غصیلا پن ، بے توجہی، تنہائی پسند کہیں Autism تو نہیں!

یہ ASD کیا ہے، کیسے پتا چلے گا؟ کوئی علاج ہے کہ نہیں؟

”بالکل توجہ نہیں دیتا، بچپن سے ہی تنہائی پسند ہے، بس اپنے آپ میں مگن… مخصوص کھلونوں سے ہی کھیلتا ہے، کسی دوسرے بچے کے ساتھ نہیں کھیلتا، روٹین سے ہٹائیں تو شدید غصہ… آپ جو بات کریں اسی کو دہراتا رہتا ہے۔ آنکھوں میں آنکھ ملا کر بات نہیں کرتا۔“
ایک دو والدین روز اس طرح کے سوالات ضرور کرتے ہیں۔ یا پھر بچہ آپ کے کلینک میں اتنی اودھم مچاتا ہے کہ آپ خود ہی اپنے مشاہدات کی روشنی میں گھر کی روٹین پوچھنا شروع کردیتے ہیں۔
آخر یہ سب کچھ ہے کیا؟ کیوں ایسا ہوتا ہے؟ کچھ بچے کیوں دوسرے بچوں سے الگ تھلگ رویوں کا اظہار کرتے ہیں؟ کیا یہ بچے بیمار ہیں؟ کیا ان کو نفسیاتی مریض کہا جاسکتا ہے؟ اور ان کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ بچے ایک متعین طریقے سے نئے کام سیکھتے ہیں۔ اس کو آگے بڑھنا کا سنگِ میل (Developmental Mile Stone) کہا جاتا ہے۔ اور اگر وہ متعین کام نہ سیکھ سکیں تو ان کو (Developmental Delay). کہیں گے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں۔
والدین کے تاثرات تو آپ کے ذہن میں ہیں نا… خاص ماحول میں خوش رہنے والے بچے یا ایک ہی بات کو بار بار دہرانے والے بچے، تنہائی پسند یا شدید ردعمل دینے والے بچے، ASD (Autism Spectrum Disorder)….. یہ ایسے اعصابی رویوں (Neurodevelopmental) کا نام ہے جن میں کئی مسائل کو یکجا کردیا گیا ہے۔ بچوں کے ماہرینِ نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ بہت سارے مسائل جو کہ بڑوں میں نظر آتے ہیں اُن کی جڑیں بچپن کے رویوں میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
مثلاً یہ کہنا کہ یہ تو بچپن سے ہی تنہائی پسند ہے، یا پُرتشدد رویّے کا مالک ہے، یا ہمیشہ سے چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنانا اس کا کام ہے، بہت حساس طبیعت کا مالک ہےٍ ذرا سا شور ہو، زیادہ لوگ باتیں کریں تو یہ ہیجان میں مبتلا ہوجاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ ASD کیا ہے، کیسے پتا چلے گا؟ کوئی علاج ہے کہ نہیں؟ ہم کیا کرسکتے ہیں؟
اگر آپ کا بچہ آپ سے آنکھ ملا کر بات نہیں کرتا، یا اس سے بھی پہلے آپ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھتا نہیں، تو یہ تشویشناک بات ہے۔ عام طور پر بچے دو ماہ کی عمر سے Eye Contact کرلیتے ہیں۔ اسی طرح 6 ماہ کا بچہ عام طور پر آپ کے ساتھ گفتگو کرتا ہے اپنی زبان میں… اور 9 ماہ کا بچہ اپنے نام پر چونک کر دیکھتا ہے۔ سال بھر کی عمر میں ٹاٹا بھی کرتا ہے۔
اگر کوئی بچہ یہ تمام کام نہیں کرتا اور آپ کے متوجہ کرنے پر توجہ نہیں دیتا، اپنے مخصوص انداز میں ہی کھیلتا ہے اور روٹین سے ہٹانے پر شدید غصے کا اظہار کرتا ہے، یا کسی نئی جگہ یا ماحول میں ایک دم گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے، تو ایسے بچوں کو چیک اَپ کی ضرورت ہے۔ دوسرے معنوں میں اگر آپ کا بچہ اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں الگ محسوس ہوتا ہے اور تنہا رہنا پسند کرتا ہے، ایک خاص ترتیب سے ہی کوئی کام کرتا ہے اور اس میں تبدیلی اسے شدید متاثر کرتی ہے تو اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ بہت زیادہ غصے کا اظہار کرے جو کہ اُس کی عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں، تب بھی اس کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ یعنی ڈیڑھ دو سال کا بچہ جو اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف محسوس ہو، بہت زیادہ غصہ کرے۔ عام طور پر اس عمر کا بچہ جو کہا جائے وہ سمجھ نہ سکے، آپ سے آنکھ ملانے میں اسے مشکل ہو، یا بالکل ہی الگ دنیا میں رہتا ہو، ایسا بچہ شاید ASD کی کیٹگری میں داخل ہے۔
تنہائی پسندی، غصیلا پن، توجہ نہ دینا
عام طور پر ڈیڑھ سال کی عمر سے آپ ASD کے بچوں کو پہچان سکتے ہیں۔ رپورٹنگ عموماً والدین کی طرف سے ہی ہوتی ہے، یا پھر بطور ڈاکٹر آپ کا مشاہدہ بتاتا ہے۔ لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ یہ تینوں علامات اس عمر کے بچوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں، اس لیے اگر یہ علامات عام بچوں سے زیادہ ہوں اور کئی مرتبہ محسوس کی گئی ہوں، مختلف مواقع پر مختلف لوگوں نے محسوس کی ہوں تب آپ اس پر مخصوص انداز میں کام کرکے پھر تشخیص کرسکتے ہیں۔ چونکہ خون کا کوئی ٹیسٹ ایسا نہیں کہ آپ اس کو کرکے بتاسکیں۔ اس لیے یہ صرف اور صرف تربیت یافتہ ڈاکٹر، بچوں کا ماہر نفسیات یا اس شعبے کا کوئی ماہر، والدین سے گفتگو کرکے اور بچے کے ساتھ کھیل ہی کھیل میں مخصوص انداز سے ہی کرسکتا ہے۔ ASD کے بارے میں ماہرین متفق ہیں کے اس میں کچھ وراثت کا رول ہے اور کچھ ماحولیاتی اور جسم میں موجود کیمیائی عمل کا۔ مگر حتمی طور پر اس کی مکمل وجوہات کا علم ابھی تک نہیں۔
علاج اگر جلدی تشخیص کرلیا جائے تو رویوں میں بہتری ممکن ہے، اور زیادہ تر ماہرین ABA … (Applied Behavior Analysis) یعنی ہر شخص کے رویّے کے حساب سے انفرادی علاج کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ادویہ بھی استعمال کی جاتی ہیں، مگر زیادہ تر رویوں کی مجموعی طور پر مخصوص انداز میں تبدیلی پر ہی کام کیا جاتا ہے۔
اس طرح کے بچے بڑے ہوکر بھی عام طور پر تھوڑے سے مختلف لوگ ہی ہوتے ہیں، لیکن اگر ان کو تھراپی نہ ملے تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اگر آپ کے بچے میں کوئی ایسی علامات ہیں جو کہ اُس کے ہم عمروں کے مقابلے میں مختلف ہیں اور اس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مثلاً بچہ بات پر توجہ نہیں دیتا، غصے کا بے جا اظہار کرتا ہے، یا پھر تنہائی پسند ہے اور مخصوص انداز میں ہی رہنا چاہتا ہے تو ایسے میں بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں کہ کہیں بچہ ASD کا شکار تو نہیں!