ اجتماعی اجلاس کے آخر میں کسی نامعلوم شخص نے بم دھماکہ کردیا۔ بہت سے لوگ اور آٹھ پولیس والے بھی مارے گئے۔ متعلقہ حکام نے اس پُرتشدد مظاہرے کا الزام مزدوروں پر ڈال دیا، اور آٹھ مزدور لیڈروں کو اس الزام میں گرفتار کرلیا، جبکہ یہ الزام کسی طور بھی ثابت نہ ہوسکا تھا کہ یہ مزدور لیڈر بم سازش میں شریک تھے۔ ان میں سے سات کو موت کی سزا سنائی گئی اور آٹھویں کو قید کیا گیا۔ سات میں سے چار کو پھانسی دے دی گئی اور ایک نے خودکشی کو فوقیت دی، بقیہ دو کی موت کی سزا قید ِ سخت میں تبدیل کردی گئی۔ یہ تین قیدی 1893ء میں ’’الی نائیر‘‘ کے گورنر جان آلٹ گیلڈ کے زمانے میں رہا کردئیے گئے۔ مگر یہ تحریک یہیں ختم نہیں ہوگئی، بلکہ ان مزدوروں کے خون نے رنگ لانا شروع کیا اور 1889ء میں ورلڈ سوشلسٹ پارٹیز کانگریس نے پیرس میں امریکا کی مزدوروں کی تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے مزدوروں کے لیے آٹھ گھنٹے یومیہ کا مطالبہ کیا، انہوں نے یکم مئی 1890ء کا دن اپنی تحریک کے بھرپور مظاہرے کے لیے منتخب کیا۔ اس کے بعد تو بہت سے ممالک میں یکم مئی مزدور کے دن کے طور پر منایا جانا شروع ہوگیا۔ بڑے بڑے جلسے، مظاہرے اور سیمینار، بلکہ محنت کشوں کی پریڈ کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ یہ دن امریکا میں ستمبر کی تحریک کے مماثل بھی سمجھا جاتا ہے جب 1882ء میں اوّل اوّل آٹھ گھنٹے یومیہ کام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حکومتوں اور مزدور تحریکوں نے متفقہ طور پر یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر تسلیم کرلیا اور اس دن عام تعطیل ہونے لگی اور دنیا کے مزدوروں کے سلسلے میں تقاریر اور دیگر تقاریب کا اہتمام ہونے لگا۔ اگرچہ یہ واقعہ شکاگو امریکا میں وقوع پذیر ہوا تھا، مگر بالشویک روس اور دنیا کے دیگر سوشلسٹ و کمیونسٹ ممالک میں اس کی بازگشت بڑی تیز آواز کے ساتھ سنی گئی، اور اس دن کو بڑے شایانِ شان طریقے سے منایا جانے لگا۔ پاکستان میں بھٹو صاحب کے زمانے میں اس دن کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور یہ ایک عام تعطیل کا دن تھا۔
جہاں جہاں یکم مئی مزدوروں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کے مظاہروں سے ایک بات کا بڑے بیّن طور پر پتا چلتا ہے کہ یہ اُن محنت کشوں کا دن ہے جو فیکٹریوں،کارخانوں اور ملوں میں جسمانی محنت ومشقت کا کام انجام دیتے ہیں، ان مظاہروں میں مزدوروں کی ٹریڈ فیڈریشن، مزدور انجمنیں اور عام جسمانی محنت کش بھرپور طریقے سے شرکت کرتے ہیں اور معاشرے میں بھی یہ بات حقیقتِ ثابتہ کی طرح تسلیم کرلی گئی ہے کہ یہ مزدوروں کا دن ہے اور مزدور وہی ہوتا ہے جو جسمانی محنت ومشقت کے کام انجام دیتا ہے۔ سوشلسٹ روس نے بھی جب مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کا نعرہ دیا تو اپنے سرخ پرچم کے لیے درانتی اور ہتھوڑے کا نشان پسند کیا، گویا مزدور سے مراد کھیت مزدور اور فیکٹریوں میں جسمانی مشقت انجام دینے والے انسان تھے۔ اگر ہم کسی لغت کو اٹھاکر دیکھیں تو وہاں بھی یہ نکتہ کارفرما نظر آتا ہے کہ مزدور کے بنیادی معنی میں جسمانی محنت و مشقت کا بنیادی عنصر ہے۔ مزدور کا لفظ دراصل دو لفظوں کا مرکب ہے: مزد+ وَر جس کے معنی محنت مزدوری کا معاوضہ حاصل کرنے والا ہیں۔ فارسی لفظ مُزد کے معنی مزدوری، اجرت طلب، تنخواہ، صلہ اور بدلے کے ہیں۔ اسی لیے مزدور کے معنی مزدوری کرنے والے یا اجرت پر کام کرنے والے کے ہیں۔ مزدوری کے معنی لغت میں کام کا معاوضہ، محنت کا صلہ، مشقت اور محنتانہ دئیے گئے ہیں، جب کہ مزدوری کرنے کے معنی محنت مشقت کا کام کرنا ہے۔
اس تمام بحث سے ہماری مراد یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں مزدور یا اس کا ہم معنی لفظ بولا جاتا ہے اُس سے انسانوں کا وہ گروہ مراد ہے جو جسمانی محنت ومشقت انجام دیتا ہو، خواہ وہ زمین کو پھاوڑے اور گیتی سے کھودتا ہو، فیکٹری یا کارخانے میں کام کرتا ہو، کھیت مزدور ہو، یا مشینوں پر انتہائی محنت ومشقت کے ساتھ خدمات انجام دیتا ہو۔ یورپ اور امریکا میں ایسے لوگوں کے لیے ’’نیلے کالر‘‘ والوں کی اصطلاح عام ہے۔ جو لوگ دفاتر، مدارس یا دیگر تجارتی وعلمی کام انجام دیتے ہیں وہ الگ الگ گروہ شمار ہوتے ہیں، اور ’’وہائٹ کالر‘‘ والوں کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یکم مئی کے موقع پر جو ترانے اور گیت ریڈیو، ٹیلی ویژن سے نشر کیے جاتے ہیں وہ بھی کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں:
مزدور کے ماتھے پر محنت کا پسینہ ہے
ہر قطرہ ہے اک موتی، ہر موتی نگینہ ہے
گویا مزدور وہی ہے جو پسینہ بہاکر محنت و مشقت کی خدمات انجام دے رہا ہے، اور اس گروہ میں وہ انسان ہرگز شامل نہیں ہیں جو حکیم، ڈاکٹر، اساتذہ یا سائنس دان وغیرہ ہیں۔
اس کے علاوہ ایک خیال آفرینی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ مزدوروں کا یہ طبقہ معاشرے میں کمتر حیثیت کا حامل ہے، جبکہ دوسرے طبقات اعلیٰ و ارفع درجات رکھتے ہیں۔ یوں تو محنت کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیا کرتے تھے، جنگِ خندق میں عام مزدوروں کی حیثیت سے کام کررہے تھے، اور مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنے کا حکم بھی آپؐ ہی کا ہے۔ مگر ان تمام لن ترانیوں کے باوجود پرنالہ وہیں گرتا ہے کہ بندہ کوچہ گردی ہی کرتا رہتا ہے اور خواجہ بلند بام سے اترنے کا نام نہیں لیتا۔ مزدور کی حیثیت معاشرے میں ڈھکی چھپی نہیں، ہمارے ہاں کمی کمین کے الفاظ اس بات کی بھرپور غمازی کررہے ہیں کہ ہاتھ سے کام کرنے والا کیا مقام رکھتا ہے، اس کے علاوہ بیٹھنے کی جگہ کیا ہے، اسے دیگر لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے کن آداب کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اس کے رشتے ناتے کن لوگوں سے ہوسکتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے خیال کی پرواز کیا ہونی چاہیے۔ بقول شخصے: نماز تو محمود وایاز ساتھ ہی مساوات کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگر نماز کے بعد ایاز نے محمود کے جوتے اٹھائے اور پیچھے پیچھے چل پڑا۔گویا ہر شخص کی ایک حیثیت مقرر ہے، آقا آقا ہے، مزدور مزدور ہے۔ بالِ جبریل میں علامہ اقبال نے لینن کی زبانی ’’اللہ سے شکوہ‘‘ کہلوایا جس سے درج بالا کیفیات کا بھرپور اندازہ ہوجاتا ہے:
’’تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے کا سرمایہ سرپرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر اے روزِ مکافات‘‘
بالِ جبریل میں علامہ فرماتے ہیں:
’’خلقِ خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی‘‘
بندہ و آقا کی یہ تفریق، محنت ومشقت کرنے والے اور دیگر امور انجام دینے والے دو گروہوں میں یہ زمین وآسمان کا بُعد، اور معاشرے میں ہر اُس شخص کو بری نظر سے دیکھنے کا رواج جو جسمانی محنت ومشقت کرتا ہو، اور ہر اُس شخص کی عزت کا تصور جو کم از کم محنت کرتا ہو، بلکہ یہاں تک کہا جاسکتا ہے کہ سب سے زیادہ عزت اُس کی ہوتی ہے جو کچھ نہ کرتا ہو بلکہ عیش کی کھاتا ہو۔ جاگیردار، خوانین، وڈیرے اور سرمایہ دار اگر کچھ نہ کرتے ہوں صرف حقہ گڑگڑاتے، اپنے کمی کمینوں پر احکامات صادر کرتے نظر آئیں تو ان کو حد درجہ قابلِ عزت، پُرشکوہ اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے۔ اگر ان باتوں کا بغور مطالعہ کیا جائے اور تجزیہ کیا جائے تو جو بات نکھر اور ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض لوگ محنت کرتے ہیں اور بعض لوگ نہیں کرتے، اور معاشرے نے ان گروہوں کی عزت و تکریم کے اپنے معیار بنا لیے ہیں۔ نیز یہ کلیہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر شخص کے لیے محنت کرنا ضروری نہیں، جس قدر محنت سے دور ہوں گے اسی قدر لائقِ احترام۔ یہ سب انسانوں کا خود ساختہ نظام ہے جس کی سزا مختلف گروہ بھگت رہے ہیں۔
اس ضمن میں اور اس موڑ پر فکر کا تقاضا ہے کہ دیکھا جائے کہ قرآن کریم کیا رہنمائی کرتا ہے، اور اس کی تعلیمات کیا ہیں۔ کیا وہ ان نظریات سے متفق ہے یا اس کی اپنی کوئی راہ ہے۔ محنت کے موضوع پر قرآن کریم کی 53 ویں سورت النجم کی 39ویں آیت ایک ایسی چمکتی ہوئی روشن راہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے تمام معاملہ بالکل صاف، نکھر اور ابھر کر سامنے آجاتا ہے اور تمام اشکال حل ہوجاتے ہیں۔ ارشاد ہے:
وان لیس للانسان الا ما سعی۔ جس کے معنی ہیں کہ انسان کو اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا جس کے لیے اس نے محنت کی ہو۔ گویا وہ صرف محنت کے ماحصل ہی کا حق دار ہے، گویا: ’’قرآنِ کریم کی رُو سے ہر انسان محنت کش ہے۔‘‘
یہ آیتِ کریمہ تمام انسانی گروہوں کا رتبہ، درجہ اور ان کی حیثیت متعین کردیتی ہے، اور معاشرے کی اس تفریق کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے جس نے محنت و مشقت کی بنیاد پر انسانوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ ہر انسان کے لیے (ماسوا بچوں اور معذوروں کے) محنت کا فریضہ ازبس ضروری ہے، اور وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے جو دولت یا اثاثہ حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے اسے محنت کرنی ہوگی، بغیر محنت کیے اس کا کسی چیز پر حق نہیں۔ جب معاشرے میں ہر شخص محنت کا پابند ہوگا تو ہر شخص ’’محنت کش‘‘ ہوگا، ہر شخص ’’مزدور‘‘ ہوگا، اور اس طرح یکساں عزت کا حق دار ہوگا۔ معاشرے میں یقیناً درجات ہوں گے مگر وہ اختلافاتِ افعال کی وجہ سے ہوں گے۔ لوگوں کا مختلف اشغال کی طرف مائل ہونا اور مختلف پیشے اختیار کرنا بھی اللہ کی رحمت ہے، ورنہ مختلف امور کا انجام پانا اور لوگوں کے اذواق کا مختلف نہ ہونا معاشرے میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرسکتا تھا۔ سورۃ الزخرف جو قرآن کریم کی 43ویں سورت ہے، اس کی آیت 32 ملاحظہ فرمائیے:
اھم یقسمون رحمت ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجت لیتخذ بعضھم بعضا سخریا(43/32)
(ترجمہ) ’’کیا لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک دوسرے پر درجے بلند کیے تاکہ ایک، دوسرے سے خدمت لے۔‘‘
اب اگر محولہ بالا دونوں آیات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ انسان کا تعلق خواہ کسی گروہ سے ہو یعنی خواہ وہ جسمانی محنت ومشقت کرتا ہو، چاہے اس کا ذریعہ آمدنی ذہنی کاوش ہو، ہر دو ذرائع میں محنت کا عنصر قدر مشترک ہوگا۔ اگر حصولِ زر کا کوئی ایسا ذریعہ تلاش کیا گیا ہے جس میں محنت موجود نہیں تو وہ اللہ کی نظر میں جائز نہیں، اور ایسے ذریعے سے اجتناب ضروری ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے جو ذرائع آمدن اختیار کیے جاتے ہیں ان کو عمومی طور پر پانچ طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے جو درج ذیل ہیں:
(1) عطیہ:کوئی شخص کسی کو کوئی چیز ہدیہ کردے مگر اس میں لین دین کا معاملہ نہیں ہوتا۔
(2) اجرت: محنت کا معاوضہ ہوتا ہے، اس میں سرمایہ کچھ نہیں لگایا جاتا۔
(3) ربوٰ:دوسرے کو سرمایہ دیا جاتا ہے اور اس سرمایہ پر اصل سے زائد وصول کیا جاتا ہے، سرمایہ دینے والا محنت نہیں کرتا بلکہ دوسرے کی محنت کا ایک حصہ وصول کرتا ہے۔
(4) منافع: تجارت میں حاصل ہوتا ہے جس میں سرمایہ بھی لگایا جاتا ہے اور محنت بھی کی جاتی ہے۔
(5) قمار:قمار و میسرہ (جوئے) میں نہ سرمایہ لگایا جاتا ہے اور نہ محنت کی جاتی ہے۔
قرآن کریم کی رو سے عطیہ، اجرت اور منافع حلال و جائز ہیں، جبکہ ربوٰ اور قمار کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ عطیہ چونکہ لین دین کا معاملہ ہوتا ہی نہیں اس لیے اُس میں کسی قسم کی گفتگو کی زیادہ ضرورت نہیں۔ البتہ دو چیزوں (اجرت اور منافع) کو جائز قرار دیا گیا، ان میں محنت کا عنصر موجود ہے۔ اور جن دو چیزوں کو حرام قرار دیا گیا (ربوٰ اور قمار) ان میں محنت سرے سے موجود ہی نہیں۔گویا محنت ہی وہ رکنِ رکین ہے جو ذرائع آمدن اور ہمارے نظامِ اقتصاد کی جڑ ہے، اصل و بنیاد ہے۔ اس موقع پر اگر اس بات کی بھی وضاحت کردی جائے تو نامناسب نہ ہوگا کہ قرآنِ کریم کی رو سے جہاں ہر گروہ کے لیے محنت کا عنصر ضروری قرار دیا گیا ہے وہاں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ سورۃ النساء کی 32ویں آیت میں واضح کردیا گیا کہ:
ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن(4/32)
(ترجمہ ) ’’اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو۔ مردوں کو اُن کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کیے، اور عورتوں کو اُن کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کیے۔‘‘
ہم نے اوپر سورۃ النجم کی 39ویں آیت کا جو حوالہ دیا ہے وہی ہمارے نظامِ اقتصاد کا قبلہ بھی متعین کرتی ہے۔ ہمارے ماہرینِ اقتصادیات جن کو اصلاً بوجھ بجھکڑ کہنا چاہیے وہ عوام الناس کو شراکت اور مضاربت جیسی اصطلاحات سے مرعوب کرکے موجودہ سودی بینکاری نظام کو مشرف بہ اسلام کرنے کے چکر میں لگے رہتے ہیں، حالانکہ ان اصطلاحات کا تعلق دور کا بھی قرآن کریم سے نہیں ہے، بلکہ حقیقتاً جن نظریات کا یہ پرچار کرتی ہیں وہ قرآن کریم کے نقیض ہیں، یہ اصطلاحات مسلمانوں کے دورِ ملوکیت کی پیداوار ہیں۔ یہ ماہرینِ اقتصادیات ایک نکتہ بڑے فخر کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ اسلامی بینکاری میں منافع (سود) متعین نہیں ہوگا، اور اس طرح یہ شیر مادر کی طرح حلال ہوجائے گا۔ یہ حضرات اگر ذرا سا اس بات پر غور کرلیتے کہ قرآن کریم نے سورۃ البقرہ کی 275ویں آیت میں اس بات کی تشریح کردی ہے کہ تجارتی منافع اور ربوٰ (سود) ایک جیسے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے ربوٰ کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے۔ تجارتی منافع کو حلال کیوں قرار دیا اور سود کو حرام کیوں قرار دیا گیا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ تجارت میں سرمایہ ضرور لگایا جاتا ہے مگر اس میں محنت بھی کی جاتی ہے، اور دراصل یہ منافع اسی محنت کا ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگ ’’آٹے میں نمک‘‘ کی بات ایسے موقع پر اسی لیے کہتے تھے۔ اب تجارت میں سرمایہ کا منافع(سود) بھی شامل کرلیا گیا ہے اور محاورہ الٹ گیا ہے، یعنی ’’نمک میں آٹا‘‘ منافع ہونے لگا ہے۔ رہی بات ربوٰ کی، تو اسے اس لیے حرام قرار دیا گیا اور اسے تجارتی منافع کے غیر مماثل قرار دیا گیا کیونکہ اس میں محنت کا عنصر مفقود ہوتا ہے، اور یہ سرمایہ پر بڑھوتری ہوتی ہے جو ناجائز ہے۔ احادیث و روایات میں ایسی امثال بکثرت موجود ہیں جو شراکت و مضاربت کی نفی کرتی ہیں۔ صحاح ستہ کی ایک روایت حضرت رافع بن خدیج ؓ سے مروی ہے کہ:
’’میں نے اپنے دونوں چچاؤں (ظہیر اور مہیر) سے سنا جبکہ وہ دونوں اپنے محلہ والوں سے کہہ رہے تھے کہ زمین کو کرایہ پر بندوبست کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمادی ہے۔‘‘
یہی راوی اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں: ’’میرے ماموں ایک دن آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی بات سے منع فرما دیا ہے جو تم لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش تھی مگر اللہ اور رسولؐ کی فرماں برداری ہمارے اور تمہارے لیے کہیں زیادہ نفع بخش ہے۔ رسول اللہؐ نے تہائی چوتھائی پر اور کرایہ پر زمینیں دینے سے بالکل منع فرمادیا ہے۔‘‘ (کنزالعمال)
جابر بن عبداللہ ؓ سے بخاری ومسلم میں روایت ہے کہ ’’جس کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ زمین ہو اُسے وہ خود ہی کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو بخش دے، یا اپنی زمین کو یونہی پڑا رہنے دے۔‘‘
ان احادیث و روایت سے بھی اس بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ ذرائع آمدن کے لیے ازخود محنت کی ضرورت ہے۔ دوسرے کی محنت پر آکاس بیل بن کر گزارہ کرنا حرامِ قطعی اور ناجائز ہے۔ محنت ہی وہ ذریعہ ہے، وہ عنصر ہے جو ہماری آمدنی کا واحد منبع ومخرج ہے اور اسی میں عظمت ہے۔ ہر شخص اپنا ذریعہ آمدن حاصل کرنے کے لیے چونکہ محنت پر مجبور ہے اس لیے ہر انسان ازروئے قرآن کریم محنت کش ہے اور مزدور ہے خواہ وہ کسی قسم کی بھی محنت کرتا ہو، جسمانی یا دماغی۔ اسی نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے راقم الحروف علامہ اقبال کے وہ اشعار نقل کرتا ہے جو انہوں نے خضر سے سوال جواب کی صورت میں بیان کیے ہیں۔ خضر سے سوال کیا گیا:
’’زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش؟‘‘
خضر کا جواب ملاحظہ فرمائیے:
بندئہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیامِ کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے